پاکستان بھارت مزاکرات کی مشکوک توقعات!
(Athar Massood Wani, Rawalpinjdi)
کستان اور بھارت کے درمیان اعلی سطحی رابطوں سے متعدد بار کی طرح ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں امن و خوشحالی سے متعلق کئی امیدیں جاگی ہیں, لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ریاستی مظالم جاری رہتے ہوئے کشمیریوں کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق ان اعلی سطحی رابطوں سے توقعات وابستہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ کہیں مشرف دور میں مسئلہ کشمیر کے حل کے '' چار نکاتی فارمولے'' کی آڑ میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے اور تقسیم کشمیر کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کو تقویت پہنچانے کے لئے سینکڑوں کلومیٹر طویل خار دار تاروں کی باڑ تعمیر کی طرح اس مرتبہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق اقدامات کے بجائے اسی طرح کی کاروائیاں دیکھنے میں نہ آ جائیں جس سے کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کی صورتحال درپیش ہو۔ |
|
تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میںپاکستان
اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیران ناصر جنجوعہ اور اجیت ڈوال کی ملاقات
ہوئی جس میں جموں وکشمیر، امن و سلامتی، دہشت گردی، لائن آف کنٹرول پرامن
اوربھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کے دورہ پاکستان کے پانچ امور پر بات چیت
کی گئی۔ملاقات میںبھارت کے خارجہ سیکریٹری ایس جے شنکر اور ان کے پاکستانی
ہم منصب اعزاز احمد چودھری بھی موجود رہے۔قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات
کے بعد جاری مختصر بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے مشیروں کی ملاقات
مثبت اور تعمیری ماحول میں ہوئی ہے اور دونوں ملک نے مستقبل میں بھی تعمیری
بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔دفتر خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے
سیکریٹری خارجہ کی موجودگی میں ہونے والی اس ملاقات میں جموں و کشمیر، خطے
میں امن، دہشت گردی اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا
گیا۔وزیر اعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان پیرس
میں ہونے والی غیر رسمی ملاقات کے بعد قومی سلامتی کے مشیران کی یہ ملاقات
مزاکرات کی بحالی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ اعلی سطحی رابطے اس وقت ہوئے ہیں کہ جب
کشمیر کو جبری طور پر تقسیم کرنے والی 'سیز فائر لائین '(لائین آف کنٹرول)
پر فائرنگ کا کوئی بڑا واقعہ تو نہیں ہو ا تاہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کشمیری فریڈم فائٹرز اور بھارتی فوج کے درمیان
جھڑپوں کے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں دونوں طرف سے ہلاکتیں ہوئی ہیںاور
مارے جانے والوں میں بھارتی فوجی افسر بھی شامل ہیں۔اس کے ساتھ ہی کشمیری
عوام کے احتجاجی مظاہروں کی پاداش میں سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور عام
شہریوں کی گرفتاریوں،قید اور تشدد کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔حریت
کانفرنس کے گیلانی گروپ کی طرف سے مختلف جیلوں میں قید494کشمیریوں کی ایک
فہرست جاری گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ38کشمیری 1990ء سے بھارتی جیلوں میں
اب تک عمر قید بھگت رہے ہیں۔احتجاجی مظاہروں کی پاداش میں 14ہزار کشمیریوں
کے خلاف سنگین الزامات میں مقدمات دائر کئے گئے ہیں اور ان کی گرفتاریوں کا
سلسلہ بھی جاری ہے۔بھارتی جیلوں میں قید کشمیری سیاسی قیدیوں کو جیل حکام
کی جانب سے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہے ہے جس سے ان کی زندگیوں
کو لاحق خطرات ہیں۔مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں کی جیلوں میں
کئی برسوں سے مقید کشمیری سیاسی نظر بندوں کی حالت زار اور ان قیدیوں سے
جیل حکام کے نا روا سلوک کے علاوہ انہیں جیل قوانین کے تحت حاصل سہولیات سے
محروم ر کھا جا رہا ہے اورعدالتوں سے ان کی رہائی کے احکامات جاری ہونے کے
باوجود ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جا رہا ہے ۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان
زیریں لوک سبھا میں امور داخلہ کے وزیر مملکت نے بتایا ہے کہ
سال2014میںکشمیر میں ملی ٹینسی کے222واقعات رونما ہوئے جو گزشتہ تین برسوں
کے دوران سب سے زیادہ ہیں،ان واقعات میں مجموعی طور185ہلاکتیں ہوئیں جن
میں28شہری، 47فورسز اہلکار اور110عسکریت پسند شامل ہیں۔ رواں برس
میں22نومبر تک ملی ٹینسی کی186وارداتوں میں145افراد مارے گئے جن میں16عام
شہری ، 38 سیکورٹی اہلکار اور91 عسکریت پسند شامل ہیں۔ یوں بھارتی حکومت کے
مطابق گزشتہ دو سال میں 245 کشمیری ہلاک ہوئے جبکہ 85بھارتی فوجی اہلکار
مارے گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ستائیس سال سے بالخصوص بھارت سے آزادی کی جدوجہد
متحرک اور نمایاں طورپر جاری و ساری ہے۔بھارت نے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی
کو کچلنے کے لئے قتل و غارت گری کے قانونی اجازت نامے پر مبنی کالے قوانین
کے تحفظ کے ساتھ سات لاکھ سے زائد فوج نہتے کشمیریوں کے خلاف ظلم،جبر اور
قتل و غارت گری کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔یہ کہنا بے جا نہیں کہ بھارت کی
ہر حکومت مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو آزادی اظہار اور ظالمانہ و جابرانہ سلوک
کے خلاف احتجاج سے روکنے کے لئے کشمیری عوام کے فطری ردعمل کو سنگین ترین''
جرم'' قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کو ہلاک،قید ،تشدد کرنے کو قانونی حق قرار
دے رکھا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے موضوع پر کام کرنے والے سول
سوسائٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ بھارتی عدالتیں بھارتی فورسز کی نہتے
کشمیریوں کے خلاف ظالمانہ پرتشدد کاروائیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہیں
اور متاثرہ کشمیریوں کو کوئی قانونی چارہ جوئی ،تحفظ حاصل نہیں ہے۔بھارت سے
آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے کشمیریوں کے تمام خاندان کے لئے پاسپورٹ
کے اجراء پر بھارت نے مکمل پابندی عائید کر رکھی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی پولیس
کے کشمیری عوام کے خلاف پرتشدد،ظالمانہ اور بدترین توہین پر مبنی سلوک
بھیانک مظالم کی ایک تاریخ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو فوج کی نگرانی
میں رکھتے ہوئے ایک کھلی جیل بنا کر رکھا گیا ہے۔بھارت میںہوٹلوں سمیت کہیں
بھی قیام کرنا کشمیریوں کے لئے دشوار کر دیا گیا ہے۔بھارت کی کسی بھی
شہرجانے والے ہر کشمیری کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جا تا ہے اور ہر ووقت
اس کی جان کو سرکاری اہلکاروں یا انتہا پسند ہندوئوں کی وجہ سے خطرہ رہتا
ہے۔
پاکستان اور بھارت کی پیرس میں ہونے والی وزرائے اعظم کی غیر رسمی ملاقات
کے بعد دونوں ملکوں کے سلامتی امور کے مشیران اور خارجہ سیکرٹریوں کے اجلاس
سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور تنازعات کے حل کے لئے جامع
مزاکرات شروع ہونے کی توقع ظاہر ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قرار دادیں (جو بھارت اور پاکستان کی تحریری رضامندی کے بعد منظور کی
گئیں)اس وقت بھی مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق رہنما اصولوں کے ساتھ تنازعہ
کے مستقل حل کے طور پر سب کے سامنے ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے
پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ اور ''بیک ڈور '' ذرائع سے ہونے والی
بات چیت میں مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق مختلف تجاویز اور امکانات سامنے
آئے ہیں ۔مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق ،کشمیریوں کی طرف سے یہ بات واضح ہے
کہ انہیں موجودہ جبری تقسیم کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا حل تسلیم نہیں ہے
اور بنیادی فریق کے طور پر مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیریوں کی شمولیت
ناگزیر ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلی سطحی رابطوں سے متعدد بار کی
طرح ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں امن و خوشحالی سے متعلق کئی امیدیں جاگی
ہیں, لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ریاستی مظالم جاری رہتے ہوئے کشمیریوں
کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق ان اعلی سطحی رابطوں سے توقعات وابستہ
کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ کہیں مشرف دور میں مسئلہ کشمیر کے حل کے ''
چار نکاتی فارمولے'' کی آڑ میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے
کو مضبوط بنانے اور تقسیم کشمیر کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کو تقویت
پہنچانے کے لئے سینکڑوں کلومیٹر طویل خار دار تاروں کی باڑ تعمیر کی طرح اس
مرتبہ بھی مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق اقدامات کے بجائے اسی طرح کی
کاروائیاں دیکھنے میں نہ آ جائیں جس سے کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی
غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کی صورتحال درپیش ہو۔ |
|