دوست نہیں ہوتا ہر ہاتھ ملانے والا

پیر س میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مود ی کی وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے مصافحہ اور غیر رسمی مختصر ملاقات کیا ہوئی پاکستانی میڈیا نے اسے بامقصد پیش رفت اور بریک تھرو گرداننا شروع کردیا جبکہ عالمی ذرائع سمیت بھارتی وفد کے تر جمان وکاس سوروپ اسے معمول کا مصافحہ کہہ رہے ہیں ان کہنا ہے کہ اس موقع پر صرف دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے سے صرف حال چال دریافت کیا ہے البتہ بعض ذرائع خبر دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اس مختصر ملاقات کے بعد کہنا ہے کہ مودی سے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی ہے دونوں ممالک کے درمیان مزاکرات ہونے چاہیئیں ۔دوسری جانب بھارتی میڈیا اس ملاقات کو معمول کی بات قرار دینے پر مسر ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی صاحب نے جب وی آئی پی لاؤنج میں میاں نواز شریف کو بیٹھے دیکھا تو انہوں نے خود آگے بڑھ کر نہ صرف گرم جوشی سے ہاتھ بڑھایا بلکہ ایک ساتھ بیٹھ کر سنجیدہ گفتگو کرتے ہوئے بھی دکھائی دئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی کا یہ اقدام بھارت کے سخت مزاج میڈیا کو اچھا میں لگا اور اس نے خوب شور مچایا جبکہ کئی حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی ہوئی ۔ اس ملاقات کے بعد سے بازگشت ہورہی ہے کہ شاید برف پگھلنے کو ہے ، ممکن ہے کہ خارجہ سطح پر مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو ڈیڈلاک ہے اس کی بڑی اور بنیادی وجہ بد اعتمادی کے سائے ہیں جو بدقسمتی سے اعتماد کی سیاست میں تبدیل نہیں ہوسکتیاور دونوں متحارب ہمسایہ لیڈر خوب جانتے ہیں کہ کس طرح سے ان کا خاتمہ ممکن ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے قیام سے لیکر تاحال پاکستان کو ہمسایہ ملک تسلیم نہیں کیا ، اس کے ساتھ بہتر تعلقات کی جانب کبھی پیش قدمی کی اور نہ کسی بھی سطح پر مثبت جواب دیا ہے ۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے پر جب میاں نواز شریف ان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے تو خیال کیا جارہا تھا کہ وہ ان کا اچھے طریقے سے استقبال کریں گے اور نیک خواہشات کے جواب میں تعلقات کی بہتری کی نوید دیں گے مگر انہوں نے تو میاں صاحب کے ہاتھ چارج شیٹ تھما دی اور انہیں تنبیہ کردی کہ پاکستان بھارت کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنا چھوڑ دے ۔ میاں صاحب اپنا سا منہ لیکر واپس پلٹ آئے جبکہ مودی سرکار کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں انتہا کو پہنچ گئیں ، بلا اشتعال کارروائیوں کو فروغ ملا جس کے باعث سرحدی پٹی پر رہنے والے کئی پاکستانی متاثر ہوئے ۔ پاکستان اس کے باوجود مثبت رویہ اپنائے رکھا اور مذکرات ہی کو اولین ترجیح دی تاکہ مسائل کا دیرپا اور پرامن حل ہوسکے لیکن لگتا ہے کہ مودی حکومت نے طے کرلیا ہے کہ تمام تر نتائج سے بالاتر اہوکر اس نے بھارت میں سیکیولر سیاست کے مقابلے میں ہندو ازم کو طاقت طاقت فراہم کرنی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں بھارت کی سیاست میں ہندواتہ کی سیاست کا غلبہ نظر آرہا ہے ۔ بھارتی وزیراعظم ہندوستان کے انتہا پسندو ں سے فاصلہ رکھنے کی بجائے اس کی سرپرستی کررہے ہیں اور یہ انتہا پسند عناصر محض پاکستان دشمن کے نشے میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں موجود مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر ان کی شناخت ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بھارت میں موجود حزب اختلاف کی جماعتیں مودی حکومت پر تنقید کررہی ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی پاکستان سے تعلقات کی بحالی کوئی دباؤ نہیں ڈالا ، بھارت کی جانب سے کسی بھی موقع یا مرحلہ پر پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے سے متعلق کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی گئی جبکہ ہماری جانب سے ہر حکومت اور سربراہ مملکت نے اس کے جارحانہ اقدامات و بیانات کے باوجود مصالحت کی سیاست کو خطے کے امن کیلئے ناگزیر قرار دیا ہے ، بھارت ہے کہ اس کے طرز عمل نے ہمیشہ اس قوتوں کو پاکستان میں زیادہ قوت فراہم کی ہے جو پاک بھارت دوستی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کررہی ہیں ۔

دنیا جانتی ہے کہ غیر متوازن رویے اور سفارتی آداب سے متصادم ہونے سمیت نئی دہلی کی جانب سے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے سے مسائل کے حل میں پیش رفت نہیں ہوسکتی ۔ پورا عالم کشمیر پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی تفصیل جانتا ہے اور مزاحمتی تحریک کی قوت سے بھی آگاہ ہے ایسے میں تعلقات کی بہتری ایک سراب سے زیادہ کچھ اور حقیقت نہیں رکھتی ۔ بھارت کا انتہا پسندانہ چہرا دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے اور انتہا پسندوں کے مسلمانوں پر مسلسل اور بیہمانہ تشدد کی انتہا نے دنیا کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار مملکت میں ہندو طالبان کی حکمرانی قائم ہے ۔ یہ جان لیجئے کہ کشمیر کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ سیاچن ، سرکریک اوردریائی پانی کا مسئلہ بھی ہے وہ جب چاہتا ہے پاکستان میں آبی دہشت گردی کردیتا ہے جس سے ملک میں غیر یقینی طور پر سیلاب آجاتے ہیں جو ملکی ترقی کیلئے زہر قاتل ہیں ۔ بھارت ہمارے اندرونی معاملات میں بھی مسلسل مداخلت کررہا ہے ، وہ نہ صر ف ہماری ہر سطح پر تضحیک کررہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قراردادوں کی نفی بھی کررہا ہے ۔ ہم پس پردہ کرکٹ ڈپلومیسی کو تعلقات کی بحالی میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن آرایس ایس اور انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے لوگ کرکٹ کھلینے کے حامی بھی نہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی سرکار اس جانب توجہ دیتی لیکن اس کی اس جانب بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مودی کے ہوتے ہوئے پاک بھارت تعلقات میں بہتری خام خیالی ہی تصور کی جائے یعنی نریندر مودی دور میں دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ۔

عام طور پر کسی تقریب میں افراد کا ایک دوسرے سے مصافحہ سرراہ ہوتا ہے جسے سنجیدہ لینا کم عقلی ہی تصور کیا جاتا ہے ، البتہ اگراس کے بعد باضابطہ طور پر کوئی ملاقات طے ہوجائے تو وہ ایک الگ بات ہوتی ہے ۔ ہمارے وزیر اعظم اور میڈیا جو شاید سفارتی رموز سے ناواقف ہے اس نے اس غہر رسمی ملاقات کو جانے کیوں ایک اہم پیش رفت سمجھ لیا ہے حالانکہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست تصور نہیں کیا جاتا اور اگر بھارت جیسا ہٹ درہم ملک اور نریندر مودی جیسا محدود سوچ کا سربراہ مملکت ہوتو یہ سوچ لینا قطعی درست نہیں ہوگا کہ اسے ہم سے کوئی رغبت یا چاہت ہے وہ تو دنیا داری کی وجہ سے گرم جوشی کا مظاہرہ کررہا ہے وگرنہ اس کے عزائم کسی بھی لحاظ سے خطے میں پائیدار اور مستقل امن کے نہیں ۔ پاک بھارت بہتر تعلقات کے حامیوں کو یہ بات ضرور سمجھ لینی چاہئے کہ بھارت کی موجودہ پالیسی اور پاکستان مخالف ایجنڈے سے محض دونوں ممالک کے تعلقات میں رکاوٹیں پیدا نہیں ہوں گی بلکہ یہ رکاوٹیں علاقائی سیاست اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بھی بنیں گی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت گیند بھارت کی موجودہ حکومت کے کورٹ میں ہے اگر وہ مصافحہ سے آگے بڑھ کر قدم نہیں اٹھاتی اور پیش رفت نہیں کرتی تو خطے کا امن تہہ و بالا ہوسکتا ہے جس کی اصل ذمہ دار انتہا پسند ی کے زیر اثر مودی سرکار ہی ہوگی جو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی مشکلات سے دوچار کردے گی۔
Mujahid Hussain Shah
About the Author: Mujahid Hussain Shah Read More Articles by Mujahid Hussain Shah: 60 Articles with 43518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.