اور پاکستان ٹوٹ گیا

تاریخِ مسلمانانِ عالم روح فرسا حادثات سے اٹی پڑی ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ ہے ۔ جنگِ جمل سے ہی اِک جہانِ اِضطراب کھلتا ہے۔پھر اُس کے بعد سانحہ کربلا ۔ گیارھویں صدی میں بیت المقدس پر یہود کا قبضہ، تیرھویں صدی کے وسط میں ہلاکو خاں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی، پندرھویں صدی میں سپین سے فرڈی ننڈ اور ازابیلا کے ہاتھوں مسلمانوں کا اخراج، ہندوستان میں ٹیپو سلطان کی شہادت۔1947 ء میں ہندوستانی مسلمانوں کی ہجرت اور مشرقی پنجاب میں ٹوٹنے والی قیامت اور پھر سقوطِ مشرقی پاکستان ، کیا کیا زخم سہے اور کیا نوادرات لُٹ گئے! ------ وائے افسوس، سفر وہی ہے ، سمت وہی ہے اور برہنہ پائی بھی وہی۔

دسمبر آتا ہے تو ڈھاکہ کا سقوط ایک بار پھر آنکھوں کو سُرخ کر دیتا ہے۔ مسلمانانِ ہند کی قربانیوں کی رائیگانی خون رُلانا شروع کرتی ہے اور ماضی کے عاقبت نا اندیش نام نہاد راہنماؤں کے جہل اور طمع کی داستانیں حال کے قصّہ گو کی زبان کو قفل لگا دیتی ہیں۔

دسمبرکا مہینہ ، 16 دسمبر 1971 ء کی منحوس یادوں کو بھی تازہ کردیتا ہے۔ جب دُنیائے اسلام کی سب سے بڑی ریاست پاکستان کے مسلمان کمانڈر امیر عبداﷲ خاں نیازی نے ایک جابر اور دہشت گرد ریاست کے در انداز کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے آگے گُھٹنے ٹیک دیے۔ 90 ہزار کی ایک بڑی فوج کو نہایت ہزیمت کے ساتھ بھارت کا قیدی بنا دیا گیا۔ چودہ صدیوں پر محیط مسلم قوم کے عروج و زوال میں اِس طرح کی سُرخ دہکتی شرمندگی کبھی مقدر نہ بنی تھی ۔ توہین اور ذلت کے ایسے آتش فشاں سے کبھی گزرنا نہ پڑا تھا۔

16 دسمبر 1971 ء کے سانحہ کی بڑی وجہ شیخ مجیب الرحمن جیسے غدار ِ وطن کا ناپاک وجود تھا۔ وہ ایک میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرنے کے لیے موزوں ترین شخص تھا۔ ہندو قوم جس نے ابھی تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا ، روزِ اوّل سے ہی پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔ 1962ء میں جب پاکستان میں مارشل لاء نافذ تھا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی ، پاکستان توڑنے کے لیے بھارتی حکومت نے مشرقی پاکستان میں تین لوگوں سے رابطہ کیا جن میں محمود علی صاحب (ازاں بعد وزیرِ مملکت پاکستان) ، مولوی تمیز الدین خاں (سابق سپیکر قومی اسمبلی پاکستان) اور شیخ مجیب شامل تھے۔ پہلے دونوں بزرگوں نے پاکستان توڑنے کی سازش میں شرکت کی پیش کش کو حقارت اور نفرت سے ٹھکرا دیا لیکن مؤخر الذکر ذِلت و رُسوائی کی خرید کے لیے تیار ہو گیااور بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے سبق لینے کے لیے اگر تلہ کے مقام پر پہنچ گیا۔ (روزنامہ مشرق لاہور ۔ 8 ستمبر 1983ء ) یوں بنگالیوں اور بنگالی زبان کے حقوق کے نام نہاد علمبردار کو وطن دشمنی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مالی امداد اور اسلحہ ملنا شروع ہو گیا۔ اس طرح کل تک ٹوٹے ہوئے بٹنوں والا کرتہ اور پھٹی پرانی چپّل پہن کر لاہور میں بھکاریوں کی طرح دن گزارنے والا شیخ مجیب کروڑوں میں کھیلنے لگا (دس پھول ایک کانٹا از خواجہ افتخار) ۔ 1966 ء تک اُس کی جرأت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ جب وہ فروری 1966 ء میں چودھری محمد علی اور نواب زادہ نصراﷲ خاں کی دعوت پر ڈیموکریٹک کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آیا تواُس نے اپنے اُن رُسوائے زمانہ چھ نکات کا ایک پریس کانفرنس میں اعلان بھی کیا جو ازاں بعد بنگلہ دیش کے قیام کی خشتِ اوّل ثابت ہوئے۔

شیخ مجیب بھارتی حکومت کی طرف سے دیے گئے سرمائے اور اسلحہ کے ڈھیروں سے دہشت
گرد تنظیم مکتی باہنی کا قیام عمل میں لا چکا تھا۔ مکتی باہنی کے ذمے ایک ہی کام تھا اور وہ یہ کہ وہ ہر غیر بنگالی کو بغیر وجہ بتائے اور بغیر کچھ سُنے قتل کر دے اور یوں ہر اُس آواز کو سناٹوں میں بدل دے جو پاکستان کے مقدس نام کا ذکر بھی لائے۔ مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں خونِ مسلم کی ارزانی کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بیت المقدس میں مسلمانوں کا قتل عیسائیوں کے ہاتھوں ہوااور مشرقی پنجاب کا قتلِ عام سکھوں نے کیا ْ۔ بنگال میں بظاہر مسلمان ، مسلمان کا خون بہارہا تھا۔ اُنھوں نے پنجابیوں اور بہاریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ۔ اُن کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے یا اُنھیں زندہ جلا دیا گیا۔ ایسا کرنے میں مرد ، عورت اور بچّوں کی کوئی تفریق روا نہ رکھی گئی۔ میمن سنگھ میں ایک غیر بنگالی پوسٹ ماسٹر نے صحافیوں کو اپنے جسم پر چُھروں سے لگائے گئے زخم دکھاتے ہوئے بتایا کہ وہ بنگالی بلوائیوں کے قتلِ عام کا نشانہ بننے والے پانچ ہزار غیر بنگالیوں میں سے بچ رہنے والے 25 افراد میں سے ایک ہے ۔ ( پاکستان کیوں ٹوٹا از صفدر محمود صفحہ نمبر 135 ) ۔ انتھونی ماسکارنہاس کے مطابق ہلاک کیے جانے والے غیر بنگالیوں کی تعداد ایک لاکھ ہو سکتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کئی مقامات پر خواتین کو ہلاک کرنے سے پہلے اُن کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں۔ چٹاگانگ میں ملٹری اکیڈمی کے کرنل کمانڈنٹ کو ہلاک کر دیا گیا اور اُس کی آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی کی آبرو ریزی کے بعد پیٹ میں چھرا گھونپ کر اُس کے بیٹے کا سر اُس کے ننگے بدن پر رکھ دیا گیا۔ یوں بھی ہو اکہ ماؤں کو اپنے ہی مقتول بیٹوں کا خون پینے پر مجبور کیا گیا۔

بھارتی میڈیا جو مشرقی پاکستان میں فسادات پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا، اُس نے نہ صرف مکتی باہنی کے اس ظلم و ستم پر پردہ ڈالے رکھا بلکہ اپنے منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے بنگالیوں میں اشتعال پیدا کرنے کی بھر پور سعی کرتا رہا۔ مثلاََ یہ کہ سینٹ جوزف سکول ڈھاکہ کے بچّوں پر جئے بنگلہ کا نعرہ بلند کرنے کے جرم میں پاکستانی فوج نے فائر کھول دیا یا بی اے صدیقی چیف جسٹس ڈھاکہ ہائی کورٹ کو پاکستانی فوج نے قتل کر دیا۔ یہ بھارتی میڈیا کی دروغ گوئی کی محض دو مثالیں ہیں۔ (S. Alamdar Raza, Dacca's Debacle, P- 122)

بھارتی حکومت ، شیخ مجیب اور ان دونوں کی پروردہ مکتی باہنی کے اوچھے ہتھکنڈے عروج پر تھے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ملک میں پہلے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا۔ 7 دسمبر 1970 ء کو ہونے والے ان انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئی جب کہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی سبقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

راقم کے خیال میں انتخابات میں حاصل کردہ نشستوں کی تعداد کبھی بھی عوامی پسندیدگی کا واحد اور حتمی پیمانہ نہیں رہا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے معاملہ میں تواِس تھیوری کی صداقت پوری شدت سے سامنے آتی ہے۔ عوامی لیگ کی ہنگامہ خیز اور جارہانہ سرگرمیوں ، بھارت کی طرف سے مہیا کیے گئے لا محدود مالی وسائل اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کے باوجود اور قومی اسمبلی کی 300 میں سے 160 نشستیں جیت کر اکثریتی پارٹی کی حیثیت حاصل کر لینے کے باوجود اس زبردست حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عوامی لیگ کو صرف 43 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل تھی۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان میں صرف 57 فیصد ووٹرز نے حقِ رائے دہی استعمال کیا ۔اُن 43 فیصد ووٹرز کا کیا کہیے جنھوں نے ہر طرح کے جبر کے باوجود گھروں سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ اگر یہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ اور اُس کے چھ نکات کے حق میں ہوتے تو یہ ووٹ ڈالنے ضرور جاتے، جس کی دلیل یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بسنے والے 100 فیصد ہندوؤں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیاتھا۔جن 57 فیصد ووٹرز نے اپنا حق استعمال کیا اُن میں 75 فیصد ووٹ عوامی لیگ کے حصے میں آئے ۔ یوں نصف سے بھی کم لوگوں کی رائے کو پورے مشرقی پاکستان کے لوگوں کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے بغاوت کی راہیں ہموار کر لی گئیں اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کی تحریک کو پورے شدّ و مد اورتلخی کے ساتھ جاری رکھا گیا۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے اِس صورتِ حال کو فوجی طاقت کے ساتھ سنبھالنے کی کوشش کی جو اس وقت شاید واحد آپشن تھالیکن مغربی حصّے سے ایک ہزار میل کی دُوری ، بھارت کا غاصبانہ اور جنگجوانہ رویہ ، مکتی باہنی کی منظم غداری اور پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی جیسے عناصر نے فوجی کارروائی کو بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا۔ روس کی کھلی جارحیت اور امریکہ اور چین کا منافقانہ رویہ بھی سقوطِ مشرقی پاکستان کے اسباب میں شامل ہے۔

نومبر 1971 ء میں مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوجی شکست یقینی ہو چکی تھی۔ دسمبر کے آغاز میں بھارت نے اپنی فوجی کارروائیاں اور مکتی باہنی نے قتل و غارت گری کو انتہا تک پہنچا دیا۔ یہ خیال بھی غلط ثابت ہو گیا کہ مشرقی پاکستان کی بقا کی جنگ مغربی محاذ پر لڑی جا سکتی ہے اور بالا ٓخر 16 دسمبر 1971 ء کی منحوس شام کو جنرل نیازی نے پاکستان کے90 ہزار مجاہدین اور اپنا خالی پستول جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے حوالے کر دیے۔ بھارتی افواج مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئیں اور یوں میرے قائد کا پاکستان ٹوٹ گیا۔
Asghar Ali Javed
About the Author: Asghar Ali Javed Read More Articles by Asghar Ali Javed: 19 Articles with 24904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.