بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟
(Syed Mansoor Agha, India)
اجودھیا کا غم؛ پاکستان پر یو ٹرن؛ سول کوڈ
پر پسپائی
اﷲ کا شکر ہے کہ 6دسمبر بخیریت گزرگئی۔حسب سابق اخباروں میں مضامین بھی
شایع ہوئے، بیانات بھی آئے اورمسلم تنظیموں نے احتجاج کی رسم بھی ادا کی ۔
اس سے قبل 2؍دسمبرکو سنگھ رہنما موہن بھاگوت نے امید ظاہر کی کہ ’’ رام
مندرمیری زندگی میں بن جائیگا۔‘‘ پتہ نہیں اس امید کہ بنیاد کیا ہے؟جہاں تک
رام مندر کا تعلق ہے وہ تو بابری مسجد کے ملبے پر نرسمہاراؤ کے دور میں بن
ہی گیا تھا۔ عقیدت کے اظہار کے لئے حالانکہ کسی مندر کی ضرورت نہیں کہ ہزار
ہاسال سے شری رام کا کردار ہماری عقیدت کا محور رہا ہے اوراس کے لئے ہمارے
ہندو بھائیوں کو کبھی مندر کی یا رام کی مورتی کی ضرورت نہیں پڑی۔
گھٹ گھٹ میں سری رام رمے ہیں
جب چاہو درشن کر لو، جب چاہو بات کرو
نتیش کمار نے درست کہا کہ دلچسپی رام مندر سے نہیں، اس کے نام پر سیاست سے
ہے۔ عوام کو ورغلایا جارہا ہے۔ بھاگوت جی نے یہ بات کولکاتہ میں کہی، جہاں
عنقریب اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔ دوسرے دن آرایس ایس کے ٹویٹ پر کہا
گیا کہ عوام اس کے لئے تیاری کریں۔ فضا کو ساز گار بنائیں۔ یہ صاف اشارہ ہے
کہ بنگال اسمبلی الیکشن سے پہلے سنگھ پریوار اس موضوع کو چھیڑ کر سیاسی فضا
بھاجپا کے حق میں جھکانا چاہتی ہے۔ بہار انتخابات کے بعد ان کے کیڈر میں جو
بددلی ہے، رام نام کا یہ جاپ اس کو دور کرنے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ گزشتہ
چوتھائی صدی میں رام مندر کے نام پر ملک میں جو خون خرابہ ہوا، جس طرح
فرقوں کے درمیا ن دیوار حائل ہوئی شاید اس سے سنگھ پریورا کا جی نہیں بھرا۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان ،لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اس کی گردن پر؟
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں مورتیاں رکھے جانے سے آج تک سخت تعصب سے
کام لیا گیا ہے۔ کسی بھی حکومت نے ہرگز اپنا راج دھرم نہیں نبھایا۔ اس
تحریک کے چلتے تشدد میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، کروڑوں کی املاک تبا ہ
ہوئیں۔ سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ صاف کہہ رہی ہے کہ فساد فرقہ ورانہ نہیں
تھا بلکہ اقلیت کے خلاف ایک طرح کی ریاستی دہشت گردی تھی۔ مسجد کو گرانے
اورقتل وغارت گری کے خطاکاروں کو تو سرکار نے چھوا تک نہیں، لیکن اس کے
ردعمل میں جو واقعات ہوئے ان میں ماخوذ کرکے جیل بھی ہوئی اورپھانسی بھی
دیدی گئی۔ جب کسی ملک میں سرکار کی سرپرستی میں انصاف کا خون ہوتا ہے،
اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کیاجاتا، ان پر ظلم وزیادتی روا رکھی جاتی ہے
تواکثریتی طبقہ کے تشدد پسند عناصر کو حوصلہ ملتا ہے۔ گھروں سے نکال کر
لوگوں کو مارا جاتا ہے۔ بدامنی پیدا کی جاتی ہے۔یہی سب کچھ ہورہا ہے۔
انصاف پسندی اور رواداری کے لئے گواہی میں آئین کی دفعات پیش کی جاتی
ہیں۔گاندھی اورگوتم کا نام لیا جاتا ہے۔ دعوا ہے کہ ہمارے یہاں قانون کی
عملداری ہے۔لیکن انصاف کی عملداری کے لئے نہ تاریخ کام آتی ہے اورنہ آئین
میں لکھی ہوئی دفعات اورنہ عدالتی نظام ، جب تک پولیس اورانتظامیہ کی نیت
درست نہ ہو۔ وہ اس برصغیر کے کسی ملک میں نہیں۔ یہ دعوا جھوٹا اور ملک کے
ساتھ دغا ہے کہ ہمارے یہاں قانون کی عملداری غیرجانبدارانہ ہوتی ہے۔
عدالتوں کو گمراہ کیا جاتا ہے ، جھوٹی گواہیاں اور دستاویزات کا سہارا لیا
جاتا ہے۔ عدالت فیصلہ اس ریکارڈ کے مطابق کرتی ہے جواس کے سامنے ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں انصاف پسندعوام کا اورظلم کے شکار طبقوں کو یہ حق ہے کہ وہ
روش کے خلاف حسب موقع آواز اٹھائیں۔ 6؍دسمبر کے مظاہروں کو مقصداس کے سوا
کچھ نہیں۔ انصاف ملے یا نہ ملے۔ ناانصافیوں کے خلاف آوازاٹھائی جاتی رہے۔
اب ضرورت ہے کہ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی بین اقوامی ایجنسیوں سے
بھی پے درپے رجوع کیا جائے۔ جب سے مودی وزیراعظم بنے ہیں، ممالک غیر میں
سیاسی موضوعات نہ اٹھانے کا اخلاقی بندھن ٹوٹ گیا ہے۔
پاکستان پر یوٹرن
اتوار کو بنکاک میں ہندپاک سلامتی مشیروں کی میٹنگ ہوئی، جس میں دونوں
ممالک کے خارجہ سیکریٹری بھی شامل ہوئے ۔ بات چیت کے موضوعات میں کشمیر کو
بھی شامل کیا گیا۔ یہ پہل اس قدر رازدارانہ انداز میں کی گئی کہ وزارتوں کے
متعلقہ حکام کو بھی پتہ نہیں چلا۔ بات چیت کے بعدایک سرکاری بیان سے یہ
اطلاع ملی۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ جس طرح بھونڈے طریقے سے عین وقت پر پہلے
خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات کواورپھر سلامتی مشیروں کی مینٹنگ کو منسوخ کیا
گیا تھا، بنکاک راؤنڈ سے اس کی کچھ تلافی ہوگئی ہے۔ انافانا وزیرخارجہ سشما
سوراج کا دورہ پاکستان بھی ہوگیا۔پاکستان میں جانکار حلقوں نے اس پہل کا
محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ دونوں حکومتوں کو اپنا رخ بدلنا ہوگا۔
مودی کے واجپئی اورڈاکٹرمن موہن سنگھ کے دورمیں جو باتیں باالواسطہ رابطوں
سے آگے بڑھی ہیں ان کو آگے بڑھانا ہوگا اور نواز شریف سرکار کو بھی سمجھنا
ہوگا کہ جنرل مشرف کے دوراقتدار میں جو پیش رفت ہوئی وہ مشرف کی نہیں
پاکستان کی پیش رفت ہے۔ اس سے آگے بڑھیں۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے سیاستدانوں نے
اورمیڈیا نے ماحول اسقدر مکدرکردیا ہے کہ ہرقدم کو سیاست زدگی اورمیڈیا کی
ناعاقبت اندیشی سے بچانا ہوگا۔ تکنکی طور پر کانگریس کا یہ اعتراض درست
ہوسکتا ہے یہ قدم پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا۔ لیکن امید ہے
کہ وزیرخارجہ پاکستان سے واپسی پر دونوں ایوانوں میں کوئی بیان دیں گیں۔
ملک کا ماحول کس نے اورکتنا مکدر کردیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے
کہ زبردست اکثریت کے باوجود مودی صاحب کو سوشل میڈیا اورمیڈیا میں ہنگامے
سے ڈر لگنے لگا ہے۔ کانگریس نے یہ اعتراض کرکے عوام کے پاکستان مخالف جذبات
سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہی کارڈہے جس کا مشورہ چناؤ ہارجانے کے
بعد کیرالہ سے پارٹی لیڈر اے کے انٹونی نے دیا تھا کہ پارٹی اکثریتی طبقہ
کے جذبات کو اپنے حق میں ہموار کرے۔
مسٹرمودی نے اپنی حلف برداری کی رسم میں سارک ممالک کے سربراہوں کو بھی
مدعو کیا تھا، جس سے یہ اچھا تاثر گیا تھا کہ ان کی ترجیحات میں پڑوسی
ممالک سے تعلقات کی استواری شامل ہے۔ لیکن عملاً ایسا ہوا نہیں۔ نیپال سے
صدیوں پرانے میٹھے رشتوں میں کھٹاس ڈال دی گئی اوراس کو دھکا دے کر چین کی
شرن لینے پر مجبورکردیا گیا ہے۔ ہاں بنگلہ دیش سے رشتے ٹھیک ہیں کہ وہاں بے
قصوروں کو شہید کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ بغیرمعقول وجہ کھٹاس میں اضافہ کیا گیا۔ جس طرح دوستی کا
ہاتھ بڑھا کر نا نکڑ ہوئی اس سے عالمی سطح پر ہند کا اقبال خاک میں مل گیا
ہے ۔ عوام میں بھی اس کا اعتبار کمزورپڑگیا ہے۔ آپ اپنے ملک کے عوام کو ہی
’اچھے دن ‘ کے مغالطہ میں رکھ لیں، بین اقوامی معاملات کو تو مقامی سیاست
سے بلند رکھیں۔ اگست میں جب اس اصرار پر کہ کشمیر پر بات نہیں ہوگی اور
سلامتی کے مشیر صرف دہشت گردی کے موضوع پر با ت کریں گے، مذاکرات پٹری سے
اترے تو وزیرخاجہ سشما سوراج نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا،’’ مذاکرات کسی
تیسری ملک میں ہونے کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب بھی ہونگے یا ہندستان
میں ہونگے یا پاکستان میں۔‘‘ اب بنکاک میں کیوں ہوگئے؟ اس بات کوابھی
چارماہ بھی پورے نہیں ہوئے جب کہا گیا تھا: ’’ہم کشمیر پراس وقت تک بات
نہیں کریں گے جب تک دہشت گردی کے تعلق سے ہماری تشویشات کا ازالہ پاکستان
نہیں کرتا۔‘‘ یہ تمام بیانات ملک کے بین اقوامی مفاد کے پیش نظرنہیں، بہار
چناؤ کی وجہ سے دئے گئے تھے۔
ایک بار یہ کہا گیا تھاجب تک پاکستان ہمار ے مطلوبہ 20مشتبہ مجرموں کو
حوالے نہیں کرتا ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائیں گے۔مذاکرات کی اطلاع پر
ہمیں کانگریس کی طرح کوئی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ خوشی ہوئی کہ کفرٹوٹا
خداخدا کرکے۔ لیکن یہ سوال بہرحال کیا ہی جائیگا کہ تم جو کہتے ہووہ کرتے
کیوں نہیں، جو کرتے ہووہ بتاتے کیوں نہیں؟ اور یہ کہ یہ کیسی مضبوط قیادت
ہے جو رائے عامہ کو اپنے ساتھ نہیں لیجاسکتی؟ ایف بی اور ٹوئیٹر پر مچائے
ہوئے شور سے ڈر جاتی ہے۔
تعلقات کونارمل کرنے کے لئے دراندازی اور گولی باری بند ہونی چاہئے۔ تجارت
کونارمل کیا جانا چاہئے اورویزا ضابطوں کو نرم کرنے کا جو معاہدہ جون 2012
میں ہوا تھا اور جس کو عین نفاذ کے دن ایک دہشت گرد حملے کے بعد روک دیا
گیا ، اس کو ٹھنڈے بستے سے باہر نکالا جائے۔ کم از کم معمر لوگوں کو ، جو
65سے اوپر کے ہیں اوپن ویزا آن اراؤل کی سہولت اورتھانہ پولیس میں حاضری سے
چھوٹ دی جائے۔ تجارت کو آسان کیا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان آسانیوں کا بعض
عناصرغلط فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں، لیکن اس ڈر سے کہ شہر میں کچھ لوگ قانون
شکن بھی ہیں، سب کوآزار میں مبتلا نہیں کیاجاتا۔
یونیفارم سول کوڈ
7دسمبر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بنچ نے
یونیفارم سول کوڈ کے حق میں دائر ایک پی آئی ایل کو نامنظورکردیا۔ یہ پی
آئی ایل بھاجپا کے رکن اشونی کماراپادھیائے ایڈوکیٹ نے دائر کی تھی اورکہا
تھا کہ مسلم خواتین امتیاز اورعدم مساوات سے تکلیف میں ہیں۔ سپریم کورٹ نے
پوچھا آپ کو کیوں تکلیف ہوئی؟ مسلم خواتین توآئی نہیں۔ عدالت نے دوٹوک
الفاظ میں کہا ہم حکومت کو کوئی ایسا قانون لانے کی ہدایت نہیں دے سکتے۔ یہ
پارلیمنٹ کا کام ہے۔ دراصل سپریم کورٹ لازمی شادی رجسٹریشن کے معاملے میں
ایک ہدایت دے چکا تھا ۔جس سے حوصلہ ملتا ہے۔ جج صاحبان نے کہا کہ اس سوال
پر کئی مرتبہ رائے ظاہرکی جاچکی ہے لیکن ہمارا واضح موقف یہ ہے کہ سرکارکو
قانون بنانے کی ہدایت نہیں دی جاسکتی۔یکساں سول کوڈ بنیادی حق نہیں ہے۔ اس
پر اپنی حسب سہولت قانون سازی مقننہ کا کام ہے اور اس کا دائرہ اختیار۔
ابھی یونیفارم سول کوڈ کے تعلق سے دو کیس اورسپریم کورٹ میں زیرغور ہیں۔
امید کہ ان پر بھی متعلقہ بنچ کا رخ اس سہ رکنی بنچ سے مختلف نہیں
ہوگا۔عدالت یہ چاہتی تھی اس پی آئی ایل پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ صادر کیا
جائے ،مگرعرضی گزار نے عرضی واپس لینے کی گزارش کی جس کو عدالت نے منظور
کرلیا ہے ۔ اس لئے اس پر تفصیلی فیصلہ نہیں آئیگا۔
چاہے سیاسی سطح پرکتنا ہی شوراٹھتارہے، موجودہ حکومت بھی یہ واضح کرچکی ہے
کہ وہ پرسنل لاء میں مداخلت نہیں کریگی ہے۔ہمارے خیال سے اس فیصلے سے
یونیفارم سول کوڈ کا معاملہ یکسو ہوگیاہے۔ اس سلسلے میں اٹھنے والی سیاسی
چھیڑخانیوں اور عدالتوں کے بعض ریمارکس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔
کرنے کے اوربہت سے کام ہیں ان پر توجہ دی جائے۔سوچنا چاہئے کہ مسلم معاشرے
میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں، ان پرکس طرح قابو پایا جائے ۔ نکاح وطلاق،
ورثہ اوردیگرحقوق پر دین کے تقاضوں کو ان کی روح کے ساتھ کس طرح پورا کیا
جائے؟ |
|