ایک اور ہسپتال کی ضرورت ہے

ایک اُستاد نے1 کا ہندسہ لکھ کر اُس کے آگے 7 صفر لکھے اور سوال کیاکہ یہ کتنی رقم بنتی ہے تو شاگردوں نے فوراًکہا کہ ایک کروڑ روپے ۔ پھر اُستاد نے جب 1کا ہندسہ ڈسٹر سے صاف کر دیا تو شاگرد بولے کہ اب صرف 7 صفر ہی رہ گئے ہیں جنکی اکیلے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بس اس پر اُستاد نے فرمایا کہ وہ یہی ثابت کرنا چاہتے تھے کہ 1کا ہندسہ انسان کی صحت ہے اور اُس ہی سے کمائی کا بھی مزہ ہے بصورتِ دیگر صحت ہی نہ ہو تو باقی سب کچھ اُسکے لیئے صفر ہو جاتا ہے۔

ایک اور ہسپتال کی ضرورت ہے

 انسان کی اولین ترجیع صحت ہے اور اسکے مقابل دُنیا کی کوئی بھی شے نہیں ۔ اس ہی لیئے کہا جاتا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔لہذا جسم کے کسی بھی حصے میں ہلکی سی در د زندگی کو بدمزاح کر دیتی ہے۔

اُستاد کی صحت کے بارے میں مثال:
ایک اُستاد نے1 کا ہندسہ لکھ کر اُس کے آگے 7 صفر لکھے اور سوال کیاکہ یہ کتنی رقم بنتی ہے تو شاگردوں نے فوراًکہا کہ ایک کروڑ روپے ۔ پھر اُستاد نے جب 1کا ہندسہ ڈسٹر سے صاف کر دیا تو شاگرد بولے کہ اب صرف 7 صفر ہی رہ گئے ہیں جنکی اکیلے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بس اس پر اُستاد نے فرمایا کہ وہ یہی ثابت کرنا چاہتے تھے کہ 1کا ہندسہ انسان کی صحت ہے اور اُس ہی سے کمائی کا بھی مزہ ہے بصورتِ دیگر صحت ہی نہ ہو تو باقی سب کچھ اُسکے لیئے صفر ہو جاتا ہے۔

2014ء میں اگر ہمارے ملک میں سب سے زیادہ خوفناک خبریں سامنے آئی ہونگی تو سب اس سے اتفاق کریں گے کہ وہ بچوں کی اموات کی تھیں۔ بلکہ 2015ء میں بھی ایسی خبروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک گھر کی سب سے بڑی خواہش اولاد ہوتی ہے۔اُس ہی کی زندگی سے دُنیا کی رونقیں وابستہ ہیں ۔جن کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوتا یا کسی کے ہاں لڑکا یا کسی کے ہاں خواہش کے مطابق لڑکی پیدا نہیں ہوتی تو اُن سے پوچھا جائے ۔ کیونکہ جن الفاظ میں وہ اپنے اس دُکھ کو بیان کریں گے ویسا کوئی دوسرا سوچ بھی نہیں سکتا۔

ایک مختصر واقعہ اوراہم نکات :
چند روز پہلے ایک پٹھان ولی داد خان کا بڑا بیٹا عبدالقیوم رات بھر پیٹ کے درد میں چلاتا رہا ۔صبح بچوں کے ہسپتال لیکر گئے تو وہاں پہلے ہی بیمار بچوں کا اتنا رش تھا کہ ایک ایک بستر پر تین تین بچے لیٹے ہوئے تھے اور اُنکے مقابلے میں میڈیکل سٹاف کی تعداد انتہائی کم۔ ہر کوئی جلدی میں بھی تھااور خواہش رکھتا تھا کہ اُسکے بچے کو پہلے دیکھا جائے۔لہذا اپنے جاننے والوں کو موبائل سے فون کر کے کہہ رہ تھے کہ اس ہسپتال میں کوئی سفارش ڈھونڈیں۔بہرحال ان حالات میں خان صاحب کے بھائی اکبر خان بھی درمیان میں کودے اور گزرتی ایک لیڈی ڈاکٹر سے درخواست کی کہ برائے مہربائی اُنکے بچے کو دیکھ لیں ۔ صبح سے ہم آئے ہوئے ہیں لیکن اُسکی تکلیف کم ہونے کو نہیں۔ لیڈی ڈاکٹر نے اس پر توجہ دیتے ہوئے بچے کا معائنہ کیا اور درد کی دوائی دے کر گھر بھیج دیا۔

جب شام گئے تک بچے کو افاقہ نہ ہوا تو پھر اُس ہی ہسپتال لیکر گئے اور ایمرجنسی میں خان صاحب نے حاضر ڈیوٹی ڈاکٹر سے رابطہ کیا ۔ اُس نے بچے کے پاس جاکر انتہائی توجہ سے چیک اَپ کرنے کے بعد سٹاف نرس کو کچھ ہدایات دیں اور جلدی سے کچھ ٹیسٹ کروانے کیلئے کہا۔ اُن ٹیسٹ کی رپورٹ آتے ہی ڈاکٹر نے اُن کو خبر دی کہ بچے کو " اَپینڈیکس" کی درد ہو رہی ہے اور اس وقت رات ہوچکی ہے ۔لہذا صبح ہوتے ہی آپریشن کرنا پڑے گا بصورتِ دیگر مریض کی حالت بگڑ سکتی ہے۔ وہ رات بچے کے والدین نے کس کر ب سے گُزاری یہ وہی جانتے ہیں۔بہرحال صبح کامیاب آپریشن کیا گیا اور بچے کی جان بچ گئی۔ لیکن اہم نکات غور طلب یہ رہے کہ: بچوں کا ایک ہی ہسپتال اور رش بہت زیادہ،ڈاکٹروں کی کمی اور تعلقات والوں تک اُنکی جلدی رسائی۔یہی جلدی ڈاکٹروں کیلئے پریشانی کا باعث اور مریضوں کی بیماری کی تشخیص میں مشکل۔رات گئے سپیشلسٹ ڈاکٹروں تک رسائی مشکل اور آپریشن تھیٹر بند۔

بس ایک مرض کا ایک خصوصی ہسپتال :
بڑا شہر اور ایک بڑا ہسپتال۔ حکومتِ وقت کی طرف سے وہ بھی بچوں کیلئے مخصوص۔ بڑے شہر میں ایک ہی بڑا ہسپتال جو گورنمنٹ کی طرف سے دِل کے مریضوں کیلئے مخصوص ۔کینسر و دوسرے امراض کیلئے کسی بھی حکومتِ وقت کی طرف سے وہی چند مخصوص ہسپتال جو کسی نے ماضی میں بنوا دیئے تھے کہ غریب و کم آمدنی والے مریض وہاں سے اپنا علاج کروا کر صحت یاب ہو سکیں۔جبکہ اس دوران گزشتہ تین دہائیوں میں پرائیویٹ ہسپتالوں کا قیام ۔تما م قسم کی جدید میڈیکل سہولیت میسر،اعلیٰ ترین ڈاکٹروں کی کے زیرِ سایہ مریض کا علاج، بہترین انتظامیہ کی وجہ سے ماحول خوشگوار ۔فرق" پیسہ"۔

پیسہ:
ہائے! کہاں سے لائے یہ "پیسہ" قرضوں میں پھنسی ہوئی عوام۔آمدنی کم ۔مہینے کے آخر میں بمشکل ایک دوسرے سے پیسے پکڑ کر گھر کے اخراجات پورے کرنے والی عوام،حکومتی اداروں کی طرف سے زائد بلوں کو ادا کرنے والی عوام،بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ستائی ہوئی اور یو پی ایس و بیٹریں خریدنے کیلئے ہر سال ایک الگ رقم کا انتظام کرنے کی فکر کرنے والی عوام تو ویسے ہی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اِن حالات میں ہم کہاں جائیں کہ اُوپر سے ملک بھر میں طبعی سہولیت میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کو کھو دینے کا ڈر۔ بلکہ کھو بھی رہے ہیں۔اوہ! اب تو ایک ہی راستہ ہے کہ علاج کیلئے پرائیویٹ ہسپتال کا رُخ کیا جائے۔کیونکہ گورنمنٹ کے زیرِ سایہ ہسپتالوں میں آبادی کے حساب سے کم گنجائش ہے۔

ایک اور ہسپتال کی ضرورت ہے:
ان حالات میں اگر غور کیا جائے تو معاملہ صرف یہ ہے کہ جب بھی کوئی اپنے پیارے کو بیماری کی تکلیف میں گورنمنٹ کے ہسپتال میں لیکر جا تا ہے اور وہاں پر پہلے ہی مریضوں کا رش اور میڈیکل عملے کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ یہ کہے بغیر نہیں رہتا کہ اسطرح کے "ایک اور ہسپتال کی ضرروت ہے"۔حالانکہ ایک نہیں کئی ہسپتالوں، بہترین میڈیکل سٹاف،صاف ستھرے اور بیماریوں سے پاک ماحول کی ضرورت ہے۔کیونکہ ایسی صورتِ حال بھی عام دیکھنے کو ملتی ہے کہ اگر کسی مریض کو ہسپتال کی ایمرجنسی میں لیکر چلے جائیں تو وہاں پر اُسکو اُس بستر پر لیٹنے کیلئے کہا جاتا ہے جس پر سے شاید چند لمحے پہلے ہی کوئی ایسا مریض اُٹھ کر گیا ہو تا ہے جسکا خون اُس بستر کی چادر پر لگا ہو ا ہوتا ہے اور وہاں ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے کوئی اُس چادر کو تبدیل کرنے والا موجود نہیں ہوتا۔ خصوصاً سہ پہر کے بعد۔

علاج کیلئے فوراًرقم جمع کروانے پر زور:
یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ دل کے مریض کی انجیوگرافی کی فیس کم و بیش 25,000ہزار روپے ہے اور اس میں ثابت ہوجائے کہ مریض کو دل میں ایک یا دو " سٹینٹ" ) ایک مصنوعی نلکی جو خون کا بہاؤ جاری رکھتی ہے)ڈالے جائیں گے تو اُنکی کُل مالیت کم و بیش 4لاکھ بنتی ہے۔رش کی وجہ سے جن مریضوں کی باری سہ پہر کے بعد آنا شروع ہوتی ہے اگر اُن میں سے کسی کو یہ "سٹینٹ"ڈالنے کی ضرورت سامنے آجاتی ہے تو متعلقہ سٹاف مریض کے رشتے داروں کو بُلا کر کہتا ہے کہ فوراً کُل قیمت کی ادائیگی کی جائے بصورتِ دیگر اگر آج رقم جمع نہ ہو سکی تو کل دوبارہ انجیو گرافی کی جائے گی اور دوبارہ مکمل فیس بھی لی جائے گی اور "سٹینٹ" کی قیمت الگ۔

وہ لمحات کسی ظالم کی تلوار کی کاٹ سے کم نہیں ہوتے کیونکہ اتنی رقم نقد رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور بنک بند ہوچکے ہوتے ہیں اور اپنا پیارا بستر پربے بس پڑ اہوتا ہے۔دوسری طرف وہ رشتے دار جنکے کے پاس اتنی بڑی رقم موجود ہی نہیں ہو تی اوراُوپر سے 25,000ہزار روپے کا دوبارہ بوجھ۔کہاں جائیں؟ یہ معاملہ دوسری بیماریوں سے بھی ایسے ہی منسلک ہے۔

ہم انسان ہیں :
آج ہم قلم سے تحریر بھی کر رہے ہیں اور چھاپ بھی رہے ہیں اور کل ہم بھی وہاں ہی ہونگے جہاں کی آج ہم صورتِ حال پیش کر رہے ہیں۔کیا ہماری یہ جدوجہد حکومتِ وقت کو نہیں بلکہ ملک کے اداروں کی انتظامیہ کو جاگا نہیں سکتی کہ" ہم انسان ہیں۔ہمارا علاج بھی انسانوں کی طرح کرو"۔ حکومتی سطح پر ملک کے ہر شہر میں "ایک ہسپتال "بہترین سہولتوں کے ساتھ عوام کیلئے بنوا دو اور بڑے شہروں میں جہاں آبادی بہت بڑھ چکی ہے زیادہ سے زیادہ اپنی نگرانی میں ہسپتال قائم کروا دو۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 312776 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More