2 سال پہلے کا واقعہ ہے کہ
مردان شہر کے ایک گاؤں کیچی آباد کاٹلنگ روڈ غلامو مشین کا ایک نوجوان
پٹھان لڑکا انور علی عُرف "بالی" ولد اصل خان اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے
گاؤں سے کچھ فاصلے پر مسجد میں نماز پڑھنے گیا۔واپسی پر جو راستہ منتخب کیا
وہ پہاڑی ٹیلوں کا وہ سلسلہ تھا جسکے نیچے سے مختلف پہاڑوں سے آنے والے
پانی کا دریا گزرتا تھا اور پہاڑوں سے کچھ اُونچائی پر"بجلی کی ہائی ٹینشن
تاریں" گزر رہی تھیں۔گو کہ وہ راستہ عام عوام کے گزرنے کیلئے ممنوع تھالیکن
پھر بھی وہاں کے مکین اُس کو چھوٹا سمجھتے ہوئے تاروں کے نیچے سے جُھک کر
گزر جاتے تھے جو کہ ایک خطرناک عمل تھا۔ بالی اور اُس کے دوست بھی یہ جانتے
تھے لیکن اِس کے باوجود وہ شرط لگا کر ایک خطرناک کھیل کھیلنے کا پروگرام
بنانا شروع ہوگئے۔
کھلاڑی تھا بالی ۔جسکو باقی دوست کہہ رہے تھے کہ تم ان" ہائی ٹینشن تاروں"
کو ہاتھوں سے پکڑ نہیں سکتے۔بالی بھی اس حقیقت کو جانتا تھا لیکن وہ ذہنی
طور پرکوئی غیر معمولی حرکت کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور وہ یہ بھول گیا
تھا کہ 6دن بعد اُسکی اپنے ہی خاندان میں شادی ہے۔
بالی نے جذباتی انداز میں چھلانگ لگاکر ایک تار پکڑ لی اور جب اُسکو کچھ نہ
ہوا تو اب تھا "بالی کا غلط فیصلہ "کہ اُس نے اُوپر کو ہوتے ہوئے دوسرا
ہاتھ دوسری تار پر ڈال دیا۔ بس پھر بالی کے مطابق وہ اس دُنیا میں نہیں
تھا۔
بالی کے دوستوں ا ور وہاں قریب سے گزرنے والے افراد کے مطابق جب بالی نے
دوسری تار پر ہاتھ ڈالا تو ایک بہت زور کا دھماکہ ہوا اور بالی کو اتنا
شدید کرنٹ کا جھٹکا لگا کہ وہ دُور جاگرا۔بالی زمین پر پڑا تھا اور کوئی
اُس کو" زندہ اور کوئی مردہ "کہہ رہا تھا کہ پاس کھڑے ایک "سمجھ دار شخص"
نے سب کو مشورہ دیا کہ کچھ دیر پہلے جو بارش ہوئی ہے اُسکی وجہ سے مٹی نرم
ہو چکی ہے ۔لہذا اگر ہم سب ہمت کر کے مٹی کا ایک گڑھا کھود لیں اوراس لڑکے
کا جسم اُس میں دبا دیں اور سر باہر رکھیں تو کہتے ہیں کہ مٹی کی ٹھنڈک سے
کرنٹ کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
بالی اُس وقت کن اندھروں میں تھا اسکے متعلق ایک تحقیقی مضمون "کرسٹو فر
ہوٹن" کا"دی اِنڈی پینڈنٹ" میں25ِفروری2015ء کوشائع ہوا جس میں ایک ایسا ہی
شخص تھا تو زندگی میں دو دفعہ موت کے مُنہ میں جا کر واپس آیا تھا۔ایک دفعہ
موٹر سائیکل حادثے سے اور دوسری دفعہ نیند آور گولیاں کھانے سے۔اُس کے ساتھ
جب یہ سوال کیا گیا کہ ان دونوں صورتوں میں وہ جب ایسی بے ہوشی میں رہا جب
سب سمجھ رہے تھے کہ وہ مر گیا ہے یا مرنے والا ہے تو اُس نے کیا محسوس کیا
؟اُس نے جواب دیا پہلا حادثہ ہوش میں ہوا اور دوسرا بذاتِ خود کا عمل تھا
لیکن دونوں صورتوں میں صرف اندھیرے ہی اندھرے تھے۔بلکہ ہوش آنے کے بعد اس
سے زیادہ محسوس نہیں ہو ا کہ ایک لمبی نیند سے جا گا ہوں۔ہاں اگلے لمحوں
میں بیماری و زخموں کی تکلیف قابلِ برداشت نہیں تھی۔ لہذا جس سوال کا جواب
آپ تلاش کرنا چاہتے ہیں یعنی "موت"وہ ایک دفعہ آتی ہے اور پھر اُسکے
احساسات بیان کرنے کیلئے روح نہیں ہوتی۔
جبکہ دوسری طرف یہ بھی غور طلب ہے جب ایک معروف امریکی نیورو سرجن" ا یبن
الیگزینڈر "نے ایک بیمار ی کا شکار ہونے کی وجہ سے 7دن بے ہوشی میں گزارے
اور بعدازاں صحت یابی اُنھوں نے اپنی کتاب "پروف آف ہیون" میں اپنی بے ہوشی
کا ذکر کچھ ا سطرح کیا کہ وہ اُن اندھیروں میں ایک ایسی روشنی کی کرن دیکھ
پائے "جس کا وجود اس جہاں میں نہیں "ہے۔بلکہ اُس روشنی میں اُنکی کی
"ملاقات ایک فرشتے سے بھی ہوئی "جو اُنھیں ایک ایسے مقام پر لے گیا جسکا
اُنھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔اس تجربے نے میرا موت کے بعد کی زندگی پر
یقین مزید پُختہ کر دیا۔
بہرحال سب نے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اگلے چند منٹوں میں گڑھا کھود کر بالی
کو گردن تک اُس میں ڈال کر گڑھے کو مٹی سے بھر دیا۔ساتھ میں دُعا کرنے
لگے۔اس دوران موبائل پر فون کرنے سے ایمبولینس بھی آچکی تھی۔آنکھ کُھل گئی
اور غیر یقینی کا عالم ختم ہوا سب نے آواز لگائی "بالی زندہ "ہے۔اگلے چند
منٹوں بعد بالی مردان شہر کے سرکاری ہسپتال میں زیرِ علاج تھا۔
بالی کووہاں کچھ ہوش آیا تو وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے یہاں کون لایا ہے؟ میں
توگھر پر تھا۔۔میرا دل بیٹھ رہا ہے۔بہت گھبراہٹ ہے ۔گھر والے پہنچ چکے تھے
اور ماں دُعائیں کر رہی تھی کہ بیٹے کی زندگی بچ جائے۔اُسکے ہاتھ پاؤں کے
کچھ حصوں کی جلد جل چکی تھی اورزخموں سے خون رِس رہا تھا۔بعدازاں اُسکے
دائیں بازو کی نبض کے ساتھ والی رَگ سے اچانک تیز خون نکلنا شروع ہو گیا۔
سب گھبرا گئے۔ ڈاکٹر وں نے فوراًچھوٹا سا آپریشن کر کے وہاں ٹانکے لگا دیئے
اور اب اگلا مراحلہ تھا اُسکے زخموں کا علاج و خون کی جسم میں حسبِ معمول
بحالی۔
اُ س وقت کے(سی ایم ایچ پشاور) کے ڈاکٹرز کے مطابق بالی کو بہت وقت پر
ہسپتال لایا گیا تھا بصورتِ دیگر دائیں بازو کو کندھے سے کاٹنا پڑ سکتا
تھا۔بہرحال وہاں کے قابل سرجن ڈاکٹر ز نے اُسکی سرجری کی ۔یعنی دائیں ٹانگ
کے اوپر کے حصے کی کچھ جلد اُتار کر اور دائیں بازو سے کچھ جلد لیکر اُن
تمام زخموں پر لگا دی ۔آپریشن کامیاب رہا اور وہاں پر موجود افراد کیلئے
ڈاکٹرز کی تعریف کیلئے الفاظ نہیں تھے۔سب اُنکو دُعائیں دے رہے تھے۔
بالی کی جب کچھ حالت سنبھلی تو اُس سے بھی کچھ ایسے ہی سوال کیئے گئے کہ تم
نے کرنٹ لگنے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں کیا محسوس کیاتو اُسکاکا جواب
پہلے شخص سے ملتا تھا کہ" وہ ایک ایسے اندھیرے میں تھا جس میں کوئی تکلیف
محسوس نہیں ہوئی تھی "لیکن ہوش آنے کے بعد جو تکالیف سامنے آئیں اُن کا
گمان بھی نہیں تھا۔لہذا سوال یہی رہا کہ وہ" بے ہوشی کے اندھیرے تھے یا موت
سے واپسی" ؟
بالی چند ماہ بعد صحت یاب ہو گیا۔لیکن اُسکے جسم پر آج بھی اُن ٹانکوں و
چپکی ہوئی جلد کے واضح نشان ہیں جو اُسکو اُس حادثے کی یاد دلواتے رہتے
ہیں۔ بلکہ اُسکے دائیں ہاتھ کی طاقت بھی کم ہو چکی ہے ۔ |