امریکی '' حوصلہ افزائی'' اور ''باہمی '' میں قیدجامع مزاکرات !

پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مزاکرات کو اب '' باہمی جامع مزاکرات'' کا نام دیئے جانے میں بھارت کی یہ کوشش نظر آتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مزاکرات میں امریکی کردار کو مزید محدود کرنے کے لئے جامع مزاکرات کو '' باہمی''میں قید کر دیا جائے۔
 وزیر اعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے باہمی جامع مذاکرات کا ازسرنو آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں پاکستان اور بھارت کے خارجہ امور کے سیکرٹریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے شیڈول اور طریقہ کار کا تعین کریں،ان مذاکرات میں امن و سلامتی کے معاملات ،پاک بھارت اعتماد سازی کے اقدامات ، مسئلہ کشمیر ، سیاچن ، سرکریک ،وولر بیراج ، تربل نیویگیشن پراجیکٹ پر بھی بات چیت ہو گی ،انسداددہشتگردی،نارکوٹکس کنٹرول کے امورجامع مذاکرات کاحصہ ہوں گے، پاکستان کیجانب سے بھارت کوممبئی ٹرائل کوجلدمنطقی انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کا عزم کیا گیا،قومی سلامتی کے مشیرانسداددہشت گردی سے متعلق امورپررابطے میں رہیں گے،دونوں ممالک اقتصادی وتجارتی تعاون پربھی جامع مذاکرات میں بات چیت کرینگے اور پاکستان اوربھارت کے درمیان عوامی رابطوں میں اضافہ کیاجائے گا۔سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگومیں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہاکہ وزیراعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے میری ملاقاتیں میں دونوں ملکوں کے درمیان بڑا' بریک تھرو 'ہوا ہے اور ہم نے جامع مذاکرات کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے دونوں ملکوں کے سیکرٹریز خارجہ کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ مذاکرات کی بحالی کیلئے شیڈول اور طریقہ کار طے کریں ، اب دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ یہ طے کرینگے کہ مذاکرات کب ، کہاں اور کس سطح پر ہونگے، ان مذاکرات میں کون کون لوگ شامل ہونگے اور بات چیت کا طریقہ کار کیا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ان مذاکرات کو پہلے جامع مذاکرات اور پھر' ری زیوم' مذاکرات کا نام دیا گیا تھا اب ہم نے انہیں باہمی جامع مذاکرات ( کمپری ہینسیو بائی لیٹرل ڈائیلاگ)کا نام دیا ہے،ان مذاکرات میں وہ تمام ستون اور چیزیں شامل ہونگی جو جامع مذاکرات میں ہوا کرتی تھیں ، باہمی جامع مذاکرات میں نئی چیزیں بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔

ہالیڈے ان اسلام آباد ہوٹل میں حریت کانفرنس کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے سینئر حریت رہنما غلام محمد صفی کی صدارت میں ایک سیمینار منعقد ہوا ۔حامد میر نے اپنی گفتگو میں انکشاف کیا کہ انہیں بنکاک جا کر چند انڈینز سے ملاقات کے لئے کہا گیا اور انہیں معلوم نہ تھا کہ اس کے بعد بنکاک میں ہی پاکستان اور بھارت کے سلامتی امور کے مشیران کی ملاقات ہونی ہے۔انہوں نے بتایا کہ انڈینز کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان کے ساتھ مشرف کے چار نکاتی فارمولے پر ہی بات ہو سکتی ہے اور اس کا نام مشرف فارمولے کے بجائے کشمیر فارمولہ رکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت چار نکاتی فارمولے پر بات کرنے کو بھی پاکستان پر ایک احسان کی طرح بیان کر رہا ہے ۔حامد میر نے پاکستان بھارت مزاکرات کو ' 'باہمی جامع مذاکرات'' کا نام دینے پر تشویش ظاہر کی۔تقریب خطاب میں مختلف مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیریوں کا مقدمہ مضبوط ہے تاہم اس پر سرگرم طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر تقریب غلام محمد صفی نے کہا کہ اس طر ح کی تقریبات سے بہتری کی راہیں تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ان سے پہلے سینٹرراجہ ظفر الحق ،وزیر اعظم پاکستان کے مشیر انسانی حقوق بیرسٹر ظفر،امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی،مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے سینئر نائب صدر چودھری طارق فاروق ،آزاد کشمیر کی وزیر فرزانہ یعقوب،حریت رہنما محمد فاروق رحمانی،شیخ تجمل اسلام،الطاف وانی اور دیگر شخصیات نے خطاب کیا۔راجہ ظفر الحق نے کشمیریوں کے مقدمے کو مبنی بر حق تو قرار دیا لیکن اس حوالے سے حکومتی،سرکاری پالیسی اور حکمت عملی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔آزاد کشمیر اسمبلی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چودھری طارق فاروق نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کو حریت اور آزاد کشمیر کے رہنمائوں سے ملاقات کرنی چاہیئے کہ اس کامقصد کشمیر کاز کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

میں نے اپنی بات میںچار نکات بیان کئے۔انڈین آرمی اور پولیس کے جبر ،مظالم اور تشدد کے علاوہ بھارت کے تمام ادارے،محکمے بھی کشمیریوں کے مخالف روئیہ اپنائے نظر آتے ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں عدالتیں بھی بھارتی فوج کو تحفظ اور سہولت کاری مہیا کرتی ہیں۔تحریک آزادی میں حصہ لینے والوں کے رشتہ داروں کو پاسپورٹ جاری نہیں کیا جاتا۔کشمیر کے بھارت میں زیر تعلیم یا سفر کرنے والوں کی سلامتی کو حقیقی معنوں میں سنگین خطرات لاحق رہتے ہیں۔نوعمر بچوں کی گرفتاریاں اور تشدد کشمیر میں بھارتی مظالم کے ایک مستقل سلسلے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔مختصر یہ کہ بھارت کشمیریوں کے خلاف اس طرح کی ظالمانہ کاروائیوں میں مصروف نظر آتا ہے کہ جیسے ''گیتا'' میں لکھا ہو کہ کشمیر مسلمانوں کو مسلسل سزایاب کیا جائے۔یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ ہمارے پاس ایسے اعداد و شمار،ایسا مواد موجود نہیں ہے جو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے عالمی سطح پر مصدقہ طور پر پیش کئے جا سکیں۔کیا اقوام متحدہ ،عالمی اداروں،حکومتوں کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہی ہے۔تحریک آزادی کشمیر ،کشمیر کاز کے حوالے سے علمی اور تحقیقاتی کام ہوتا نظر نہیں آتا ۔اس بارے میں غور وفکر کی ضرورت ہے کہ کس طرح تحریک آزادی کشمیر،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایسا مصدقہ مواد تیار کیا جائے جو عالمی سطح پر مصدقہ طور پر پیش کیا جا سکے۔کشمیر کے حوالے سے کئی ادارے کام کرتے تو نظر آتے ہیںلیکن وہاں اس حوالے سے ایسا کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا۔آزاد کشمیر میں کشمیر لبریشن سیل کا قیام اسی نوعیت کے کام کے حوالے سے تھا لیکن اسے محض نااہل افراد کے روزگار کا ایک ذریعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔حریت کانفرنس ،پاکستان کی کشمیر کاز سے متعلق پالیسی اور حکمت عملی کے امور میں بہتری کی گنجائش بہت زیادہ ہے اور اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس سے بھی سنگین علامت یہ کہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں میں نمائشی انداز واضح اور اخلاص کا اظہار بہت ہی کم نظر آتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان مزاکرات کی بحالی کے لئے پیش رفت میں اس بار بھی امریکہ کی '' حوصلہ افزائی'' کار فرما نظر آتی ہے۔پیرس میں پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی غیر رسمی ملاقات کے بعدبنکاک میں سلامتی مشیران کا اجلاس اور پھر بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ اسلام آباد کے اقدامات امریکہ کی حوصلہ افزائی سے ہی ہوتے معلوم ہو رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مزاکرات کو اب '' باہمی جامع مزاکرات'' کا نام دیئے جانے میں بھارت کی یہ کوشش نظر آتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مزاکرات میں امریکی کردار کو مزید محدود کرنے کے لئے جامع مزاکرات کو '' باہمی''میں قید کر دیا جائے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مزاکرات بھی امریکہ کی طرف سے پاکستان بھارت کے مزاکرات کی '' حوصلہ افزائی '' سے ہی شروع ہوئے تھے،یوںیہ نظر آ رہا ہے کہ ایک بار پھر امریکی انتظامیہ ایٹمی دفاع کی صلاحیت کے حامل جنوبی ایشیا کے دودشمن ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان بھارت مزاکرات کی '' حوصلہ افزائی'' کرر ہا ہے۔کیا پاکستان بھارت جامع مزاکرات کو ''باہمی'' کا لفظ دینے سے امریکہ کے '' حوصلہ افزائی''کے کردار کو مزیدمحدود کیا جا سکے گا؟کیا وزیر اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ اعلان لاہور کی طرز پر تعلقات کی بحالی کے موقف پر قائم ہیں یا مشرف کے ''حرام فارمولے'' کو کشمیر فارمولے کا نام دے کر '' حلال'' کر لیا جائے گا؟کیاباہمی جامع مزاکرات شروع ہوتے ہوئے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا '' دست ستم'' جاری رہے گا؟کیا بھارت حقیقی طور پر مسئلہ کشمیر پر امن اور منصفانہ طور پر حل کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہے یاپاکستان سے افغانستان تک زمینی راستے و دیگر مراعات کے حصول کے لئے کچھوے کی چال والے مزاکرات کا انداز اپنا رہا ہے؟کیا بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی دبائو کی صورتحال میں پاکستان کو مزید دبائو میں لاتے ہوئے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتا ہے؟کیا انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان مشرف کے چار نکاتی فارمولے پر رضامند ہے تو پاکستان کو مزید پیچھے ہٹنے پر بھی مزید مجبور کیا جا سکتا ہے؟ہمارے لئے اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنی ترجیحات کی فہرست میں کیا مقام دیا ہوا ہے؟کیا پاکستان میں مسئلہ کشمیر کو معاملات افغانستان پر قربان کرنے کی سوچ بھی پنپ رہی ہے؟یہ امور وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتے جائیں گے،ان امور پر پاکستان کی حکومت اور فوج کوپالیسی اور حکمت عملی کے حوالے سے ایک ہی انداز اپنانے کی ضرورت نمایاں ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699321 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More