سیاسی اور جمہوری سوچ کا تقاضہ ہے کہ
مذاکرات نا کام ہو جائیں تو دوبارہ مذاکرات ہونے چاہئیں اور اگر دوبارہ بھی
مذاکرات ناکام ہو جائیں تب بھی مذاکرات ہی کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا
جانا چاہیے لیکن اگر پھر بھی مسئلہ کا کوئی حل نہ ملے تو کیا کرنا چاہیے یہ
ایک اہم سوال ہے لیکن دانے اور سیانے کہتے ہیں پھر سے مذاکرات ہی واحد
راستہ ہے کہ جس پر چل کر کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے ’’یوں تو چھوٹی ہے
ذات بکری کی۔۔۔ دل کو لگتی ہے بات بکری کی‘‘۔ خبرہے کہ پاکستان اور بھارت
کی حکومتوں نے ایک مرتبہ پھر جامع مذاکرات کی بحالی کے لئے آمادگی ظاہر کر
دی ہے جس میں مسئلہ کشمیر ، وولر بیراج، سیاچن، سرکریک اور دہشتگردی سمیت
دیگر امور پر بات چیت پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان آنے والی بھارتی وزیر خارجہ
سشما سوارج نے نہایت پر جوش اور پر مسرت انداز سے پاک بھارت جامع مذاکرات
کی بحالی کاا علان کیا۔ ان کے چہرے اور الفاظ کی خوشی دیدنی تھی دوسری طرف
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے
بھی مذاکرات کی بحالی کو بڑی سیاسی کامیابی قرار دیا۔اطلاعات ہیں کہ دونوں
ممالک کے خارجہ سیکریٹریوں کو مذاکرات کا شیڈول اور طریقہ طے کرنے کی ہدایت
کر دی گئی ہے۔ ادھر امریکہ بہادر نے بھی پاک بھارت جامع مذاکرات شروع ہونے
کی خبر کو خو ش آئند قرار دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی بیشتر
حکومتیں صرف اس بات ہی کو بڑا کریڈٹ سمجھتی ہیں کہ ان کی حکومت بھارت سے
مذکرات شروع کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ہماری حکومتیں اسے اپنی بڑی سیاسی
کامیابی قرار دیتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی
یہ تاریخ رہی ہے کہ مذاکرات جب بھی شروع ہوتے ہیں تو اس سے قبل بڑی بڑی
خبریں اور تبصرے اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتے ہیں لیکن مذاکرات جیسے ہی
شروع ہوتے ہیں تو کچھ عرصے تک مذاکرات میں پیشرفت کے حوالے سے ہلکی پھلکی
خبریں آتی رہتی ہیں۔ پھر مذاکرات کے دو تین دور ہو بھی جاتے ہیں جس میں چھ
آٹھ مہینے گزر جاتے ہیں تاہم اس کے بعد یا تو مذاکرات کے دوران اختلافات
شدت اختیار کر جاتے ہیں یا پھر کوئی ایسا واقعہ رو نما ہو جاتا ہے یا کروا
دیا جاتا ہے کہ جس کے نتیجے میں مذاکرات غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر
دیئے جاتے ہیں یا پھر سرے سے مذاکرات ختم ہی کر دیئے جاتے ہیں۔دونوں ممالک
کے درمیان ’’کور ایشو‘‘ مسئلہ کشمیر ہے اور بھارت کشمیر کو آج بھی اپنا
اٹوٹ انگ کہتا ہے جس کے لئے اس نے سر ڈھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ بھارت ہر
حال میں کشمیر کو اپنا حصہ رکھنا چاہتا ہے اور اپنے موقف سے ایک انچ بھی
پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ کشمیر ایشو پر بھارتی موقف کچھ اس طرح ہے کہ
ــ ــ ’’ اس شرط پہ کھیلوں کی صنم پیار کی بازی۔۔۔۔۔۔۔ جیتی تو تجھے پاؤں
ہاری تو پیا تیری ‘‘۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی ایک طبقہ کشمیر کوپاکستان
کی شہ رگ قرار دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اپنے اپنے موقف پر جمے رہنے کی بعد کسی
بھی قسم کے مذاکرات سے کیا فرق پڑنا ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلنا ہے۔
بھارت اپنے اوپر سے عالمی دباؤ ختم کرنے کے لئے مذاکرات شروع کرتا ہے اور
نہات چالاکی سے کوئی بھی بڑی وجہ تلاش کر کے مذاکرات سے باہر آ جاتا ہے۔
گویا بھارت شروع ہی سے مذاکرات کوختم کرنے کے لئے مذاکرات کو’’تاخیری حربہ
‘‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے بھارت نے ایک نیا ٹرینڈ
اپنایا ہے اور اس کا پاکستان میں دہشتگردی اور دہشتگرد ختم کرنے کے حوالے
سے بہت زور ہے۔بھارت نے ممبئی حملوں، بھارتی پارلیمنٹ ہاؤس پر حملوں اور
سیاچن کے معاملے کو مذاکرات کے ختم کرنے اور بعد ازاں ان حملوں کو مذاکرات
شروع کرنے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ حملے آج بھی پاکستان
کے خلاف بھارت کے بڑے ہتھیار ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیری مجاہدین اور حریت
پسند تحریکوں کو بھی بھارت ’’پاکستان اسپانسرڈ‘‘ سمجھتا ہے ۔جب بھی بھارتی
حکومت پر اپنے تاجروں ، صنعتکاروں اور کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے اس دباؤ
میں اضافہ ہوتا ہے کہ پاکستان سے تجارت ان کے حق میں ہے اور پاکستان سے
تجارت نہ کرنا گھاٹے کا سودا ہے تو بھارتی حکومت یہ کہہ کر مذاکرات شروع
کرتی ہے کہ تجارت کو سیاست سے بالاتر رکھا جائے پاکستان بھی بھارت کو
’’موسٹ فیوریٹ نیشن ‘‘ کا درجہ دے۔ یاد رہے کہ بھارت پہلے کی تجارت کے لئے
پاکستان کو ’’موسٹ فیوریٹ نیشن ‘‘ کا درجہ دے چکا ہے ۔بھارت نہایت خوب
صورتی سے وقت گزار رہا ہے کہ اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے اس نے دنیا کے
بیشتر ممالک کے سامنے اپنا یہ موقف منوا لیا ہے کہ کشمیر بھارت کا ہی حصہ
ہے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں محض عجلت کا نتیجہ ہیں۔ کشمیر
میں بھارتی فوج کا غیر انسانی سلوک دنیا کی نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود
کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی جسے دیکھ کر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بھارت
اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہے۔ دوسری طرف بھارت پاکستان سے جنگ بھی نہیں
کرنا چاہتا لیکن جنگ جیسے حالات رکھنا چاہتا ہے تاکہ کشمیر کے مسئلے کے حل
کی بات نہ کی جا سکے۔ کشمیر کے لئے مودی سرکار کا ہزاروں ارب روپے کا
ترقیاتی پیکج اس بات کی دلیل ہے بھارت کشمیر کے مسئلے کے حل اور اس حوالے
سے ہونے والے مذاکرات کو تاخیری حربے کے طور پراستعمال کر کے مسئلے کو تعطل
کا شکار کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف کشمیر کے لئے ہزاروں ارب روپے کا
ترقیاتی پیکج دے کر کشمیریوں کے اعصاب کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ
بھارتی حکومت کی اس پیکج کا مقصدکشمیریوں کو تقسیم کرنا اور کشمیر کی آزادی
کی تحریک کو کمزور کرنا ہے۔ایسی صورت حال میں مذاکرات سے کسی نتیجے کی توقع
کرناغیر دانشمندانہ سوچ ہو گی تاہم دانشمندی یہ ہی ہے کہ کسی بھی بہتری کی
امید بھی مذاکرات ہی سے لگائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے یہ وقت اور حالات
قطعئی غیر مناسب ہیں۔ |