ستم ظریفی!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بنیادی جمہوریتوں کا تیسرا مرحلہ بھی
تمام ہوا، امیدواروں میں سے کچھ کی امیدیں بر آئیں، باقی یا تو مایوس
ہوجائیں گے یا پھر اگلے الیکشن کی امید لگا کر زندگی کے باقی دن پورے کریں
گے۔ الیکشن کے نتائج میں کوئی بات نئی نہیں، اگر پنجاب کے الیکشن کی بات ہے
تو مسلم لیگ ن میدان مار رہی ہے، اگر سندھ کی بات ہے تو میدان پی پی کے
ہاتھ میں ہے اور اگر سندھ کے بڑے شہری حلقوں کا ذکر ہے تو پوزیشن ایم
کیوایم کے پاس ہے، نتیجہ پہلے دو مراحل کا تسلسل ہے، اب بھی نتیجہ سب کو
معلوم تھا۔ دوسرے مرحلے کے اختتام پر حکومت کے ایک عہدیدار کا ستم رسیدہ
بیان سامنے آیا تھا کہ’’ حکومت نے قومی الیکشن کے موقع پر کیا ہوا ایک اور
وعدہ نبھا دیا‘‘۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ پہلے کونسے وعدے نبھائے ہیں جو ایک
اور نبھا دیا، مگر یہاں اتنا تو عرض کیا جاسکتا ہے کہ الیکشن کے ڈھائی سال
بعد تک بھی بلدیاتی الیکشن کے راستے میں رکاوٹ کونسی تھی، کہ حکومت کو اپنا
وعدہ پورا کرنے میں سالوں لگ گئے، حلقہ بندیاں، مردم شماری، دہشت گردی،
بدنیتی یا کوئی اور وجہ تھی۔ یہ حقیقت ہر کسی پر عیاں ہے کہ حکومتِ وقت نے
بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کے لئے کتنے پاپڑ بیلے ہیں، عدالت کو کتنی پیشیاں
دی ہیں، کتنے حیلے بہانے کئے ہیں، وہ تو عدالتِ عظمیٰ نے مضبوط اعصاب سے
کام لیا، ورنہ حکومت کی طرف سے الٹے سیدھے بہانے سن سن کر عدالت بھی مایوس
ہوجاتی۔
حکومت نے جوں توں کرکے الیکشن کروانے کا وعدہ تو کرلیا، مگر احتیاط اس قدر
کی کہ الیکشن کو تین مرحلوں میں کروانے کا فیصلہ کیا، کہ اگر حکومتی پارٹی
کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑگیا تو دوسرے دو مراحل میں معاملہ کو کنٹرول
کرلیا جائے گا۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے عائد کی جانے
والے پابندیوں کا ایسا بھرکس نکالاکہ الیکشن کمیشن وارننگ دیتا ہی رہ گیا،
وزراء اور دیگر طریقوں سے سرکاری مداخلت کا کام جاری رہا، حتیٰ کہ فنڈز کا
اعلان بھی ہوتا رہا۔ اس الیکشن میں حکومت نے سب سے اہم کام یہ بھی کیا کہ
سابق دور میں ہونے والے الیکشن کے عہدوں کے نام تبدیل کردیئے،اب یہاں ناظم
اور نائب ناظم نہیں، چیئرمین اور وائس چیئرمین ہونگے۔ اور سب سے بڑی تبدیلی
جو موجودہ حکومت نے کی ہے، وہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے، اب جو لوگ چیئرمین
منتخب ہوئے ہیں، وہ اختیارات سے تہی دست ہونگے۔ کیونکہ موجودہ حکومت کا ایک
بہت بڑا نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام اختیارات اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے
ہیں، حتیٰ کہ بہت سی وزارتوں کے قلمدان بھی انہوں نے اپنے پاس ہی رکھے ہوئے
ہیں، صرف مشیروں وغیرہ کے زور پر کام چلایا جارہا ہے، اگر وفاق میں دیکھا
جائے توخارجہ جیسی وزارت بھی خود وزیراعظم کے پاس ہے، اسی طرح صوبے میں بھی
اختیارات کی تقسیم کا یہی عالم ہے۔ اب یہ لوگ اجلاس کیا کریں گے، دعوتیں
اڑایا کریں گے، دفاتر میں اپنے عہدے کی کلغی سجا کر جایا کریں گے، سائلین
کے کام نکلوانے کی ناکام کوشش کیا کریں گے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بے
اختیار ہونے کے باوجود قوم کے خزانے پر بوجھ بن کر رہیں گے کہ ان کی تنخواہ
وغیرہ بھی مقرر ہوتی ہے۔ کوئی کام کرنے والا قومی خزانے سے تنخواہ لے تو
کوئی بات بھی بنتی ہے۔
اس الیکشن میں الیکشن کمیشن کے احکامات کی کھلی خلاف ورزیوں کے عام مناظر
بھی دیکھنے میں آئے، سب سے بڑھ کر یہ کہ الیکشن پر اخراجات کی حد مقرر ہوتی
ہے، مگر یہاں عام امیدوار نے بھی اس سے کئی گنا زیادہ خرچ کیا،ضابطہ اخلاق
کی اس سرعام خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن نے صرف وارننگ وغیرہ پر ہی کام
چلایا۔ یہی وجہ ہے کہ اب صرف آئندہ کوئی عام آدمی بلدیاتی الیکشن لڑنے کی
ہمت نہیں کرے گا۔ بلدیاتی الیکشن میں پارٹی کارکنوں کی آپس میں لڑائی
مارکٹائی اور تصادم سے جو صورت حال پید اہوئی وہ بہت تشویش ناک ہے، اس سے
معاشرے میں عدم برداشت اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے، گلی گلی لڑائی جھگڑ
ا دیکھنے میں آیا، ہمسایہ ہمسائے کا دشمن ہوگیا۔ اس الیکشن میں درجنوں
افراد زندگی کی بازی بھی ہار گئے۔ آخری مرحلے میں راولپنڈی میں ایک سابق
صوبائی وزیر کا بھانجا بھی قتل ہوگیا۔ ان کے علاوہ بھی پانچ افراد الیکشن
کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ کیا ان درجنوں لوگوں کو ’’شہدائے جمہوریت‘‘ قرار دیا
جاسکتا ہے، کیا ان کا خون رنگ لائے گا اور اپنے ملک میں جمہوریت کا پودا
تناور درخت بن سکے گا؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس سے
کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا مقتدر طبقہ جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق پروان
چڑھتا نہیں دیکھنا چاہتا، ورنہ شاید یہ پہلی حکومت ہے جس نے بلدیاتی الیکشن
کروائے ہیں ، وہ بھی عدالت کے زور پر ،اور اختیارات کے بغیر۔
|
|