اب کسے رہنماء کرے کوئی
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
اذہان وقلوب میں محرومیوں کے بھڑکتے الاؤ ، برگِ خزاں کے زردچہروں پر
مایوسیوں کے سیاہ ناگ پھَن پھیلائے ہوئے ، اُمیدِ صبح کے آثارناپید ،دعاکے
لیے اُٹھتے ہاتھوں پر رعشہ طاری اورمایوسیوں کے بحرِ بیکراں میں غوطے کھتی
قوم کایہ عالم کہ
نہ مستجاب اتنی دعائیں ہوئیں کہ پھر
میرا یقیں بھی اُٹھ گیا رسمِ دُعا کے ساتھ
دعائیں بھلا مستجاب کیوں کرہوں کہ ہم اُس لم یزل سے ناطہ توڑکر زمینی خداؤں
کے آگے سجدہ ریز جس نے حکمت کی کتاب میں درج کردیا ’’کتنے ہی جانورہیں
جواپنا رزق اپنے کندھوں پراُٹھائے نہیں پھرتے ۔تحقیق کہ تمہارا رَب اُنہیں
رزق دیتاہے اورتمہیں رزق دینے والابھی وہی‘‘۔ لاریب اگرحصولِ منزل کاایقان
اذہان وقلوب میں گھر کرلے توکوہِ الم کی تسخیر ممکن وگرنہ نہیں ،ہرگز نہیں
کہ حکمت کی رفیع الشان کتاب کایہ واضح فرمان کہ
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اِدھرمجبور ومقہور قوم کایہ عالم کہ نے ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہے رکاب میں
اور اُدھر مآل سے بے خبرو بے نیاز رہنماء کرسی کی تگ ودَومیں اپنی حدوں سے
نکلتے ہوئے ۔کچھ قوتوں کی نظرمیں قابلِ قبول بننے کے لیے وزیرِاعظم صاحب نے
’’لبرل پاکستان‘‘ کانعرہ لگایا توبھٹومرحوم یادآ گئے جن کے ذہنِ رسانے
اسلام ہمارامذہب ،سوشلزم ہماری معیشت اورطاقت کاسرچشمہ عوام کاملغوبہ
تیارکیالیکن ربِ کائنات نے اُنہیں نشانِ عبرت بنادیا اور جن کووہ طاقت
کاسرچشمہ سمجھتے تھے اُنہی کے سامنے وہ تختۂ دارپہ لٹکادیئے گئے کہ طاقت
کاسرچشمہ تواﷲ صرف اﷲ جس نے ہمیں مکمل ضابطۂ حیات عطاکرکے دین میں پورے کے
پورے داخل ہونے کاحکم دے دیا ۔جب وزیرِاعظم صاحب نے لبرل پاکستان کی بات کی
توسیکولر دانشوروں کی آنکھوں کی چمک قابلِ دید تھی ۔ایک لکھاری نے کہا
’’لبرل ازم کے حوالے سے جاری بحث سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کہ کم علمی کی
نعمتوں سے فیض پانے والوں کی کمی نہیں‘‘۔ یہ بجاکہ ہم ٹھہرے کم علم لیکن کج
بحث نہیں، ہمیں تو ’’لبرل ازم‘‘ کی اُسی معروف تعریف کاپتہ ہے جودین
کوسیاست سے الگ کرکے ایسے مادرپدر آزاد معاشرے کوجنم دیتی ہے جس کی جھلک
یورپی اقوام میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہماراجزوِایمانی یہ کہ حاکمیتِ اعلیٰ ربِ
کردگارکی اورانسان زمین پراﷲ کانائب جواُس کے احکامات سے سرِمو انحراف نہیں
کر سکتا۔ ویسے لکھاری موصوف نے لبرل ازم کوقابلِ قبول بنانے کے لیے ’’لبرل‘‘
کی جو تعریف اپنے کالم میں کی ہے وہ توعین اسلام ہے لیکن کچھ حدودوقیود کے
ساتھ جن کے لکھاری موصوف قائل نہیں۔ شخصی آزادی جتنی دینِ مبیں میں دی گئی
اُتنی کسی اور’’ازم‘‘ میں نظر نہیں آتی کہ ایک عام صحابی بھی امیرالمومنین
حضرت عمرؓ سے یہ سوال کرنے کی جرأت رکھتاہے کہ ’’آپ کے حصّے میں تو ایک
چادرآئی تھی ،یہ دوسری چادرکہاں سے آگئی ؟‘‘۔ حضرت عمرؓ کووضاحت کرنی پڑتی
ہے کہ اُن کاقد طویل ہے اورایک چادرسے جسم ڈھانپا نہیں جا سکتاتھا اِس لیے
بیٹے نے اپنی چادرمجھے دے دی ۔خواتین کے حقوق سب سے پہلے دینِ مبیں نے ہی
متعین کیے اوروہ معاشرہ جہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتاتھا اُس میں
عورت کواعلیٰ ترین مقام عطاکیا ۔ اسلام کابھرپور معاشی نظام موجودہے اِس
لیے ہمیں کسی دوسرے ’’ازم‘‘ کے معاشی نظام کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔پھرپتہ
نہیں وزیرِاعظم صاحب نے کیوں ’’لبرل پاکستان‘‘ کی بات کرکے ہم جیسوں کو یہ
سوچنے پرمجبور کردیاکہ’’اب کسے رہنماء کرے کوئی‘‘۔
کئی بارحکمرانی کے مزے لوٹنے والی پیپلزپارٹی سے بھی قوم نے بہت سی توقعات
وابستہ کر رکھی تھیں لیکن وہ تو اپنی موت آپ مرچکی ۔زرداری صاحب دبئی جا
بیٹھے اور بلاول دیہی سندھ میں کامیابی پربھی بغلیں بجا رہاہے ۔جماعت
اسلامی نے تحریکِ انصاف کی ’’بی ٹیم‘‘ بن جانے میں ہی عافیت جانی لیکن
گوہرِ مقصود پھربھی ہاتھ نہیں آ سکااور وہ بلدیاتی انتخابات میں بری طرح
پِٹ گئی ۔ہمارا خیال تھا کہ انقلابی ذہن رکھنے والے محترم سراج الحق صاحب
کے دورِ امارت میں جماعت اسلامی اُبھرکر سامنے آئے گی لیکن ایساہوتا فی
الحال تونظر نہیں آ رہا اوریوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے جماعت اسلامی کواپنا
الگ تشخص برقرار رکھنے میں بھی مشکلات کاسامنا ہو۔ رہی بات کپتان صاحب کی
تواُنہیں تاحال ’’دھاندلی‘‘ کی رَٹ لگانے سے فرصت نہیں۔ بلدیاتی انتخابات
کاتیسرا مرحلہ گزرجانے کے بعداُنہوں نے ایک دفعہ پھریہ بیان’’ داغنا‘‘
ضروری سمجھاکہ الیکشن کمیشن نوازلیگ سے ملاہوا تھااور 2013ء سے بھی زیادہ
دھاندلی بلدیاتی انتخابات میں ہوئی۔ سوال مگریہ ہے کہ اگراُنہیں یقین تھاکہ
بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی ہوگی تووہ الیکشن کابائیکاٹ کرکے سڑکوں پر
کیوں نہیں آئے ؟۔ اُنہوں نے فرمایاکہ چارمیں سے تین حلقوں میں دھاندلی ثابت
ہوگئی جبکہ حقیقت یہ کہ کہ اِن تین حلقوں میں سے کسی ایک میں بھی الیکشن
ٹربیونلز نے جیتنے والے اُمیدوار پردھاندلی کاالزام نہیں لگایا۔ انتخابی بے
ضابطگیوں کی بات ضرورہوئی لیکن دنیاکی کوئی عدالت بھی انتخابی بے ضابطگی
کودھاندلی قرارنہیں دے سکتی ۔تحقیقاتی کمیشن نے بھی انتخابی بے ضابطگیوں کا
کھُل کرذکر کیا لیکن ساتھ ہی 2013ء کے انتخابات کودھاندلی سے پاک اورعوام
کی توقعات کے عین مطابق بھی قراردیا۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی نتائج 2013ء
کے انتخابات کے عین مطابق ہی آئے ۔ اِس کے باوجودبھی خاں صاحب میں نہ مانوں
کی رَٹ لگاتے پوری قوت سے دھاندلی کاراگ الاپ رہے ہیں۔ اُن کے قحطِ اعتبار
کایہ عالم کہ ’’الجھاؤ ہے زمیں سے ،جھگڑا ہے آسماں سے‘‘۔ نسلِ نَونے توخاں
صاحب کی کرشماتی شخصیت سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں لیکن اب وہ
بھی یہ کہنے پرمجبورکہ ’’اب کسے رہنماء کرے کوئی‘‘۔
|
|