آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال
(راجہ محمد عثمان سلیمان, muzaffirabad)
آزاد کشمیر میں انتخابی بگل بجنے میں اب بہت ہی کم وقت باقی ہے ۔نئی نئی پیش بندیاں اور صف بندیاں عروج پر ہیں
مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیےسب سے بڑا چیلنج ٹکٹوں کی تقسیم ہے اس حوالے سے کارکنوں اور پارٹی عہدیداوں کی مشاورت کے بغیر کوئی بھی فیصلہ پارٹی کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے اس لیے مسلم لیگ کی قیادت کو فورا پارلیمانی بورڑ تشکیل دے کر ٹکٹوں کا فیصلہ کرنا چاہیے اور نارض کارکنون کی ایڈجسٹمنٹ کر کے مضبوط انداز میں الیکشن مہم کا آغاز کرنا ہوگا
|
|
|
آزاد کشمیر میں انتخابی بگل بجنے میں اب
بہت ہی کم وقت باقی ہے ۔نئی نئی پیش بندیاں اور صف بندیاں عروج پر ہیں ۔
آئے روز اتحاد بننےاور ٹوٹنے کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ۔تقریباتمام
حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں غیر اعلانیہ انتخابی مہم کا اآغاز کرچکی
ہیں۔تمام بڑی سیاسی جماعتون کی طرف سے انتخابات میں کامیابی کے دعوے سامنے
آرہے ہیں ۔حکومتی جماعت پیپلز پارٹی جس پر کرپشن‛ اقرباء پروری ‛کمیشن خوری
جیسے الزامات زبان زد عام ہیں کی طرف سے بھی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن
میں کامیابی کے دعوے دار ھے ۔وزراہ مشیران اور حکومتی ممبران کی طرف سے
سیاسی بنیادوں پر تقرریوں اور تبادلوں اور سکیموں کا اجراء بھی تیزی سے
جاری ہے ۔اور وفاقی فنڈز کی بندش کے نام پر احتجاج استعفوں کی دھمکیوں کے
زریعے رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے،لیکن بحثیت مجموعی پارٹی۔پیپلزپارٹی کے
لیےآنے والے انتخابات ایک بڑا چیلنج ہیں اور یقینی طور پر وزیر اعظم اور
پارٹی صدر چوہدری عبد المجید اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے دیگر پارٹی رہنماؤں
کے ساتھ مل کر کوہی نہ کوہی حکمت عملی ضرور مرتب کر رہے ہوں گے۔اور اس کے
لیے اندرون خانہ پارٹی قیادت کی تبدیلی سمیت کئی ایک آپشن زیر غور
ہیں۔پارٹی کے اندر گروپنگ کی خبرہں بھی مل رہی ہیں۔جبکہ کچھ اخباری اور
دوسری پارٹیوں کے قائدین کا دعوہ ہے کہ موجودہ کابینہ میں موجود وزراء کی
ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی ۔پی ایم ایل این اور دیگر جماعتوں میں جانے کا
فیصلہ کر چکے اور مناسب وقت کے انتظار میں ہیں ۔ایسی کوءی بھی صورت حال
پیپلز پارٹی کو 2002والی پوزیشن مین لے جا سکتی ہے۔ایسے مین پیپلز پارٹی کو
ایک جامع پالسیی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن بھی انتحابات میں
حصہ لینے کے لیے لنگوٹ کس چکی ہے۔۔حکومتی کرپشن اور بیڈ گورنئس کو جواز بنا
کر انتخابی مہم کا غیر اعلانیہ آغاز کر چکی ہے۔مسلم لیگ ن کے صدر راجہ
فاروق حیدر خان اس وقت جماعت کی مضبوطی اور انتخابی حکمت عملی مرتب کرنے کے
لیے مرکزی قائدین اور مقامی قیادت اور پارٹی عہد یدارن سے ملاقاتوں میں
مصروف ہیں۔ کبھی مظفرآباد اور کبھی اسلام آباد میں مرکزی اور مقامی قائدین
سے صلاح ومشورہ میں مصروف ہیں۔ کئی غیر فعال رہنماء بھی مکمل فعال ہوچکے
ہیں جن میں ن لیگ پاکستان کے مرکزی ناہب صدر اور آزادکشمیر ن لیگ کے سرپرست
سابق وزیراعظم و صدر سردار سکندر حیات خان۔جن کے متحرک ہونے بالخصوص اسلام
آباد میں مرکزی رہنماؤں کی ملاقاتیں وغیرہ ہیں ۔ اور پارٹی ٹکٹوں کے حصول
کے لیے سرگرم عمل ہیں۔دیگر جماعتوں سے بھی کئی بڑے بڑے نام مسلم لیگ ن کا
حصہ بن چکے ہیں اور کچھ شامل ہونے والے ہیں۔کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق
کچھ لوگوں کو اوپر سے پارٹی قائدین پر مسلط کیا جا سکتا ہے ایسا کوئی بھی
فیصلہ پارٹی کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔گزشتہ ساڑھے چار سال سے صدر
جماعت راجہ فاروق حیدر خان نے جس طر ح مسلم لیگ ن کو مضبوط کیا اور اپوزیشن
کا کردار ادا کیا اس کے بعد مسلم لیگ ن کی آمدہ الیکشن میں کامیابی کے
امکانات بڑھ گے ہیں ۔کچھ میڈیا ادارے مسلم لیگ ن کے اندر شدید اختلافات اور
گروپنگ کی خبرین تسلسل سے شائع کر رہے ہیں پارٹی قیادت اسکی تردید ضرور
کرچکی لیکن اس طرح کے اختلافات مسلم لیگ ن کومنزل سے دور کر سکتی ہیں۔مسلم
لیگ ن کی قیادت کے لیےسب سے بڑا چیلنج ٹکٹوں کی تقسیم ہے اس حوالے سے
کارکنوں اور پارٹی عہدیداوں کی مشاورت کے بغیر کوئی بھی فیصلہ پارٹی کے لیے
نقصان کا سبب بن سکتا ہے اس لیے مسلم لیگ کی قیادت کو فورا پارلیمانی بورڑ
تشکیل دے کر ٹکٹوں کا فیصلہ کرنا چاہیے اور نارض کارکنون کی ایڈجسٹمنٹ کر
کے مضبوط انداز میں الیکشن مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔مسلم لیگ ن اور مسلم
کانفرنس کے انتخابی اتحاد کا باب بظاہر بند ہوچکا کیوںکہ پی ایم ایل کے
قائدین تنہا الیکشن لڑنے کے لیے بضد ہیں لیکن ساست میں کچھ بھی حرف آخر
نہیں ہوتا۔
دیگر جماعتیں جن میں مسلم کانفرنس جو ریاستی تشخص اور ملٹری ڈیموکریسی کے
نعرے کے ساتھ میدان میں موجود ہونے کا تاثر دے رہی ہے مظفرآباد کنونشن کے
انعقاد کے باوجودبھی ناراض کارکنوں کو بچانے میں ناکام نطر آرہی ہے ۔کچھ نے
ساتھ چھوڑ دیا اور کچھ ساتھ چھوڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں اگر یہ سلسلہ
یونہی جاری رہا تو مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کی ق لیگ بن جائے گی جس کی
سیاست محض ایک گھرانے تک محدود ہوچکی ہے۔ سردار عتیق احمد کا اپنی سیٹ کے
زعم میں پورے کشمیر سے نظریں ہٹا لینا ہر گز دانشمندانہ فیصلہ نہ
ہوگا۔تحریک انصاف جو آزاد کشمیر میں نو واردر ہے لیکن اسکی بھاگ دوڑ
نظریاتی کارکنوں کے بجائے بیرسٹر سلطان جیسے سیاسی جو ڑ توڑ کے ماہر کھلاڑی
کے پاس ہے جو ماضی میں کئی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے
چکے ہیں اپنے اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں ۔میری ناقص رائے
میں انہیں مکمل سیاسی قوت بننے میں سالوں پر محیط محنت درکار ہوگی۔ جموں
کشمیر پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی جوگزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے
اتحادی تھے تذبذب کا شکار ہیں۔ جماعت اسلامی کے مرکز کے فیصلے آزاد کشمیر
میں اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ان فیصلوں کے اثرات آزاد کشمیرکی سیاست میں بھی
مرتب ہوسکتے ہیں جو جماعت کے لیے سود مند نہ ہوں گے۔
ان تمام حالات کے تناطر میں آزاد کشمیر کے آنے والے انتخابات میں گھمسان کا
رن پڑنے کا امکان ہے اور کامیابی اسکی ہوگی جو ماضی کی غلطیوں سے سبق
سیکھتے ہوئے جامع حکمت عملی اور اتفاق کے ساتھ میدان میں اترے گا۔
ﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو |
|