مزید دو سو ٹن کھجوریں!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
سعودی عرب نے پاکستان کو دو سو ٹن
کھجوروں کا تحفہ دیا ہے، سعودی عرب کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن جاسم محمد خالد
الخالدی نے ایک تقریب میں یہ کھیپ جوائنٹ سیکریٹری کابینہ ڈویژن کے حوالے
کی۔ انہوں نے حکومت پاکستان کے لئے خیر سگالی کے جذبہ پر سعودی حکومت کا
شکریہ ادا کیا۔ گزشتہ برس بھی اتنی مقدار میں اور انہیں دنوں میں یہ
کھجوریں پاکستان کی دی گئی تھیں۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ تحفہ پاکستانی
عوام کے لئے ہے ۔ مگر یہ عوام کو کیسے ملے گا، اس کے لئے کونسا طریقہ
اختیار کیا جائے گا، یہ ابھی معلوم نہیں ہوسکا۔ یہاں تو یہ عالم ہوتا ہے کہ
زلزلہ یا سیلاب زدگان کے لئے دی گئی امداد بھی تقسیم کرنے والے اپنے گھروں
کو لے جانے میں عار محسوس نہیں کرتے، تحفے کو کون چھوڑے گا۔ اگرچہ یہ
کھجوریں وفاق کو ملی ہیں، مگر یہ تمام صوبوں کو دی جائیں گی۔ یہاں ایک
مسئلہ یہ بھی درپیش ہوگا کہ مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ کیا سلوک
کرے گی۔ یقینا پنجاب اور بلوچستان میں تو یہ بھیج دی جائیں گی، کیونکہ ایک
میں اپنی حکومت ہے اور دوسرے میں اتحادی حکومت، مگر کے پی کے اور سندھ کو
اس میں سے حصہ ملے گا یا نہیں، کوئی نہیں جانتا۔ حکمران اپنے خاص کارکنوں
کے علاوہ خاص مصاحبین کو بھی یہ تحفہ وافر مقدار میں دے سکتی ہے۔ دوسری طرف
بیوروکریسی کے بھی اپنے احباب اس قسم کی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہی رہتے ہیں۔
بہت سے عقلمند لوگ اس متبرک تحفے کو اپنے استعمال کے لئے ذخیرہ بھی کرلیں
گے۔
اگرچہ خبر سے اس تحفے کی تقسیم کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی، مگر اس موقع
پر کہ ابھی سعودی عرب سے آنے والے ڈالروں کے بوجھ تلے سے حکومت نکل نہیں
پائی تھی کہ کھجوروں کا وزن آن پڑا۔ ممکن ہے کہ یہ تحفہ تھر میں قحط سے
مرنے والوں کے لئے ہو، اگر سعودی عرب نے نہ بھی کہا ہو تو بھی شفاء اور
غذائیت سے بھر پور یہ کھجوریں اگر تھر کے متاثرین کو کھلائی جائیں تو یقینا
افاقہ ہوسکتا ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ ہمارے تو مقتدر طبقے خود بھی ’متاثرین‘
ہی ہوتے ہیں، اس قسم کی جو چیز بھی آجائے بس اوپر والے’’ متاثرین لیبارٹری
ٹیسٹ‘‘ سے جو بچے گا وہی اصلی متاثرین کو مل سکے گا۔
اگر سعودی حکومت مزید کچھ تاخیر سے یہ تحفہ بھیجتی تو رمضان المبارک میں
ہمارے حکمران اور بیوروکریسی اپنے احباب کو یہ تحفہ پیش کرکے ثوابِ دارین
کے مستحق قرار پاجاتے۔ بڑے لوگوں کی افطاریاں بھی بڑے لوگوں کے لئے ہی ہوتی
ہیں، ان میں غریبوں اور مستحق لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، اسی طرح بڑے
لوگ کھجوریں خود کھائیں یا اپنے احباب کو کھلائیں، غریبوں اور عوام کو
پریشان ہونے یا کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں البتہ
اگر یہ کھجور خور بڑے لوگ از راہِ کرم ان کی گٹھلیاں غریبوں کو دے دیں تو
بھی ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہے گی، کیونکہ اول تو یہ لوگ ان گٹھلیوں کو
مدینہ کی نسبت سے عزیز رکھیں گے، انہیں آنکھوں سے لگائیں گے ، انہیں دل میں
بسائیں گے، انہیں اپنی عقیدتوں اور محبتوں کا محور بنائیں گے۔ دوسرے یہ کہ
ایسی ہی گٹھلیوں کو فوتگیوں میں قل خوانی وغیرہ کے لئے بھی استعمال کیا
جاسکے گا، اس مرنے والی کی قسمت پر رشک کیا جاسکے گا جس کی فوتگی پر سعودی
عرب سے آئی ہوئی گٹھلیوں پر کوئی تسبیحات پڑھی جائیں گی۔
یہاں قسمتوں کے معاملے زیر بحث نہیں، اوپر والا اپنی حکمتیں خود ہی جانتا
ہے، وہی جانتا ہے کہ امیر مفت کی کھجوریں کھائیں اور غریبوں کو ان کی
گٹھلیاں بھی نصیب نہ ہوں، دولت مند اور صاحبانِ اقتدار دنیا کی ہر نعمت سے
لطف اندوز ہوں اور غریب صرف ان کی حسرت ہی کرسکے۔ بے شمار غریب عقیدت مند
ایسے ہیں، جو دل وجان سے مکہ مدینہ دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، ان میں سے
بہت سے حیرت انگیز طور پر پونجی جمع بھی کرلیتے ہیں، مگر مہنگائی اور اوپر
سے پی آئی اے کے کرائے دیکھ کر دل اور غریبوں کی حسرتیں ڈوب جاتی ہیں،
دوسری طرف حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے لئے مفت عمرے اور مفت حج دستیاب ہوتے
ہیں، ساتھ ہی سیر سپاٹا بھی، رہائش بھی پروٹوکول بھی۔ ایسے میں اگر یہ لوگ
کھجوریں کھا جائیں گے تو کونسی آفت آجائے گی؟ اگر سعودی حکومت نے یہ
کھجوریں غریبوں کے لئے بھی دی ہیں تو بھی ان کا ایک قلیل حصہ ہی غریبوں تک
پہنچے گا، کیونکہ رستے میں بڑی بڑی سرکاری ’’چیک پوسٹیں‘‘ بھی موجود ہوتی
ہیں۔ بلدیاتی نظام تو ہے نہیں، کہ ناظمین اور کونسلروں کے ذریعے ان کی
تقسیم ہوتی، اب ممکن ہے یہ کام پٹواریوں یا پھر سکول ٹیچروں کے ذریعے
کروایا جائے، مگر اس سے بڑا امتحان کیا ہوگا کہ سعودی کھجوریں تقسیم کرنے
والے ان سے محروم رہ جائیں۔ |
|