بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سب کو حیران و پریشان کردیا

دھاندلی نہیں ہوئی ، ووٹنگ سے روکا بھی نہیں گیا تو پھر کیا ہوا تھا ؟ ڈرامہ بازی!
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ووٹ کہاں گئے ؟

پانچ دسمبر کو کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو تقریاََ تمام جماعتوں نے تسلیم کرلیا ہے ۔یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی اپنی تاریخ کے منفرد انتخابات تھے کہ اس کی مہم کے دوران اور پولنگ کے دن بھی فائرنگ کا کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا بلکہ پورے ملک کے مقابلے میں یہاں مجموعی طور پر پرامن ماحول میں انتخابی عمل مکمل ہوا ۔ چھوٹے موٹے واقعات تو پوری دنیا میں ہی انتخابی عمل کے دوران رونما ہوتے ہیں اس لیے یہاں ہونے والے ایسے واقعات قابل ذکر نہیں ہوتے۔

اہم بات یہ ہے کہ ان اتخابات میں شکست حاصل کرنے والی جماعتوں کی جانب سے غیر روایتی اور غیر متوقع طور پر دھاندلی کے الزامات بھی نہیں لگائے گئے یا نہیں لگائے جاسکے ۔ ایسا لگتا تھا کہ نتائج نے سب ہی کو حیران و پریشان کردیا ہے ۔ ۔۔جی ہاں سب ہی کو ۔۔۔کیونکہ برسوں سے انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرنے والی متحدہ کو بھی لانڈھی میں کامیابی کی امید نہیں تھی ، شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ضلع کورنگی کی سات نشستوں پر انتخابات کالعدم کرنے کا بھی مطالبہ کردیا تھا ۔ وہ تو ہمارے الیکشن کمیشن کی مہربانی ہے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے مطالبہ پر کان نہیں دھرا ورنہ متحدہ خود اپنے ہاتھوں ماری جاتی یااپنے آپ کو مشکل میں ڈال لیتی۔

انتخابات کے نتائج کے بعد بی بی سی کے وسعت اﷲ خان نے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ’’ایم کیو ایم کراچی میں جس بے دردی سے جیتی اور اس کے مخالفین جس شاندار طریقے سے ہارے اس کے بعد میرا سوال ہے کہ جب کراچی والے ترقی نہیں کرنا چاہتے تو انھیں بار بار ترقی پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے؟‘‘
وسعت اﷲ کا سوال ہی پوری قوم (یہ میں ان لوگوں کو قوم کہہ رہا ہوں جو ہجوم کی شکل میں ایم کیو ایم کی تقریبات ، جلسوں وغیرہ میں جمع ہوجاتی ہے ، میرا قوم سے ہر گز مراد اردو بوولنے والے مہاجر یا کراچی کی اکثریت سے نہیں ہے )کو آئینہ دکھانے کے مترادف بلکہ ان کے نظریے ، سوچ اور مقصد حیات کو بھی جھنجوڑ تا ہے۔ انتخابات کے نتائج نے یقینا ایم کیو ایم کو بھی مفکر کردیا ہوگا لیکن قوم کے حوالے سے نہیں بلکہ ان کی توقعات کے برعکس نتائج کے حوالے سے ، کیونکہ ایم کیو ایم تو ہر انتخاب میں جن ترکیبوں اور جس محنت سے کامیاب ہوا کرتی تھی ان کے مقابلے میں تو نہ اب وہ محنتی کارکن تھے اور نہ ہی وہ مشقت کارکنوں کی ۔

میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ تم نے کس کو ووٹ دیا ، اس نے جواب دیا کہ ’’ بھئی میں نے تو اس بار متحدہ کو صرف اس لیے ووٹ دیا کہ اس نے دو سال سے اس انداز سے کچھ بھی نہیں مانگا جس طرح وہ مانگا کرتے تھے ، رمضان میں چندہ بھی نہیں لیا ، عیدالاضحی میں قربانی کھالیں نہیں مانگی اور تو اور ان لوگوں نے عیدالاضحی اور رمضان کی طرح چندے کی پرچیاں بھی نہیں دی اور ووٹ کارڈ بھی نہیں دیے ۔ ایسی صورت میں تو ان کا حق بنتا تھا ناں‘‘۔اس نے یہ بھی کہا کہ یار اپنے شہر کے لوگ اس طرح نظرانداز کرنے لگے تو بھی ڈر لگتا ہے ناں ۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات پر ٹی وی کے تجزیہ نگاروں کی طرح میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’ ہم کو ماننا پڑے گا کہ ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے ‘‘۔

میں تو اب تک اس جملے کو ہی نہیں سمجھ سکا کہ دانشور حضرات بھر پور اعتماد کے ساتھ ایم کیو ایم کی کس بات کا ایک حقیقت سے تعبیر کرتے ہیں ۔

بہرحال یہاں ملک کے سب سے بڑے شہر کے بلدیاتی انتخابات کی بات ہورہی ہے اس لیے یہ بھی سوال کرنا ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ووٹ کہاں گئے ؟ کیونکہ سوائے چند علاقوں کے کہیں سے یہ اطلاعات موصول نہیں ہوئی کہ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے ۔ ہر پولنگ اسٹیشن سے گہما گہمی اور آزادانہ ووٹ ڈالنے کی اطلاعات موصول ہورہی تھی ۔ تاہم متحدہ کے مشہور رہنماء اور میئر کے متوقع امیدوار وسیم اختر کو ان کے اپنے حلقے کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر مخالفین نے صرف شدید نعرے بازی کرکے روک لیا تھا ، یہ نہیں معلوم چل سکا کہ وہ بحیثیت امیدوار پولنگ اسٹیشن کے اندر اپنا ووٹ ڈالنے جارہے تھے یا ڈلوانے ؟ مگر وہ پولنگ اسٹیشن میں ہی نہیں داخل ہوسکے ۔جو ٹی وی یہ منظر دکھارہا تھا اس کی اینکر نے وسیم اختر سے سوال کیا کہ آپ لوگ کہتے تھے کہ لائینز آپ کا گڑھ ہے تو آج آپ کے حمایتی کہاں چلے گئے ؟‘‘۔

اگر وسیم اختر کو پولنگ اسٹیشن کے باہر روکنے کا منظر کوئی’’ ڈرامہ‘‘ نہیں تھا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وسیم اختر کو اپنے حلقہ میں ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ سب نے دیکھا۔ حیرت ہے کہ پھر بھی وسیم اختر کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وسیم اختر کی آمد پرر نعرے بازی پر ڈرامے بازی کا شبہ ہوتا ہے اگر واقعی یہ کسی طرح کی ڈرامائی چال تھی تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ ’’ ایم کیو ایم سیاسی طور پر کئی چمپئین سیاسی جماعتوں سے بڑی جماعت ہے ‘‘۔

خیال ہے کہ ایم کیو ایم نے اس بار نئی چال کے ذریعے اپنے کارکنوں کو دوسری پارٹیوں کے جلسوں اور ریلیوں میں بھیج کر انہیں خوش فہمی میں مبتلا کیا اور اسی اعتماد سے متحدہ کے کارکن ووٹ کاسٹ کرنے بھی گئے ہونگے اور باہر نکل کر داڑھی والوں اور کلین شیو والوں کے درمیان گھل مل گئے ہونگے ممکن ہے ووٹ ڈالنے سے پہلے ان ہی کے کیمپ سے ضروری معلومات حاصل کی ہونگی۔

اب یہ سوچنے کی ضروورت نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہوگا ؟ لوگوں نے سارے الزامات ، چھاپوں اور برائیوں کی اطلاعات کے باوجود کیوں متحدہ کو ووٹ دیا ؟ شائد اس لیے کہ بہت کچھ ہوجانے بلکہ ختم ہوجانے کے باوجود متحدہ کی طرح کا اعتماد دیگر پارٹیاں نہیں لوگوں میں نہیں پیدا کرسکی ۔ وہ اعتماد یا وہ خوف ۔۔۔۔۔؟؟ بس اس بات کا جواب اب بھی درکار ہے ۔#

میئر کون ہوگا ؟
یہ بات تو اب طے ہے کہ میئر جو بھی ہوگا لیکن متحدہ سے ہی ہوگا ۔ متحدہ جس نے 1987کے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار الیکشن لڑکراوردنیا کے سب سے کم عمر(اس وقت ) میئر دے کر ایک تاریخ بھی رقم کی تھی جبکہ چار میں سے تین زونل میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمین اوروائس چیئرمین کے ناموں سے بھی حیران کردیا تھا ۔توقع ہے کہ اس بار بھی سرپرائز دیگی۔ ابھی تک متحدہ کی جانب سے میئر کے لیے جو نام آرہے ہیں ان میں وسیم اختر ، ڈاکٹر ارشد وہرہ ، ریحان ہاشمی کے نام سامنے آئے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وسیم اختر پرانے پارلیمنٹرین ہونے ، ڈاکٹر ارشدوہرہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور صنعتکار ہونے اور ریحان ہاشمی نوجوان و تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود میئر کے لیے نامزد نہیں کیے جائیں گے ۔ سب کو یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ متحدہ کے سارے فیصلے الطاف حسین ہی کرتے ہیں ۔چونکا دینے والے اعلانات کا شوق بھی ان ہی کو ہے ۔ میئر کراچی کے لیے ان دنوں یہ خبریں بھی واضح ہورہی ہیں کہ اس بار بھی میئر کم عمر ہی ہوگا اور وہ موجودہ چیئرمینوں میں سے نہیں ہوگا بلکہ ریزرو سیٹس پر کامیاب ہونے والوں میں سے ہوگا۔ یقینا ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان نام آگیا ہوگا اور وہ چھپایا جارہا ہے ۔ تاہم ایم کیو ایم کے اندرون ذرائع نے بتایا ہے کہ اس بار متحدہ اوورسیز سے نام سامنے آئے گا ۔ اس حوالے سے نمائندہ فرائیڈے اسپیشل کو مصطفیٰ عزیز آبادی ، عبادالرحمان ، قاسم علی کے ناموں کا اشارہ ملا ہے کہ ان میں سے ہی جو زیادہ خوبصورت ، کم عمر اور صلاحیت مند ہوگا وہی میئر کراچی ہوگا۔ واضح رہے کہ مصطفی عزیزآباد اور قاسم علی ایم کیو ایم شعبہ نشر و شاعت سے وابستہ ہیں آج بھی لندن میں یہ لوگ یہی امور انجام دیتے ہیں جبکہ عبادالرحمان امریکا میں مقیم ہیں مگر وہ امریکن نیشنل نہیں ہے ۔ تاہم پہلے دو نام برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔#
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152244 views I'm Journalist. .. View More