کیا امن قائم کرنے کے لیے جنگ ضروری ہے؟

 اس وقت دنیا کو امن کی جتنی ضرورت ہے شاہد اس سے قبل کبھی بھی نہ ہو۔آج انسانی تاریخ میں سب سے بڑی تباہی پھیلانے والے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں۔ میدان جنگ یا سفارتی محاذ پر بھی تھوڑی سی انسانی غفلت یا عجلت دنیا میں بہت بڑی تباہی پھیلا سکتی ہے ۔عالمی منظر نامے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اس دنیا کو کسی بڑی جنگ کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔بڑی اور ذمہ دار قوتیں میدانِ حرب سجا کر ہی امن کا گیت گانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ہر طرف دہشت گردی کا شور بلند ہے کیا اس کو ختم کرنے کے لیے بھی کسی دہشت گردی کی ضرورت ہے؟ یہاں اس سارے منظر نامے میں مقاصد اور عزائم کچھ اور ہیں۔دنیا میں اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور اس نے پوری طرح ہر معاشرے پر اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔مگر باوجود اس کے یہ نظام اب بھی روس سے ڈرتا ہے۔دوسری طرف روس بھی امریکہ کو پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے سے باز رکھنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔اس مقصد کے لیے وہ شام میں ایک آخری معرکہ میں اترنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔

روس اور ا فغان جنگ کے اختتام پر امریکہ کو دنیا کے تمام ممالک پر اپنا اثر قائم کرنے میں آسانی میسر آئی اور اس نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔روسی بلاک میں شامل تمام ممالک کو ایک ایک کر کے تباہ کیا اور وہاں پر حکومتوں کو بھی تبدیل کیا ۔اس بلاک کا آخری ملک شام ہے جو امریکہ کے مقابلے میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔بشار الاسد علوی ہے اور یہ گروہ شام میں صرف4فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ اسد کو منظر نامے سے ہٹا دیا جائے۔امریکہ کا خیال تھا کہ چار فیصد آبادی کا حمایت یافتہ بشار الاسد زیادہ دیر اقتدار میں نہیں رہ سکے گا مگر گزشتہ چار سالوں سے وہ اپنے اقتدار کو نہ صرف قائم رکھ سکا ہے بلکہ اب وہ مزید طاقت ور ہوا ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ ملک کے اندر بشار الاسد کی حمایت اس قدر نہیں ہے جس قدر اقتدار میں رہنے کے لیے ضرورری ہوا کرتی ہے مگر بیرونی عوامل نے اس کے اقتدار کو قائم رکھا ہوا ہے۔روس اس کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔اس کی فوج وہاں پر موجود ہے۔ایران اور لبنانی حزب اﷲ بھی اسد کے ساتھ ہیں۔اب پاکستان سے جانے والے پاراچنار کے کچھ افراد کی وہاں موجودگی کی بھی اطلاعات آئی ہیں۔پارا چنار میں ہونے ولا حالیہ بم دھماکہ اسی کا ردِ عمل ہے۔ امریکہ ہمیشہ دہشت گرد گروپس کو آپس میں لڑاتا ہے اور پھر اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ داعش سمیت مختلف گروہ کی مدد سے اسد حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے اور وہ اس انتظار میں ہے کہ داعش شام حکومت کا خاتمہ کرے اور پھر وہ وہاں اپنا کنٹرول حاصل کرے۔

ملک شام میں صورتِ حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔روس جو اس سے قبل شام کے معاملے پر قدرے خاموش تھا اب کافی متحرک ہوا ہے۔ترکی کے ساتھ اس کی نوک جھونک بھی معنی خیز ہے۔امریکہ ترکی کی پشت پناہی کرتا ہے اور ترکی امریکہ کی ہی خواہش پر روس کو للکارتا ہے۔دونوں ممالک میں تناؤ خطے لیے خطرناک ہو گا۔روس کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ کو یہاں پر ہی روکا جائے۔ایران اور خطے کے دیگر شیعہ گروہ بھی اس کے ساتھ ہیں۔یمن میں جنگ کی آگ مزید تپ رہی ہے۔ہر کسی کو کسی نہ کسی سے خطرہ لاحق ہے اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے کی جان لینا لازمی سمجھا جانے لگا ہے۔اپنے ملک میں امن قائم کرنے کے لیے دوسرے ملک میں بد امنی ضروری تصور کی جاتی ہے۔جنگ کو ختم کرنے کی بجائے اس کی وسعت میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔اب 34اسلامی ملکوں نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک مشترکہ فوجی اتحاد تشکیل دیا ہے ۔پاکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہے جب کہ ایران اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔یمن میں بھی سعودی عرب کی فوجی کاروائیوں میں تیزی آئی ہے اس اتحاد کے قیام سے اس کی فوج کا بھی حوصلہ بڑھا ہے۔

سرمایہ دارانہ نطام اور اشتراکی نظام کی اس جنگ میں مسلمانوں کو بطور ایدھن استعمال کیا جانے ولا ہے۔روس اپنے آخری معرکے میں شام اور ایران سمیت دنیائے اسلام کے کئی غیر ریاستی عناصر کواور امریکہ باقی مسلمان ممالک کے زیرِ استعمال لا نا چاہتا ہے۔عالم اسلام کو اس بات پر ضرور غور کرنا ہو گا کہ کیا امن کے قیام کے لیے اس کا میدانِ جنگ سجانا ضروری ہے؟ اور کیا اغیار کے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال ہونا خود ان کے لیے سود مند ہے؟ مسلم قیادت کو انتہائی تدبر اور فہم سے کام لینا ہوگا اور جنگ سے اجتناب کرتے ہوئے مذاکرات اور مباحثے کے ذریعے امن کی منزل کو حاصل کرنا ہو گا۔
 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55950 views i am columnist and write on national and international issues... View More