بلدیاتی نظام.... ترقی کی خشتِ اول

کوئی ملک چین کا حامی ہو یا مخالف چین کی برق رفتار ترقی سے انکار نہیں کرسکتا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ چند برسوں میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑکر عالمی قوت کی حیثیت اختیار کر لے گا اور 2021ءتک دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت کے طور پر سامنے آئے گا۔ چین کے شہروں سے لے کر دیہات تک میں ضروری سہولتیں میسر ہیں۔ چین میں کنفیوشس کو سب سے بڑا روحانی رہنما قراردیا جاتا ہے۔ان کی تعلیمات کو چین میں بہت اہمیت دی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے: © ”قومی زندگی کی تنظیم کرنے والے سب سے پہلے اپنی گھریلو زندگی کو باقاعدہ بنائیں....یہ ممکن ہی نہیں کہ بنیاد باقاعدہ اور ٹھیک نہ ہو تو ساری عمارت درست اور مضبوط ہو۔ دنیا میں ایسا کوئی درخت نہیں جس کا تنا توکمزور اور نازک ہو اور اس کی اوپر کی شاخیں، ٹہنیاں بے حد بھاری بھرکم اور مضبوط ہوں۔“ چین نے آج بھی کنفیوشس کے اس اصول کو پوری طرح اپنا رکھا ہے۔

چین میں ملک کی”عمارت“ کو مضبوط بنانے کے لیے ”بنیادوں“ کو مضبوط کرنے پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ ملک کے تمام علاقے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر تمام علاقے فلاحی کاموں کی بدولت ترقی کی منازل طے کرلیں تو ملک خودبخود ترقی کرسکتا ہے۔ چھوٹے بڑے تمام علاقوں میں فلاحی کام کرنا اور عوام کی خدمت کرنا مقامی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ چین میں مقامی سطح پر خدمات کو بہت ترجیح دی جاتی ہے۔ وہاں کا مقامی نظام حکومت مستحکم اور مضبوط ہے۔ چین میں مقامی پیپلزکانگریس کا براہ راست انتخاب ہوتا ہے اور یہی مقامی کانگریسیں بالائی درجے کی کانگریسوں کا بالواسطہ انتخاب عمل میں لاتی ہیں۔ گورنروں ، مئیرز ، اضلاع ، قصبات اور دیہات کے سربراہوں کا انتخاب بالترتیب مقامی کانگریسیں کرتی ہیں۔
یہ صرف چین کا ہی معاملہ نہیں، بلکہ دنیا بھر کے تمام ترقی پذیر ممالک چاہے ان میں جمہوریت ہو، بادشاہت ہو، آمریت ہو یا کوئی اور نظام ہو ان میں لوکل گورنمنٹ کا نظام انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس نظام کے بغیر ترقی کرنا اور ملک میں موجود نچلے درجے کے بنیادی مسائل کا حل کرنا نہ ممکن سمجھا جاتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں وقفے وقفے سے مقامی الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ کونسلرز چنے جاتے ہیں۔ چیئرمین یا میئرزکا انتخاب ہوتا ہے۔ وہ عوامی بہبود کے لیے یکسوئی سے اقدامات کرتے ہیں۔ سڑکیں، گلیاں، بازار پختہ کرواتے ہیں۔ اسکول اور اسپتال بناتے ہیں، چنانچہ ملک کی ترقی کے لیے مقامی نظام حکومت کا مستحکم ہونا ازحد ضروری ہے۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک عظیم سیاستدان اور بہترین منتظم تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہنگامی بنیادوں پر عوام کی فلاح کے لیے نہریں کھدوائیں۔ مہمان خانے بنوائے۔ چوکیاں اور سرائیں تعمیرکروائیں۔ سڑکوں اور پلوں کا انتظام کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ملک کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیا۔ ملک کو انتظامی طور پر کئی حصوں میں تقسیم کیا۔ عوام کی خدمت کے لیے مقامی سطح پر نمایندے مقررکیے، جو دن رات عوام کی خدمت میں مصروف رہتے۔ یہ نمایندے کھلی کچہریاں لگاتے، عوام جب چاہتے ان کے پاس آکر اپنے مسائل بیان کرتے، کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ ان نمایندوں کو اپنے گھروں کے دروازے بندکرنے کی اجازت نہیں تھی، اپنے ساتھ محافظ رکھنے کی اجازت نہیں تھی کہ کہیں عوام کو ان تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ عوام کی فلاح کے لیے کیے گئے ان اقدامات کی بدولت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور حکومت ایک مثالی دورکہلاتا ہے۔

مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت، اثر پذیری اور مثبت نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بلدیاتی ادارے کسی بھی ملک کی تعمیروترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ملک کا شہری نظام بہتر اور مضبوط ہو، مقامی حکومتیں فعال ہوں تو ملک کا ترقی کرنا یقینی ہے، اگر منتخب نمایندے اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے اپنے اپنے علاقے میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کریں تو کچھ ہی عرصے میں ملک ترقی کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔لوکل گورنمنٹ کا نظام مستقل بنیادوں پر عوام کے مسائل کے حل ،وسائل کی تقسیم اورحکومتی اداروں کی کار کردگی بہتر بنانے میں معاون کار ثابت ہوتا ہے، اسی نظام کی بدولت بہت سے نئے اور باصلاحیت، محب وطن سیاستدان ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، جس کی بدولت پاکستان کی حقیقی معنوں میں تشکیل ہوسکتی ہے۔

آج ترکی میں صدارت کی کرسی پر بیٹھے طیب اردوان ابتدا میں کونسلر منتخب ہوئے تھے اور پھر استنبول کے میئر بنے۔ میئر بننے کے بعد طیب اردوان نے استنبول شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ استنبول کی تعمیر و ترقی کو دیکھ کر عوام نے طیب اردوان کو ترکی کے وزیراعظم کے طور پر آگے آنے کا مشورہ دیا اور 2002ءکے انتخابات میں کامیابی ان کے نام کردی۔ آج طیب اردوان ترکی کے صدر ہیں اور ان کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

5دسمبر کو پنجاب کے 12 اور کراچی کے 6 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے بعد پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کرنا بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمایندوں پر لازم ہے۔ منتخب نمایندوں پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے سر توڑ کوشش کریں، کیونکہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ہی ان کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ بہت سے علاقوں کی گلیوں میں کیچڑ اورکچروں کے ڈھیر ہیں۔ نالیاں غلیظ ترین بدبو چھوڑ رہی ہیں۔ مسجدوں کے راستوں میں تالاب کھڑے ہیں۔ ہر چوک پر غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں۔ فٹ پاتھوں کو ناجائز تجاوزات نے گھیرا ہوا ہے۔ پارکوں میں جھولوں کی بجائے لوگوں نے اپنے مال مویشی باندھ رکھے ہیں۔

دور دراز کی بستیوں میں بہت سے اسکولوں کو مویشی منڈیوں کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں، جن سے چھٹکارا دلانا عوامی نمایندوں کی ذمے داری ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونیوالے نمایندے اگر اپنی ذمے داری ادا کریں تو نہ صرف عوام کو بہت سے مسائل سے نجات مل سکتی ہے، بلکہ ملک کا ہر علاقہ ایک مثالی علاقہ بن سکتا ہے اور ملک ترقی کی منازل طے کرتا ہوا اوج ثریا پر پہنچ سکتا ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.