جنگل کے بادشاہ کوجب پتہ چلا کہ’ ن لیگ‘ اسکے نام کا استعمال اپنی پارٹی کے لئے کر
رہی ھے بغیر اسکی اجازت کے اور اسکو شہرت بھی مِل رہی ھے اور بدنامی بھی تو اسکو
کچھ خوشی بھی ہوئی اور کچھ افسوس بھی ۔جسکا ذکر اسنے اپنے خط میں نواز شریف کوکیا۔
شیر کا خط نوازشریف کو۔
محترم جناب نواز شریف صاحب!اسلام وعلیکم،
جیسا کہ مجھے پتہ چلاھے کہ میرانام اور نشان آپ اپنی پارٹی کے لئے استعمال کررہے
ہیں بغیر ہماری اجازت کے۔چنانچہ ہم عدالت میں کاپی رائٹس کے قانون کی خلاف ورزی پر
مقدمہ دائر کر سکتے ہیں مگر خط لکھنے کی اصل وجہ ہماری نسل یعنی شیر کوبدنام کیا جا
رہا ھے ۔یعنی شیر کی نسل ایک مسلمہ حقیقت ھے اور پورے عالم میں اسکی ایک نام اور
پہچان ہے لیکن اب اس عزت کو تار تار کیا جا رہا ہے جو ہماری تمام نسل کے لئے دکھ کا
باعث ہے اور اب میں خود جو کہ جنگل کا بادشاہ ہوں اپنے اور گیدڑ میں کوئی زیادہ فرق
نہیں محسوس کرتا اور کئی بار میرا دِل گیدڑ کی آوازیں نکالنے کا کرتا ہے اور سوچتا
ہوں کے اب شکار کے لئے دوسرے جانوروں پر ہی بھروسہ کروں اوراسکی اصل وجہ ’ن لیگ‘ کا
میرا نام بدنام کرنے کی ہے۔
باوجود اسکے کے میرا نام بدنام ہو رہا ہے لیکن ایک خوشی کی بات بھی ھے کہ آپ میری
ہی طرح اپنے خاندان کا خیال رکھ رہے ہیں اور اسکا ثبوت آپکا مورثی حکمرانی کے تسلسل
سے ہے۔مزید آپ نے مریم نواز اور اپنی زوجہ کو سیاست میں لا کر ہماری پیروی کی
ہے۔اسطرح اگر وہ سیاست میں آگے آجاتی ہیں تو پھر یہ یقینا شیروں کی پیروی ہوگی
کیونکہ ہم بھی شکار کے لئے شیرنیوں پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔دوسری تعریف کے قابل کے
کہ آپ نے جو رائے ونڈ میں جو اپنی کچھار بنائی ھے وہ بھی ھمارے قبیلے کی طریقہ کار
کے عین مطابق ھے جس میں آپ نے اپنے علاقے کا خیال اور سیکورٹی ہماری طرز کی ھے جسکی
ہمیں خوشی ھے مگر اس کے باوجود ہمارے کچھ تحفظات ہیں۔
جنگل کی حکمرانی کے لئے فیصلہ سازی ایک اہم جْز ہے۔تمام جانور ہماری حکمرانی پر
یقین رکھتے ہیں اور ہمارے فیصلوں کا احترام بھی۔مگر آپ کے سامنے جب بھی کوئی فیصلہ
کا وقت آتا ہے تو آپ ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانا شروع کر دیتے ہیں
یعنی کبھی قومی اسمبلی کا اجلاس تو کبھی راحیل شریف ۔اس میں اتنی دیر لگ جا تی ھے
کہ فیصلہ کاوقت گزرجاتاھے یا کوئی اور فیصلہ کر گزرتا ہے۔لوگ بس آپ کی آنیاں جانیاں
ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں جبکہ جنگل کو یا ریاست کو چلانے کے لئے فوری فیصلے کی ضرورت
ہوتی ھے ۔لیکن اس معاملے میں آپ شیکسپئر کے کردار ’ہیلمٹ‘بن جاتے ہیں جس سے آپ کی
حکمرانی مشکوک ہوجاتی ھے۔اگر ہم ایسا کریں تو جنگل کے جانور ہماری جگہ بندر کو جنگل
کا بادشاہ بنادیں کیونکہ اس سے بہتر آنیاں جانیاں کوئی بھی نہیں کر سکتا۔دوسرا نہ
ہی ہم بھیڑوں کی طرح اپنے چرواہے کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی ہماری رہنمائی کرے مگر
آپ ہر معاملے میں آرمی کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ آپ کا چرواہا بنے۔ہم شیر
اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں اور اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہیں اور جبتک ہم کامیاب نہ
ہوجائیں کوشش کرتے رہتے ہیں۔موسم کی خرابی یا کوئی بھی مسئلہ ہم کو روک نہیں سکتا
ہمارے مقصد کے حصول کے لئے۔جبکہ آپ مسئلہ کشمیر،ہندوستان سے بات چیت،کالا باغ ڈیم
جیسے معاملات میں مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے ارادے ترک کردیتے ہیں جو کہ
ہماری نسل کے لئے ناقابلِ قبول ہے۔
مزید ہمیں آپ کی ظاہری شکل وصورت پر بھی اعتراض ھے۔کم از کم آپ کوہماری طرح داڑھی
ضرور رکھنی چاہیے۔گو کہ ہمیں پتہ ہے کہ کہ سر پر آپ کے قدرتی طور پر بال نہیں ہیں
لیکن آپ داڑھی تو رکھ سکتے ہیں۔ہماری شیرانہ تاریخ میں ایساکوئی شیر نہیں جس کی
داڑھی نہ ہو۔ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ آپ کو ایسی صورتحال میں آپ کو شدت پسند یا
انتہاپسند جیسے القابات سے نوازا جا سکتاہے یا سمجھاجا سکتا ہے۔مگر جس طرح آپ دولت
اکٹھی کر رہے ہیں اور ساری دنیامیں تجارت کر رہے ہیں اور روپے پیسوں کے انبار لگا
رہے ہیں اس سے بھی تو آپ انتہاپسند تصور ہوتے ہیں۔امید ہے آپ اس تجویز پر ہمدردانہ
اور شیرانہ طور پر غور فرمائیں گے۔جبکہ آپ کی مخالف پارٹی تحریک انصاف کے رہنما
اپنی شکل و شباہت اور طور طریقوں سے ہم سے زیادہ ملتے ہیں اور خصوصاً جب وہ تقریر
کرتے ہیں تو ان کی گھن گرج ہماری پرَجاتی کی طرح ہی ہوتی ھے۔اگر آپ ان کو اپنا
انتخابی نشان ان کو دینا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔بدلے میں ہم کسی بھی
جانور کا نشان آپکو دے دیں گے۔لیکن ان کو اس نشان دینے میں فقط ایک قباحت ھے کہ وہ
کسی شیرنی کو برداشت نہیں کرتے جو کہ ہماری رِیت کے خلاف ہے اور اب تک دو شیرنیوں
کو وہ کچھار بدر کر چکے ہیں۔فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ہماری نسل اور ہمارے اطوار
کا خیال رکھیں اور اسکو مزید بد نام ہونے سے بچائیں وگرنہ ایک دن آئے گا ہم مال روڈ
پر مونگ پھلیاں کھاتے ہوئے احتجاج کررہے ہونگے۔ |