تیسری جنگ عظیم عالم انسانیت کے لئے ہلاکت خیز !
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
پیرس حملوں کے بعد ۰۰۰ کیا عالمی اتحاد
دہشت گردی ختم کر پائے گا؟
پیرس میں حملوں کے بعد عالمی سطح پر اتحاد کی کوششیں جاری ہیں، ماحولیاتی
آلودگی سے پاک و صاف کرنے کے لئے ان دنوں پیرس میں کم و بیش 150ممالک کے
سربراہان مملکت کی کانفرنس جاری ہے۔ فرانس اور روس نے جس تیزی سے پیرس
حملوں کے بعد شدت پسند نام نہاد جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لئے
تیزی پیدا کردی ہے اسے دشمنانِ اسلام نے سراہا ہے لیکن جب شام، عراق پر
امریکہ و اتحادی ممالک اور روس کی جانب سے کئے جانے والے شدید فضائی حملوں
کی خبریں شوشیل میڈیا، پرنٹ و الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آتی ہے
تو انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ ان حملوں میں معصوم بچوں کی ہلاکت ، والدین کے
ہاتھوں میں روتے، بلبلاتے زخمی بچے جن کے اعضائے جسمانی ٹوٹ چکے ہوتے ہیں،
جنکے جسم لہولہان ہوتے ہیں یا زندہ رہنے والے ان معصوم ننھے منے بچے اپنے
دیگر افراد خاندان کے ساتھ ان حملوں سے بچنے کے لئے باگتے ہوئے دکھائی دیتے
ہیں ، ان حملوں کی ویڈیوز دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ دشمنانِ اسلام کے ان
شدید حملوں کی زد میں آنے کے باوجود مسلمان مرد و خواتین اور بچے اپنے خالق
الٰہی کو جس طرح پکارتے ہیں ، اس سے جس طرح مدد طلب کرتے ہیں اور جس طرح
اُس کے آسرے کی تلاش میں بھاگتے ہیں اس سے انکے ایمان کی تازگی اور پختگی
کا ثبوت ملتا ہے ۔ دشمنانِ اسلام عالمی سطح پر مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے
نشانہ بنارہے ہیں کہیں پر انہیں تعلیمی و معاشی طور پر پسماندہ بنایا جارہا
ہے تو کہیں ان پر مختلف بہانوں سے جان لیوے حملے کئے جارہے ہیں ان تمام
کارروائیوں کے بعد جب مسلم نوجوان اپنی حفاظت اور دشمنانِ اسلام کی
کارروائی کا مردانہ وار مقابلہ کرنے لگتے ہیں تو انہیں دہشت گرد کے طور پر
پیش کیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض نام نہاد جہادی تنظیمیں یا دشمنان
اسلام ،اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسے ویڈیوز جاری کررہے ہیں جس سے
مسلمانوں کو سفاک قسم کے خطرناک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ عالمِ
اسلام آج تعلیمی، معاشی اعتبار سے پسماندگی کی جانب بڑھ رہا ہے لاکھوں بچے
تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان عراق ، افغانستان
اور شام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو تباہ
و تاراج کیا گیا اور انہیں کس طرح بے گھر کرکے پناہ گزین کیمپیوں تک پہنچنے
کیلئے مجبور کیا گیا، اور آج ان پناہ گزیں کیمپیوں کے متلاشی مسلمانوں کو
روکنے کے لئے نئی نئی سازشیں رچی جارہی ہیں۔ پیرس حملوں کے بعد متلاشی پناہ
گزینوں کے لئے عالمی سطح پر دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں ۔
ترکی اب نشانہ پر تو نہیں؟
عراق ، افغانستان، شام کے بعد اب ترکی دشمنانِ اسلام کے نشانہ پردکھائی دے
رہا ہے۔ 24؍ نومبر کوترکی کے ایف 16طیاروں نے شام اور ترکی کی سرحد کے قریب
ایک روسی ایس یو 24جنگی طیارے کو ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر
مارگرایا۔ نیٹو کے جنگی قوانین و قواعد کے مطابق فضائی حدود کی خلاف ورزی
کرنے والے کسی بھی طیارے کو پہلے تین مرتبہ خبر دار کیا جاتا ہے، تین مرتبہ
خبردار کرنے کے باوجود اگر خلاف ورزی کرنے والا طیارہ اپنا راستہ تبدیل
نہیں کرتا تو پھر اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں ترکی
کے سفیر نے اپنے ایک خط میں سیکیوریٹی کونسل کو بتایا کہ دو نامعلوم جنگی
جہاز ترکی کی فضائی حدود میں داخل ہوئے ، دونوں جہازوں کو ترکی کی فضائی
حدود میں پانچ منٹ کے وقت میں دس بار متنبہ کیا گیا اور ایمر جنسی چینل کے
ذریعے ان سے ترکی کے فضائی حدود سے نکل جانے کیلئے کہا گیا ، اس کے باوجود
دونوں جہازوں نے وارننگ کو نظر انداز کیا جس کے بعد جنگی طیارے کو نشانہ
بنایا گیا جبکہ روس نے ترکی کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ روس شام میں صدر
بشارالاسد کے مخالف باغیوں سمیت دولت اسلامیہ کو فضائی حملوں کے ذریعے
نشانہ بنارہا ہے ۔ روس نے ترکی کی جانب سے اس جنگی طیارے کو گرانے کے بعد
ترکی کے خلاف بھاری اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں ترکی سے کھانے
کی اشیاء کی درآمدات اور ویزا فری سفر پر پابندی شامل ہے، روس اور ترکی کے
درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ روسی صدرولادی میر پوتن نے
فرانس کے صدر مقام پیرس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ترکی پر الزام عائد
کیا کہ اس نے روسی جنگی طیارے کو شام کی سرحد کے قریب خود کو دولت اسلامیہ
کے ساتھ تیل کی تجارت کو محفوظ بنانے کے لئے گرایا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب
اردوغان نے روسی صدر کے اس الزام کو چیالنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس
الزام کو ثابت کریں کہ ترکی دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں سے تیل خرید رہا
ہے۔انہوں نے روسی الزام کو بہتان قرار دیا اور کہا کہ اگر یہ بات درست ثابت
ہوئی تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں۔ ترکی نے دولت
اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دولت اسلامیہ کے
خلاف امریکی اتحاد کی جانب سے کئے جانے والے فضائی حملوں کا حصہ ہے۔ روسی
صدر پوتن نے ترکی فضائیہ کی جانب سے روسی جنگی طیارے کو مارگرانے پر ترکی
سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ترکی صدر نے اس مطالبے کو مسترد
کرتے ہوئے انقرہ میں امریکی ٹیلی ویژن سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا
کہ میرے خیال میں اگر کسی فریق کو معافی مانگنی چاہیے تو وہ ہم نہیں بلکہ
ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی معافی روس کو مانگنی چاہیے۔ ان کا کہنا
تھا کہ ہمارے پائلٹوں اور افواج نے تو اپنی ذمہ داری نبھائی ہے جن میں جنگ
کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا ردعمل بھی شامل ہے۔صدر ترکی نے روسی صدر
سے کہا ہے کہ وہ جہاز گرائے جانے پر آگ سے نہ کھیلیں۔ترکی چونکہ امریکی
اتحادی فوج یعنی نیٹو کا حصہ ہے جو شام میں دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند
تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے جبکہ روس صدر بشارالاسد کی
حمایت میں دولت اسلامیہ اوردیگر تنظیموں کے خلاف فضائی کارروائیاں کررہا ہے
۔ روس کی جانب سے بشارالاسد کی حمایت میں کی جانے والی فضائی کاررائیوں کے
خلاف امریکی اتحاد شروع سے ہی مخالفت رہا ہے ۔ یہاں یہ بات اہمیت کی حامل
ہے کہ ترکی اس وقت نیٹو افواج میں شامل ہے لیکن کیا روس سے تعلقات بگڑنے کے
بعد جس طرح روس نے ترکی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ سے تیل
خرید رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ اوراتحادی ممالک بھی جو آج ترکی
کے ساتھ ہیں وہ مستقبل قریب میں ترکی پر روس کی طرح الزام عائد کرکے اسے
نشانہ نہ بنائیں چونکہ ماضی میں عراق اور افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
مسلم نوجوانوں کی انتہا پسندی کی وجہ سماجی محرومی ۔ فرانسیسی وزیر
اقتصادیات
دنیا میں مسلمانوں کی معاشی تنگدستی کا سنگین مسئلہ عالمی دہشت گردی تصور
کیا جارہا ہے اس میں کسی حد تک سچائی بھی ہے کیونکہ یوروپی ممالک میں غربت
کی وجہ سے ہزاروں بچے اور بڑے مختلف بیماریوں اور بھوک و پیاس کی وجہ سے
ہلاک ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ شاید جاری رہے گا۔ غیر اسلامی ممالک میں جہاں
مسلمان اقلیتی حیثیت رکھتے ہیں ،ان مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے
انہیں روزگار سے محروم رکھا جاتا ہے ، تعلیمی ، سماجی، سیاسی، معاشی غرض کہ
ہر شعبہ ہائے حیات میں مسلمانوں کو سطح غربت سے نیچا رکھنے کی کوششیں ہوتی
ہیں ۔ گذشتہ دنوں پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد فرانس کے وزیر اقتصادیات
نے مسلم نوجوانوں کی معاشرے میں محرومی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان
نوجوانوں کی انتہا پسندی کی وجہ سماجی محرومی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو
پیرس حملے جیسے دیگر حملوں سے محفوظ رہنے میں کامیابی کیلئے غریب لوگوں کو
امید دلانے کے اقدامات کرنا چاہئیں۔ میکرون نے ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا
کہ فرانس میں سماجی محرومی ایک حقیقت ہے۔ یہ محرومی دہشت گردی کا عذر نہیں
مگر پیرس حملے میں ملوث نوجوانوں کا اس معاشرے پر یقین باقی نہیں رہا تھا۔
ان حملوں میں4 حملہ آور فرانسیسی شہری بتائے جاتے ہیں۔ سابق بینکر 37 سالہ
میکرون نے کہا فرانسیسی معاشرہ اس وقت ناکام سمجھا جائے گا جب روزگار کیلئے
درخواست دینے والے مسلمان نوجوانوں کو انٹرویو کیلئے بلائے جانے کی تعداد
میں 4 گنا کمی ہو جائے گی۔دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو معاشرہ میں
مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کو محسوس کرتے ہیں اور انہیں ڈرو خوف بھی ہے کہ
مسلمانوں کی معاشی و تعلیمی پسماندگی سماج کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگی اس کے
باوجود عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ اسلامی ممالک جن کی
معیشت مستحکم ہے اس کے باوجود ان ممالک میں بھی روزگار کا مسئلہ سنگین
نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے ، ان ممالک کے نوجوان تعلیم اور روزگار کے
سلسلہ میں توجہ نہیں دیتے اور جب ان کے اخراجات سر سے اونچے ہوجاتے ہیں تو
انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے غلط راستوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران عالمِ اسلام میں مغربی ویوروپی طاقتوں کی جانب سے
جس طرح مسلمانوں کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا گیا اسی کا نتیجہ ہے کہ
بعض مسلم نوجوان اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر دشمنانِ اسلام کے خلاف شدت
پسند تنظیموں کے آلہ کار بن رہے ہیں یا وہ اسلام کے پرچم کو سربلندی عطا
کرنے اور مسلمانوں پر ڈھائی جانے والی ظلم و بربریت کا مقابلہ کرنے کیلئے
سینہ سپر ہوتے جارہے ہیں ۔ اگر عالمی طاقتیں دنیا میں امن وسلامتی چاہتے
ہیں تو انہیں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا اور مسلمانوں کے خلاف
کاررائیاں کرنے کے بجائے ان کے ساتھ بات چیت کے مراحل طئے کرنے ہونگے ورنہ
تیسری جنگ عظیم کی تیاریاں کرنی ہوگی جو تمام انسانیت کے لئے ہلاکت خیز
ثابت ہوگی۰۰۰
** |
|