پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 15
اکتوبر کو سفید چھڑی کا عالمی دن منا یا جاتا ہے، 1930میں فرانس کے شہر
پیرس میں عام لاٹھیوں کو سفید رنگ دے کر متعارف کرانے کی روایت ڈالی گئی
تھی اور 15 اکتوبر 1965 سے عالمی علامتی دن کے طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر
میں باضابطہ طور پر شامل کیا گیا۔
پاکستان میں یہ دن پہلی بار15اکتوبر 1972 کو منایا گیا، سفید چھڑی تو
نابینا افراد کو چلنے پھرنے میں تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم سفرزیست کیلئے
تعلیم،روزگار،صحت اور آبادی کے قابل غور و فکر فوری توجہ طلب مسائل ہیں۔
آج دنیا بھر میں بینائی کا عالمی دن منایا جارہا ہے ،اس دن کو منانے کا
مقصد بصارت سے محروم افراد کیساتھ اظہار یکجہتی کے علاوہ بینائی ا و ر
محرومی سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور لوگوں میں شعور بیدار
کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً 90 فیصد نابینا افراد کا تعلق کم آمدنی
کے حامل ممالک سے ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 80فیصد نابینائی بیماریاں قابل
علاج ہو تی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک بالغ
شخص جبکہ ہر ایک منٹ میں ایک بچہ بصارت سے محروم ہو جاتا ہے ۔بصارت سے
محروم افراد کی تعداد میں سالانہ 70 لاکھ اضافہ ہو رہا ہے، عالمی ادارہ کے
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 18کروڑ افراد بصارت کے کسی نہ
کسی نقص میں مبتلا ہیں جن میں سے ساڑھے چار کروڑ کے درمیان مکمل طور پر
بصارت سے محروم ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 2سو پچاسی ملین افراد
نظر کی کمزوری اور نابینا پن کا شکار ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی
تعداد شامل ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد توبہت سے لوگوں کو معلوم ہو گا مگر مجھے یہ بات
سمجھ نہیں آرہی کہ ہم اظہارِ ہمدردی کر کیوں رہے ہیں،ہمدردی تو وہاں کی
جاتی ہے جہاں کوئی معذور یا مجبورہو ۔میرے نزدیک اُن کو معذور کہنا بھی
ہماری علمی معذوری ہے کیوں کہ وہ ہم جیسے لوگوں سے ہزار گنا بہتر ہیں۔ جن
کے پاس تمام اعضائے رئیسہ پورے ہونے کے بعد بھی مجبور اور بے سارا بنتے
ہیں، میرے حلقہ احباب میں چند ایسے لوگ بھی ہیں جو پیدائشی نابینا ہیں،مگر
ان کی معذوری اُن کا فن بن چکی ہے ،میں ایسے چند دوستوں کی قابلیت آپ کی
نظر کرتا ہوں ۔
میرے ایک دوست علی خان ترین جو کراچی میں رہتے ہیں Mass Communication کرنے
کے بعد انٹرنیٹ پر اپنا ریڈیو چلا ّ رہے ہیں،جس کا نام ہے’’ ریڈیو سب کا
ساتھ‘‘،ان کے ساتھ سلیمان خالد ،عدیل راجہ،فضا حسین ،ماریہ دُ ر انی اور
دیگر لوگ بھی شامل ہیں جو بصارت سے محروم ہیں مگر یہ سب لوگ آواز کی دنیا
کے جادوگر ہیں اوراب میں بھی اس ریڈیو کا حصّہ ہوں۔
اس سے قبل محمد فرقان بھی اسی ریڈیو سے منسلک تھے ،مگر پی ٹی وی میں جاب
ملنے کی وجہ سے وہ اس ریڈیو کو خیر آباد کہ گئے وہ اب بھی پی ٹی وی میں آئی
ٹی کو ڈیل کر رہے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد اسد محمود اور ناصر محمو دبھی ہیں
دونوں پہلے آواز کی دنیا میں اپنا نام پیدا کر رہے تھے مگر وہ اب اس سے بھی
بڑھ کر اپنے دم پر ایک این جی اوچلا رہے ہیں جس کا نام ہے’’ڈریم‘‘ میرے
حلقہ احباب میں ایسے درجنوں افراد اور بھی ہیں تمام کا ذکر ایک کالم میں
کرنا مشکل ہے،اس پر طویل گفتگو ہم اپنے شو میں کر چکے ہیں ۔ تمام پڑھنے
والوں کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف بصارت سے محروم افراد اپنی زندگی
کو بھرپور بنانے کی کاوش میں لگے ہوئے ہیں ، وہ نہ ہی چارہ گر سے کوئی شکوہ
کرتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ ایوانوں تک رسائی کے خواہش مند ہیں ،مگر دوسری
جانب صحیح سلامت شخص کو دیکھا جائے تو وہ اشارے پر بھیگ مانگتا دکھائی دیتا
ہے ۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔۔۔۔۔شائد غالب ؔنے آج کہ تندرست بھکاریوں کیلئے ہی
اس شعر کو بہت سلیقے سے کہا تھا اکثر آپ نے دیکھا ہو گاکہ آج کل کے نو جوان
سارا دن گھر میں گزار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں جاب نہیں ملتی ،مسائل
زیادہ اور وسائل کم کے وہی قصّے کہانیاں ہر ایک کے آگے ایسے ہی بیان کرتے
ہیں کہ جیسے کام جوان کی موت ہو ۔ دراصل وہ کام کی تلاش اُس نگاہ سے نہیں
کرتے جو ایک بصارت سے محروم افراد اپنی قلب ِ بینا سے تلاش کر تا ہے اگر وہ
کرتے تو آج ملک پاکستان میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو ہی جاتا۔
اگر ہم بات کر یں خلوص ،احترام اور دوسروں کی مدد کی تو شاید ہمارا نام کسی
بھی ایسی فہرست میں شامل نہیں ہوگا جس میں یہ تمام الفاظ شامل ہو ں کیوں کہ
ہم اخلاقی طور پر اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ اب دائرہ اخلاق میں چلنا ہمارے
لیے محال ہو چکا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھربصارت سے محروم افراد کیوں
تنہا سٹرک پار کرتا ہے ۔! کیوں ان کیلئے گاڑیاں رک نہیں جاتی ۔!کیوں وہ
حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔!کیوں اُن پر طنزومزاح کی باتیں ہجوم میں ہوتی ہیں
۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اخلاقی طور پر کمزور
نہیں ۔
آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ آنکھیں قدرت کا انمول تحفہ ہیں قوتِ بینائی سے
محروم افراد کیساتھ اچھی طرح پیش آئیں ،ان سے پیار سے بات کریں کیوں کہ یہ
بہت حساس ہوتے ہیں کہیں آپ کی زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ ان کی دل آزاری
کا سبب نہ بن جائیں ۔کوشش یہ کریں کہ جہاں بھی ایسے افراد نظر آئیں جو کسی
بھی طرح سے معذور ہو ں تو اُن کی مدد کریں تاکہ بہت جلد ہم اس دن کو حقیقی
طور پر
’’ اظہارِ یکجہتی‘‘کے طورپرپاکستان میں بنا سکیں ۔
|