سلطان الشعراء الحاج واصف بڈیانویؒ

تحریر: میجر خالد محمود
پاکستان کی دیگر زبانوں کی طرح پنجابی زبان بھی ایک قدیم زبان ہے ۔ اس کی ادبی تاریخ کئی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے ۔ موجودہ پنجابی ادب اسلامی عہد کی یاد گار ہے۔ اس کی نشوونما اور ترقی میں مسلمان علماء اور صوفیائے کرام نے قابل قدر حصہ لیا۔ آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارہویں صدی عیسوی تک کو برصغیر میں مسلمانوں کا دور کہا جاتا ہے اس دور میں پنجابی زبان و ادب کی الگ شناخت اور اس کے الگ تشخص کی صورت سامنے آگئی ۔ پنجابی میں باقاعدہ شاعری کا آغاز تیرہویں صدی عیسوی سے ہوا ۔ بابا فرید پہلے پنجابی شاعر ہیں جن کا پنجابی کلام ہمارے پاس محفوظ اور نمونے کے طور پر موجود ہے ۔ پنجابی شاعری کا یہ سلسلہ بابا فرید سے شروع ہوتا ہوا آج تک جاری و ساری ہے ۔ جس میں شاہ حسین ، سلطان باہو ، بلھے شاہ ، وارث شاہ ، خواجہ غلام فرید اور میاں محمد بخش جیسے نامور شعراء کے علاوہ موجودہ دور کے ان گنت شاعر اپنا اپنا حصہ ڈال کر اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ پنجابی کی نشوونما اور فروغ میں بزرگان دین نے اعلیٰ درجے کا کام کیا ہے ان شعراء کی شاعری کا مقصد اسلام کی تبلیغ ، اخلاقی درس اور انسانیت کی فلاح رہا ہے ۔ ایسے ہی عظیم لوگوں میں ضلع سیالکوٹ کے صوفی شاعر واصف بڈیانوی شامل ہیں جنہوں نے پنجابی زبان کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں ۔ ضلع سیالکوٹ علمی و ادبی حوالے سے بڑا زرخیز علاقہ ہے۔ اس میں جہاں علامہ اقبال ، فیض احمد فیض اور اصغر سودائی جیسے عظیم شعراء نے جنم لیا وہاں پنجابی زبان کے شاعر اور صوفی بزرگ واصف بڈیانوی نے بھی پرورش پائی ۔

واصف بڈیانوی کا خاندانی پس منظر:واصف بڈیانوی کے آباؤ اجداد بھارت کے رہنے والے تھے جو ۱۹۴۷ء میں پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آئے اور ضلع سیالکوٹ کے قصبہ بڈیانہ میں رہائش پذیر ہوئے ۔ واصف بڈیانوی کے والد کا نام شیر محمدتھا جو ایک صوفی بزرگ اور درویش انسان تھے اور آپ کی والدہ کا نام سرداراں بی بی تھا جو ایک نیک صفت خاتون تھیں۔واصف بڈیانوی کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۴۲ ء کو موضع اند پور موہڑی تحصیل نور پور ضلع کانگڑا بھارت میں ہوئی ۔ ان کا اصل نام محمد بشیر اور تخلص واصف بڈیانوی ہے ۔

تعلیم و تربیت:جب آپ کی پیدائش ہوئی اس وقت تحریک پاکستان تیزی سے اپنی مقبولیت کی منازل طے کر رہی تھی۔مسلمانوں میں ایک الگ وطن کے حصول کی خواہش بھر پور کوشش کے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی ۔ ہندو لیڈر اس کاوش کی کامیابی کا اندازہ لگانے کے بعد اسے ناکام بنانے کے لیے اپنے چانکیائی ہتھکنڈے میدان میں اتار چکے تھے ۔ مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کیا جا رہا تھا خاص طورپر ان علاقوں کے مسلمانوں پر زیادہ مظالم ڈھائے جا رہے تھے جو ہندو اکثریت کے حامل تھے ۔ پنجاب میں بھی ہندو بنیے کی سازشوں سے متاثر ہو کر سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر رکھا تھا ۔ اس صورت حال میں مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت بہت متاثر ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر بہت سے مسلمانوں کی طرح شیر محمد بھی اپنے بچوں کو پڑھا نہ سکے۔ البتہ اُنہوں نے اپنی اولاد کی روحانی اور اخلاقی تربیت باقاعدگی سے جاری رکھی۔ پاکستان بننے کا یقین ہوتے ہی جب ہندوؤں کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو آخری چارہ کار کے طور پر ہجرت کا فیصلہ کیا گیا۔ گو بعد میں ہجرت کو بھی ایک بھیانک تجربہ بنا دیا گیا اس عظیم سانحے میں بے شمار ہنستے بستے مسلمان خاندان ہندو ذہنیت کا شکار ہو گئے ۔ ظلم و ستم کے اس بھیانک دور کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوؤں کے مظالم انتہائی حد سے بڑھ چکے تھے۔ بہر حال اس خاندان کو بھی دین کی سلامتی کے لیے مال و متاع کی قربانی دے کر ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی ۔ مگر ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی۔ کیونکہ سب کچھ لٹ چکا تھا ۔ اس لیے یہاں آکر بھی بچوں کی تعلیم کا بندوبست نہ ہو سکا۔ ان وجوہات کی بنا پر واصف بڈیانوی سکول میں تعلیم حاصل نہ کر سکے مگر بابا جی شیر محمد نے اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت بہت اچھے طریقے سے کی۔

ظاہری سراپا:آپ نکلتے ہوئے قد کے ایک فربہی مائل جسم کے مالک تھے ۔ گندمی رنگت ،جھکی نگاہ اور چوڑا سینہ ان کے رعب میں مزید اضافہ کرتے تھے ،۔ چھوٹی چھوٹی داڑھی اور زلفیں کندھوں تک رکھی ہوئی تھیں ۔ سرخ مہندی سے رنگی ہوئی زلفیں اور داڑھی نیز چہرے پر مستقل کھیلتی مسکراہٹ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی تھی

لباس:آپ سادہ لباس اور سادہ غذا پسند کرتے تھے سفید رنگ کی شلوار قمیض پہنتے تھے ۔ کبھی کبھی تہہ بند کا استعمال بھی کرتے تھے ۔ سر کے اوپر ہمیشہ سفید رنگ کا کپڑا یا رومال باندھ کر رکھتے تھے ۔ چمڑے کی بنی ہوئی سادہ جوتی استعمال کرتے تھے اور چپل بھی پہنتے تھے۔

اندازِ گفتگو اور خلوص و محبت:واصف بڈیانوی ہر کسی سے بڑے نرم اور دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے۔ اُن کی آواز بڑی رعب دار تھی جس میں بہت زیادہ مٹھاس تھی ۔ جب کسی سے گفتگو کرتے تو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی ہوتی جس سے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ۔ جو شخص بھی واصف بڈیانوی سے ایک دفعہ مل لیتا وہ دوبارہ ملنے کی خواہش رکھتا ۔جو مہمان بھی واصف بڈیانوی سے ملنے کے لیے آتا آپ اُس سے بڑے خلوص اور محبت سے پیش آتے اور اس کی بہت زیادہ مہمان نوازی کرتے ۔ آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے یا علمی ادبی برتری ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ جس قدر مقام ملتا گیا آپ اسی قدر نہایت عجزوانکساری میں ڈھلتے گئے ۔

ذہانت:واصف بڈیانوی کو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا ۔ آپ نے کسی سکول سے تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی لکھنا پڑھنا سیکھا اس کے باوجود اتنی کتابوں کا مصنف ہونا آپ کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آپ کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی پڑھا لکھا خدمت گزار ضرور موجود ہوتا تھا۔ جب بھی کلام کی آمد ہوتی تو آپ بولتے جاتے اور وہ لکھتا جاتا ۔ لیکن اگر رات گئے آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا تو پھر کسی کو تکلیف نہ دیتے اور خود ہی لکھنے بیٹھ جاتے اور صبح کسی اور سے صاف صاف کر کے لکھوا لیتے ۔ جو شخص آپ کو ایک دفعہ مل لیتا اگر وہ دوبارہ کئی سالوں بعد بھی ملتا تو آپ اُس کو فوراً پہچان لیتے بلکہ آپ کو اُس کا نام تک بھی یاد ہوتا ۔ آپ کا حافظہ بہت تیز تھا ۔ آپ کو اکثر پرانی باتیں اور واقعات یاد رہتے تھے۔واصف بڈیانوی کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ان کی ساری زندگی اصول پرستی اور نصب العین پر مبنی نظر آتی ہے ۔ فرض شناسی اور خود داری کو ہمیشہ مقدم رکھا ۔۔ آپ اپنی نصیحت میں اکثر فرماتے کہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا ہمیشہ خیال رکھو اس کے بعد دینی ، علمی ، ادبی اور سماجی جس شوق میں چاہو مصروف عمل رہو کوئی حرج نہیں ۔ یاد رکھو جو شخص اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہے وہ کبھی اچھے مستقبل کی امید نہیں رکھ سکتا ۔واصف بڈیانوی ایک مذہبی او ردینی شخص تھے صوم و صلواۃ کے پابند تھے اُن کا دل عشق مصطفی ؐ سے سر شار تھا ۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھ پر پروردگار کی تمام تر کرم نوازیاں اور مہر بانیاں جس کے طفیل ہوئیں وہ لازوال دولت عشق رسولﷺ ہے۔ محبوب خدا احمدمصطفیؐ سے سچی محبت کی تڑپ ان کے دل میں اس قدر موجزن تھی کہ جب بھی سرکار مدینہؐ کا ذکر ہوتا تو آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے اور بے ساختہ پکار اُٹھتے :
تڑپے تیرا غلام بڑی دیر ہو گئی
غمیاں چہ پے گئی شام بڑی دیر ہو گئی

عرس:آپ نے ۴ جولائی ۲۰۰۳ء بروز جمعتہ المبارک کو وفات پائی اور آپ کو ۵ جولائی ۲۰۰۳ء بروز ہفتہ قصبہ بڈیانہ میں دفن کیا گیا اور ان کا عرس ہر سال ۵جولائی کو واصفی آستانہ محلہ واصف پورہ قصبہ بڈیانہ میں منایا جاتا ہے ۔ آپ کے سجادہ نشین صاحبزادہ پیر محمد ظہور واصف بڈیانوی احسن طریقہ سے آستانے کی خدمت کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ پیر ظہور واصف صحافتی دنیا میں بھی اپنامنفرد مقام رکھتے ہیں ۔
شاعری: آپ اپنی کتاب ’’جان پچھان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کی جدائی کے غم میں شاعری کا آغاز کیا۔قمر یزدانی جو قمر الکتابت کے قلمی نام سے ان کی بہت سی کتب کی کتابت کر چکے ہیں وہ آپ کی شاعری کے آغاز کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کی جدائی میں ۱۹۵۸ء میں شاعری کا آغاز کیا ۔ ان کی پہلی کتاب’ ’ حقیقت دی ٹلی‘‘ تھی ان کی پہلی تخلیق کچھ اس طرح تھی ؂
سدا باغاں دے بوٹے نہیں ہرے رہنے ، باغاں وچ نہیں سدا بہار رہنی
بادشاہ نے سدا نہیں راج کرنا ، فوج اوہدی نہیں سدا پنکار رہنی
سدا شیر نہیں جنگل دی سیر کرنی ، سدا اُڈ دی نہیں کونجاں دی ڈار رہنی
وہمؔ بت وچ سدا نہیں روح رہنا ، سدا تونبے دی نہیں وجدی تار رہنی

واصف بڈیانوی کے منظوم کلام اور تصانیف کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا مذہب سے گہرا لگاؤ تھااور وہ اپنی شاعری میں مضبوط مذہبی عقیدہ اور نبی پاک ﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں نعتیہ کلام سب سے زیادہ ہے ۔ نبی پاک ﷺ اولیا ء کرام اور شہدائے کربلا کی محبت میں انہوں نے بہت زیادہ کتب لکھیں ۔ ان کی تمام تصانیف کا مرکزی نقطہ حُب رسول ﷺ اور حُب آل رسول ﷺ ہے ۔ ان کی شاعری صوفیانہ انداز فکر کی ترجمانی کرتی ہے اور ان کی تصانیف مذہبی جذبات و احساسات کی بھر پور نمائندگی کرتی ہیں ۔ واصف بڈیانوی اپنی شاعری کی روشنی میں ایک وطن دوست اور محب وطن شاعر تھے۔ دوسری محبتوں کے علاوہ ان کی شاعری پر وطن دوستی اور حب الوطنی کا جذبہ غالب ہے اور وہ پنجابی زبان کی ترقی اور خوش حالی کا جذبہ رکھتے تھے ۔ کسی تخلیق کار کی تخلیقات میں اس کی شخصیت کا عکس نمایاں ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں ۔ انہوں نے ظاہری حسن سے زیادہ اندرونی حسن اور اخلاق و کردار کے حسن کو اہمیت دی ہے ۔ حسن و عشق کے ساتھ جڑے ہوئے احساسات اور جذبات کو صداقت سے اپنی ذات کا حصہ بنایا اوردردوسوز کے پیرائے میں پیش کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں کلی اور جزوی طور پر اخلاقی اور اصلاحی درس دیا ہے ۔ رومانیت سے بھر پور اخلاقی اور اصلاحی پیغام ان کی شاعری کی خوبی ہے ۔

واصف بڈیانوی کی تصانیف کی تعداد تین سو سے زائد ہے ان کی ابتدائی شاعری میں ہمیں غم ، ہجر ، دکھ ، درد ، جدائی اور وچھوڑے کا احساس نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے شاعری کو تبلیغ کا ذریعہ بنایا اور مختلف معاشرتی برائیوں کے خاتمے کی کوشش کی اور لوگوں کو اخلاق و محبت کا درس دیا۔ دنیا کو ایک عارضی ٹھکانہ سمجھتے ہوئے فکر آخرت کی تلقین اور نیک عمل کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے جھوٹ ، مکروفریب، عیب جوئی اور لڑائی جھگڑے سے باز رہنے اور امن و سلامتی کو اپنا شیوہ بنانے کا درس دیا ۔ آپ رسمی تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن شعور کی دولت سے مالا مال تھے۔ آپ ناصرف شاعری کی بہت زیادہ اصناف سے واقف تھے بلکہ انہوں نے ان اصناف کو اپنی شاعری میں استعمال بھی کیا ۔ وہ اپنے اردگرد کے حالات و واقعات سے با خبر رہتے تھے ۔ ان کی شاعری میں سیاسی ، سماجی اور مذہبی شعور پایا جاتاہے ۔ انہوں نے دیہاتی معاشرت ، خاندانوں کے سماجی رویے اور انتظامی مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے ہر موضو ع پر قلم اٹھایا ‘کوئی بھی ایسا موضوع نظر نہیں آتا جوواصف بڈیانوی کے قلم سے چھپا ہوا ہو۔انہوں نے ہر موضوع کا حق ادا کر دیا ۔ ان کے دل میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی گہری محبت موجزن تھی۔ انہوں نے اپنے کلام میں تصوف ،سلوک، فقرو غنا اور طریقت و حقیقت کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا ۔ انہوں نے لوگوں کے معاشی اور معاشرتی حالات کی وضاحت بھی کی ۔ انہوں نے اپنے جذبات اور احساسات کو اس مؤثر انداز میں پیش کیا کہ قاری بھی ان کو اپنے جذبات اور احساسات محسوس کرتا ہے ۔ واصف بڈیانوی کے ہاں ہمیں مذہبی اور ملی شاعری کثرت سے ملتی ہے ۔ مذہبی شاعری میں انہوں نے حمد ، نعت ، منقبت ، معراج نامہ ، سلام ، حلیہ شریف ، مرثیہ ، نوحہ اور کربلا کے حالات و واقعات لکھے ۔ ملی شاعری میں انہوں نے بہت زیادہ قومی ترانے لکھے اور مختلف ملکی و غیر ملکی سیاسی و نامور شخصیات پر کتابیں لکھیں۔ جن میں صدر صدام ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، ذوالفقار علی بھٹو وغیرہ زیادہ اہم ہیں ۔ انہوں نے علاقہ بھر میں شاگردوں کی ایک کثیر تعداد کو تربیت دے کر ان کے دلوں میں درد کی دولت منتقل کر دی جو آج پنجابی ادب کی خدمت کر رہے ہیں ۔ انہوں نے حلقہ احباب سخن بزم واصف قائم کی جس کا مقصد نہ صرف اسلامی ، ادبی، اخلاقی ، سماجی اور اصلاحی کاموں میں دلچسپی لینا ہے بلکہ معاشرے میں ہونے والی بے حیائی ، نا انصافی اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا بھی ہے ۔ اس سے واصف بڈیانوی کی سماجی اور معاشرتی فلاحی کاموں میں دلچسپی سے آگاہی ملتی ہے ۔

واصف بڈیانوی نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور بیش بہا خزانے آئندہ نسل کے لیے چھوڑے ۔ ان کے ہاں ہمیں تقریباً ہرمروجہ پنجابی صنف سخن کے نمونے ملتے ہیں ۔ انہوں نے دوہڑا ، ماہیا ، مثنوی ، چومصرعہ اور سی حرفی پر زیادہ توجہ دی اس کے علاوہ ان کے ہاں نظم ، غزل ، مسدس ، مخمس ، رباعی ، گیت ، باراں ماہ ، ست وارے ، بند ، وفات نامہ ، معراج نامہ ، جنگ نامہ ، بولیاں اور مزاحیہ شاعری وغیرہ تمام اصناف کثرت سے ملتی ہیں ۔ لیکن نعت واصف بڈیانوی کا محبوب موضوع ہے اس پر انہوں نے سب سے زیادہ کام کیا ۔ ان کے کلام میں تصوف کا رنگ نظر آتا ہے اور خاص طور پر حمدونعت میں تصوف کا رنگ زیادہ نمایاں ہے ۔ واصف بڈیانوی کے ہاں غزلیات کے بھی عمدہ نمونے ملتے ہیں ۔ ان کی غزلوں میں ہجر ، فراق اور محبوب سے ملنے کی آس جیسے مضمون شامل ہیں ۔ ان کی شاعری میں زبان کی سادگی ، خیالات کی بلندی اور جذبات کی سچائی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کا کلام سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی ۔ اگر واصف بڈیانوی کی فنی خوبیوں کو دیکھا جائے تو وہ کردار نگاری کا بہت اچھا فن رکھتے ہیں ۔ انہوں نے بڑے سادہ فہم میں مختلف شخصیات کی کردار نگاری کی ۔ فنی نقطہ نظر سے واصف بڈیانوی ایک کامیاب منظر نگار اور مصور بھی ہیں جو کسی واقعہ کی تصویر اس طرح کھینچتے ہیں کہ پورا واقعہ قاری کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے ۔ واصف بڈیانوی کی تاریخی شاعری بھی اپنا منفرد مقام رکھتی ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو منظوم شکل میں بیان کیا ہے جس سے ان کی واقعات نگاری کی فنی خوبی کا پتا چلتا ہے۔ انہوں نے تاریخی واقعات جیسے پاک بھارت جنگ ، بابری مسجد کا واقعہ ، درگاہ حضرت بل کا واقعہ ، عراق پر حملے کا واقعہ اورسانحہ کربلا بالکل سادہ اور عام فہم میں بیان کیے ہیں ۔

واصف بڈیانوی نے اپنی شاعری میں مکالمہ نگاری بھی کی ہے جس سے ان کی مکالمہ نگاری کا فنی پہلو اجاگر ہوتا ہے ان کی شاعری میں الفاظ و تراکیب کا انتخاب اور پھر ان کا استعمال نہایت سلیقے سے کیا گیا ہے ۔ انہوں نے سادہ الفاظ اورسیدھے سادے جذبات کو اچھے اسلوب سے پیش کیا جس سے ان کی تخلیقات قاری پر دیر پا اثر چھوڑتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مبالغہ آرا ئی سے کام نہیں لیا ہے ۔ انہوں نے شاعری کو جاذبِ نظر اور موثر بنانے کے لیے اس میں تشبیہات اور تلمیحات کا استعمال کیا ہے ۔ فکری لحاظ سے انہوں نے مذہبی ، سیاسی ، سماجی ، عشقیہ اور قومی شاعری کے موضوعات پر لکھا ۔

جہاں واصف بڈیانوی نے مختلف موضوعات اور شعری اصناف پر قلم اٹھایا وہاں انہوں نے قصہ نگاری بھی کی ۔ ان کے چھوٹے اور بڑے قصوں کی تعداد ۲۵ کے قریب ہے ۔انہوں نے مذہبی ، تاریخی ، عشقیہ اور رزمیہ قصے لکھے جن کو سی حرفی باراں ماہ ، دو ہڑا جات اور بیتوں کی شکل میں لکھا گیا ۔ مختلف ادبی شخصیات نے واصف بڈیانوی پر مضمون لکھے اور ان کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی ہے ۔واصف بڈیانوی کی زندگی اور ان کی ادبی تخلیقات کا مطالعہ کرنے پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا ادبی مقام کسی طرح بھی کم نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی پنجابی ادب کی خدمت میں گزاردی اور پنجابی زبان میں تمام اصناف پر قلم اٹھایا ان کی تخلیقی کا وشوں کا علمی و ادبی اور فکری و فنی لحاظ سے تجزیہ کیا تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوا کہ وہ ایک منجھے ہوئے اور حساس شاعر تھے جنہوں نے پنجابی ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ ایک عظیم صوفی شاعر کے مرتبے پر فائز ہیں اور ان کا نام پنجابی شاعری کی سب سے زیادہ کتب لکھنے والے شعراء کی فہرست میں شامل ہے۔ ان کی شاعری زندگی کے رچے بسے جذبات سے بھر پور ہے ۔ ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو پنجابی ادب کی خدمت کرنے والے لوگوں میں جائز مقام حاصل ہے۔
Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 40 Articles with 69277 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.