جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کی نئی امید!

پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات اور مسائل کے امور میں کئی موضوعات شامل ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کا حل ہی دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی وہ کنجی ہے جس کے بغیر جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کی کوششوں کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہی افغانستان کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ''پراکسی وار'' بننے سے بچا سکتا ہے۔یوں خطے میں امن اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہونے کی توقعات کی جار ہی ہیں،جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کا سورج نکلتے دیکھنا خطے کے عوام کی ایک دیرینہ آرزو ہے۔
پاکستان، افغانستان، بھارت اور ترکمانستان کے سربراہان نے دس ارب ڈالر لاگت کے توانائی کے منصوبے تاپی گیس پائپ لائن کا سنگ بنیاد رکھا ہے ۔اس پائپ لائن سے ابتدائی طور پر 27 ارب مکعب میٹر سالانہ گیس فراہم ہوگی جس میں سے دو ارب افغانستان اور ساڑھے 12 ارب مکعب میٹر گیس پاکستان اور بھارت حاصل کریں گے۔دس ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی 1700 کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کو دو سال میں مکمل ہونا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف، افغانستان کے صدر اشرف غنی،ترکمانستان کے صدر قربان گلی بردی محمد وف اور بھارت کے نائب صدر محمد حامد انصاری نے توانائی کے اس بین العلاقائی منصوبے کا سنگِ بنیاد ترکمانستان کے شہر میری میں اتوار کو رکھا۔تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اس بڑے منصوبے کا سنگ بنیاد چار علاقائی ملکوں کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ امن اور خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ میں معاون ثابت ہوگا۔پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائین کا منصوبہ بھی جاری ہے ۔اس منصوبے میں ایران کی طرف گیس پائپ لائین کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے جبکہ پاکستان کی طرف تعمیر کا کام جاری ہے۔گزشتہ سال اپریل میں چین اور پاکستان کے درمیان'' چائنا پاکستان اکنامک کالیڈور'' کے منصوبے پر دستخط کئے گئے۔پاکستان چین' اکنامک کالیڈور' کا مقصد گوادر پورٹ کو ہائی وے،ریلوے اور گیس پائپ لائین کے ذریعے چین سے منسلک کرنا ہے۔گوادر سے کاشغر تک اس کی لمبائی تین ہزار کلو میٹر ہے۔گزشتہ سال اپریل میں طے پائے اس منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ46بلین ڈالر لگایا گیا ہے اور یہ سات سال کی مدت میں مکمل ہو گا۔گزشتہ سال اگست میں چین اور پاکستان کے درمیان 'راہداری منصوبے' کو فروغ دینے کے لئے مزید1.6بلین ڈالر کے بیس منصوبوں پر دستخط کئے گئے اور 'چائنا پاکستان اکنامک کالیڈور'' لئے 1.5بلین ڈالر کی لاگت کے 'انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی' پارک کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔

انہی دنوں اسلام آباد میں'' ہارٹ آف ایشیااستنبول عمل کی 5 ویں وزارتی کانفرنس''میںپاکستان ، افغانستان، بھارت ، آذربائیجان، چین، ایران ، قازقستان، کرغزستان، روس، سعودی عرب، تاجکستا ن، ترکی ، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات اور اقوام متحدہ نے شرکت کی۔کانفرنس کے اختتام پر جاری43 نکاتی مشترکہ اعلامیہ میں کہاگیاہے کہ افغانستان میں طالبان سمیت تمام دھڑوں کومذاکرات کی میزپر لایاجائیدہشت گردوں کی مالی معاونت رکوائی جائیدہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جائے گا ٹریننگ کیمپ اکھاڑ دئیے جائیں گے اور ان کی سپلائی لائن کاٹی جائے گیدہشت گردوں کے خلاف ایکشن کیلئے خفیہ معاملات کا تبادلہ کیا جائے گا اور بارڈر سیکورٹی کو بڑھایا جائے گاتمام ممالک ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کریں گے،ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دی جائے گی مسائل کا حل مذاکرات سے نکالا جائے گا،کوئی ملک کسی دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا، دہشتگردی کے خاتمے کے لئے مل کر کوششیں کی جائیں گی، افغانستان کو خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کے لئے راہداری مرکز بنایا جائے گاکسٹمز قوانین کو آسان بنایا جائے گااور سرحدوں پر دستاویزی کارروائی میں سہولت فراہم کی جائے گی، رکن ممالک ایک دوسرے سے آزاد تجارتی معاہدے کرینگے۔ ''ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ''میں بھارت نے افغانستان سے تجارت کیلئے پاکستان سے زمینی راستہ مانگا ہے۔بھارتی وزیر خارجہ نے کانفرنس میں کہا کہ بھارت افغانستان میں امن و استحکام میں تعاون کے لیے تیار ہے، افغانستان میں جمہوریت قدم جمارہی ہے ا فغانستان کو بھاتی مارکیٹ تک براہ راست رسائی دی جائے، بھارت'' پاکستان افغان تجارتی معاہدے'' میں شمولیت کا خواہاںہے ،بھارتی منڈیوں تک افغانستان کی براہ راست رسائی افغان ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اقتصادی ترقی کے سواا فغا نستا ن میں امن کا کوئی راستہ نہیں، پوری دنیا ہمیں تبدیلی کے طور پر دیکھ رہی ہے ، ہمیں ان کو مایوس نہیں کرنا چاہئے۔ ''ہارٹ آف ایشیا'' کانفرنس کے حوالے سے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے دورے کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھارتی وزیر خارجہ کی الگ الگ ملاقات کے علاوہ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کئے اور اس موقع پر بتایاگیا کہ بھارت اور پاکستان جامع مذاکرات کو نئے سرے سے'' باہمی جامع مزاکرات '' کے نام سے اس کی بحالی پر متفق ہوگئے ہیں جس میں کشمیر، وولر بیراج،سیاچن ، سرکریک اور دہشتگردی جیسے امور پر بھی بات ہوگی جو گزشتہ مربوط مذاکرات کا حصہ تھے جبکہ تلبل نیویگیشن پراجیکٹ ، نارکوٹکس کنٹرول اور اقتصادی و تجارتی امور پر تعاون بھی زیر بحث آئے گا جبکہ مزید موضوعات بھی شامل کیے جاسکتے ہیں، اعلامیے کے مطابق پاکستان نے بھارت کو ممبئی حملے کے حوالے سے ٹرائل کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔دونوں ممالک نے امور خارجہ کے سیکرٹریوں کو مذاکرات کے شیڈول اور طریقہ کار کا تعین کرنے کی ہدایت کی ہے۔پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات آئندہ ماہ متوقع ہے۔گزشتہ روز سشما سوراج نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا 'راجیہ سبھا'کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر، امن و سلامتی سمیت تمام حل طلب معاملات پر بات کریں گے ،پاکستان سے ممبئی حملوں کی تحقیقات کا معاملہ اٹھایا ہے ، بھارتی میڈیا کے مطابق سشما سوراج نے نریندر مودی کے آئندہ سال دورہ پاکستان کی بھی تصدیق کی ہے ۔ یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان رسمی اور غیر رسمی اعلی سطحی رابطے شروع ہو گئے ہیں۔

خطے میں ہونے والی اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور اس متعلق مختلف ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مستقبل میں چین ،پاکستان،بھارت،افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں میںاقتصادی سرگرمیوںکو فروغ دینے کے لئے کثیر لاگت کے بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ،کمرشل گوادر پورٹ،وسط ایشیا سے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے راستے بھارت تک گیس پائپ لائین کی تعمیر،بھارت کو افغانستان تک زمینی رسائی اورخطے میں آزاد تجارتی سرگرمیوں کی کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ مستقبل میں اس خطے میں جنگ ،تباہی کے بجائے اقتصادی،تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو گا اور ساتھ ہی چین اور بھارت کے درمیان اقتصادی مفادات کی دوڑ بھی شروع ہو گی۔لیکن اس خطے میں غربت ،جہالت،بیروزگاری کے خاتمے کے لئے ان اقتصادی سرگرمیوں کو شروع کرنے کے لئے ناگزیر ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے،مسئلہ کشمیر حل کیا جائے ،پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کا خاتمہ ہو۔ایک طرف جہاں خطے کے مستقبل کو ترقی کی راہ پہ ڈالنے کی بنیادیں تعمیر کی جار ہی ہیں،وہیں دوسری طرف خطے کے دیرینہ سنگین مسائل و تنازعات کے حل کی کوششیں بھی شروع ہوتے دکھائی دے رہی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان مسائل و تنازعات کو حل کرنے کے حوالے سے ماضی کی ایسی مثالیں واضح ہیں کہ جن سے مسائل و تنازعات کے پرامن منصفانہ حل کے بجائے طاقت کی بنیاد طے کرنے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ خطے میں امن و ترقی کی بنیادوں کی تعمیر کے ساتھ ہی خطے کے سنگین مسائل کے حل کے اقدامات بھی شروع ہوتے نظر آ رہے ہیں۔افغانستان سے متعلق مختلف مسائل و امور کے حوا لے سے عالمی برادری بھی سرگرم نظر آتی ہے۔دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان'' باہمی جامع مزاکرات'' شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات اور مسائل کے امور میں کئی موضوعات شامل ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کا حل ہی دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی وہ کنجی ہے جس کے بغیر جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کی کوششوں کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا۔مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہی افغانستان کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ''پراکسی وار'' بننے سے بچا سکتا ہے۔یوں خطے میں امن اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہونے کی توقعات کی جار ہی ہیں،جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کا سورج نکلتے دیکھنا خطے کے عوام کی ایک دیرینہ آرزو ہے۔اس موقع پر معروف کشمیری شاعر مہجور کا یہ شعر ایک بار پھر یاد آتا ہے کہ
''وقت آئے گا کہ جب کشمیر اہل مشرق کو بیدار کرے گا مجھے یہی پیغام کشمیریوں تک پہنچانا ہے ''
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614316 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More