بوبومراد ہمدموو (Bobo Morad Hamdamov)
(Ahmed Nisar Syed, India)
|
سنہ 1950ء اور اُس سے آگے کا دور، بھارت
اور روس میں اچھے دوستانہ تعلقات پروان پر تھے۔ نہرو بھی روسی دوست مانے
جاتے تھے۔ روس اور بھارت کے مشترکہ پروڈکشن میں کئی فلمیں بھی بنیں، ثقافتی
لین دین ہوئی۔ اسی دوران راج کپور کی فلمیں اور گیت بھی روس میں مقبول ہوئے۔
بخارا، سمرقند، تاشقند، سیر دریا، سرخان دریا۔۔۔۔ یہ نام سنتے ہی ہمیں فوراً
ازبیکستان یاد آجاتا ہے، کیوں کہ یہ شہراور ولایتیں وسط ایشیائی ملک
ازبیکستان کے ہیں۔روس بکھرنے سے قبل یہ ملک مشرقی روسی صوبہ تھا۔ اس ملک
میں کچھ ایسے بھی فنکار ہیں جو ہندوستانی گلوکار مکیش کے گیت بڑے ہی شوق کے
ساتھ گاتے ہیں، اور عوام بھی مکیش کے گیت اور راج کپور کی فلموں کی چاہنے
والی ہے۔
ازبیکستان میں ایک فنکار ہیں جو گلوکاری میں مشہور ہیں، جن کا اپنا ایک
بینڈ ہے جو ازبیکستان اور دیگر ممالک میں پروگرام پیش کرتا ہے، اور ان کا
نام بوبو مراد ہمدموو (Bobo Murad Hamdamov) ہے۔ ان کی پیدائش ترکمینستان
میں 1940 ء میں ہوئی۔ اب ان کی عمر 75 سال ہے، مگر گاتے ہیں تو یوں لگتا ہے
کہ ان کی آواز مخملی ہے اور بھارتی گلوکار مکیش اور کے۔یل۔سہگل سے ملتی
جلتی ہے۔ جب وہ مکیش کے گیت گاتے ہیں تو یوں لگتاہے کہ مکیش ہی گارہے ہیں۔
موصوف ازبیکی، روسی، ترکی اور ہندی گیت گانے میں ماہر ہیں۔ جب ہندی گیتوں
کی بات ہو تو وہ راج کپور کے فلمی گیت گاتے ہیں، کیوں کہ روس میں راج کپور
کے گیت کافی مشہور ہیں۔ یہ جب گاتے ہیں تو عوام جھومنے ناچنے لگتی ہے۔ یہ
سٹیج پروگرام دیتے ہیں اور ہوٹلوں میں بھی اپنی بینڈ کے ساتھ پروگرام دیا
کرتے ہیں۔
ہندوستانی فلم، فلمی موسیقی اور گیتوں سے یہاں کی عوام کی گہری دلچسپی قابل
ستائش ہے۔ حیرت اس بات کی ہوتی ہے آیا کہ ان کو ہندوستانی فلموں کے طئیں
اتنی دلچسپی آئی کہاں سے۔ یو یس یس آر جب بامِ عروج پر تھا، اشتراکیت اور
اشتعمالیت کا گہوارہ مانا جاتا تھا تب اس ملک میں چند بھارتی فلمیں کافی
مقبول تھیں، بی الخصوص راج کپور کی ۔
راج کپور کے فلمی گیت ، آوارا ہوں، میرا جوتا ہے جاپانی، ڈم ڈم ڈیگا ڈیگا
موسم بھیگا بھیگا، جس دیش میں گننگا بہتی ہے، روس اور ازبیکستان میں کافی
مقبول ہیں۔
بوبو مراد کو عوام روسی راج کپورکے نام سے بھی جانتی ہے۔
بوبو یا بابا مراد جب گاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یاتو کندن لال
سہگل گارہے ہیں یا پھر مکیش۔ ان کا آرکیسٹرا ٹروپ بھی اتنے غضب کا ہے کہ ان
ہندوستانی گیتوں کے لیے اس کا میوزیکل کامپوزیشن بالکل فِٹ بیٹھتا ہے۔ کبھی
کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان گیتوں کو دی گئی ہندوستانی موسیقی پر اپنی بازی
مار لے گیا۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کے سازندے ان گیتوں کوموسیقی
دینے میں کامیاب رہے۔ جب ان کا سازندہ ستار اور ا گٹار بجاتا ہے تو لگتا ہے
کہ کوئی ہندی فلمی انڈسٹری کا سازندہ بجارہاہے۔
ان کے گانوں کا اثر ایسا ہے کہ ازبیکی صدر بھی ان کے ہندوستانی گیتوں پر
ہمنگ کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ششی تھرور ان کے گیتوں کو سن کر یہ
محسوس کیا کہ یہ مکیش صاحب کی آواز ہے، جب انہیں پتہ چلا کہ یہ آواز بوبو
مراد کی ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ یوٹیوب پر ان کے بے شمار ویڈیو گیت موجود
ہیں۔
٭٭٭٭ |
|