" چھا نگا مانگا " کا نام تو آپ نے سنا ہو گا ۔ایک جنگل
کا نام ہے ۔ پاکستان کے ضلع قصور میں واقع وہ جنگل جسے دنیا کی تاریخ میں
سب سے بڑے انسانی ہاتھ کے بنائے ہو ئے جنگل کا اعزاز حاصل ہے۔اس کا نام چھا
نگا مانگا کیوں پڑھ گیا یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے کہ دو بھائی چھانگا اور
مانگا تھے وہ چو ر مشہور تھے چو ری کے بعد اپنے لو ٹے ہو ئے مال کے ساتھ وہ
اس جنگل کا رخ کر تے ، اس نسبت سے اس کا نام بھی چھانگا مانگا پڑھ گیا۔۔۔۔۔
اس کو اس وقت کے برٹش سسٹم نے 1890میں بنایا تھا تاکہ ریلوے کے انجن چلانے
کے لیئے ایندھن پو را ہو سکیں۔اس کے بارہ ہزار ایکڑ رقبے پر درخت لگائے جا
چکے ہیں۔۔۔آپ ریل میں بیٹھ کراس کا ارد گرد ۵۰ کلو میٹر تک سفر کر سکتے ہیں
۔لیکن ستم ظریفی یہ کہ برطانیہ سرکار کے زمانے میں انسانی ہاتھوں سے بنا یا
گیا اس جنگل سے آج تقریبا نصف درخت ختم کر دیئے گیئے ہیں۔۔۔۔
درختوں کی کیا اہمیت ہے اس بات کا اندازہ اپ لگا سکتے ہیں کہ کسی ملک کے
اچھی آب و ہوا کے لیئے پچیس فی صد حصے پر جنگلات ہو نے چاہیئے۔ مگر بد
قسمتی سے ہمارے ملک کی حالت یہ ہے کہ جنگلات کا رقبہ چا ر فی صد تک ہے۔ جس
کے نقصانات بھی واضح ہے اور پاکستان کو ماحولیاتی آلو دگی کے لحاظ سے آلو
دہ ترین ملکوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، ہر سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا
ہے ۔ مو سمیاتی تغیر دیکھنے کو ملتے ہیں۔دنیا کے قدیم ترین چیزوں میں سے
درختو ں کو بھی قدیم ترین شمار کیئے جاتے ہیں۔ درختوں کی عمر ہزاروں سال تک
ہو سکتی ہے ایسا ہی ایک درخت امریکہ میں مو جود ہے جس کی عمر چہار ہزار چھ
سو سال بتائی جاتی ہے۔ درخت کی عمر کا اندازہ اسکی شاخ پر سالانہ نمودار ہو
نے والے سالانہ دائروں سے لگایا جاتا ہے اور اس علم کو" ڈینڈرو کرونالوجی"
کہتے ہیں۔ایک درخت ایک سال میں دو سو ساٹھ پاونڈ اکسیجن خارج کرتا ہے ۔۔ایک
ایکڑرقبے پر لگائے گئے پو دے اٹھارہ لو گوں کے اکسیجن کی ضروریات پو ری
کرتے ہیں۔۔۔۔
درخت پودے اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں ، اگر اپ کو حیرت ہو رہی ہے کہ ہم
نے تو کسی درخت کو خوراک تیار کرتے نہیں دیکھا نہ ہی اسے خوراک پکاتے دیکھا
ہے تو اپ ٹھیک سو چ رہے ہیں درخت ہماری طرح خوراک پکا کر نہیں کھاتے، نہ ہی
فرمائش کے مطابق خوراک کے لیئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں پو دے کی خوراک وہ سانس
ہو تی ہے جو ہم خارج کرتے ہیں اور وہ اسے سارا دن پکڑنے میں مصروف ہو کر
اسے سٹور کرتا رہتا ہے اور رات کواسے اپنی خوراک بنا لیتا ہے اور مزے کی
بات یہ کہ یہ خوراک وہ ہم سے مفت میں بھی نہیں لے رہا وہ اس کے بدلے ہمیں
زندگی کی سب سے قیمتی شئے دیتا ہے جس کے بغیرہمارا جینا محال ہو تا ہے یعنی
اکیسجن۔۔۔۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں درخت لگانے پر کچھ ذیادہ تو جہ نہیں
دی جا رہی اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ درخت کا ٹنے میں آگے ہی رہے ہیں۔ جس
سے ہم ماحولیاتی آلو دگی کی زد میں آ رہے ہیں۔۔۔خصوصا میں ان علا قوں کی
بات کروں گا جہاں گیس پلانٹ ہیں، مگر اس قدرتی گیس کے صفائی کے دوران جو
زہریلی گیس فضا میں خارج کر نے کے لیئے نکالی جاتی ہے اس کے مضر اثرات
دیکھے گئے ہیں اور آنکھوں کی بیماریوں م، جلدی بیما ریاں ، اور مو سمیاتی
تغیرات اتنے قلیل عرصے میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ان مضر اثرات کو ہم کسی
حد تک درخت لگا کر کم کر سکتے ہیں اس سلسلے میں سکول کے بچوں سے کام لیئا
جا سکتا ہے۔ آج کل آئے روز " سول سو سایئٹز" اور فاونڈیشنز وجود میں آرہے
ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے اور اس کو یہ کار خیر اپنے ذمے لیکر قانونی
کاروئی پو ری کر کے اس کو کرنا چاہیئے۔۔۔۔ درخت لگانے سے ہمارے علاقے کی آب
و ہوا پر بھی کافی خوشگوار اثر پڑ سکتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے جوپہاڑ سخت، خشک
ہیں جو کہ گرمی میں سخت خشک گرمی کا سبب بنتے ہیں ایسے میں درخت لگا کر اس
سے کافی بہتر نتائج حاصل کیئے جا سکتے ہیں ۔ تاکہ اس سے چلنے والے ہو ارگڑ
کھا کر گرم نہ ہو اور مرطوب نہ لگے۔ اس سے زہریلی گیس خارج ہو نے کو بھی کم
کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ اس کے لیئے گیس ایکسٹر یکشن پلانٹس کو خصوصی تو جہ دینی
چاہیئے اور درخت لگا کر اپنا فریضہ انجا م دینا چاہیئے۔۔۔۔ اپ کچھ عرصہ سے
دیکھ سکتے ہیں ہمارے قدرتی ذ خائر رکھنے والے علاقوں میں گرمی خاصی بڑھ رہی
ہیں اور آنکھوں اور جلدی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اس کی ایک بڑی
وجہ اس گیس کی پروڈکشن ہے جس کے اثرات ہم پر واضح ہیں اس سلسلے میں ہم درخت
لگا کر اس کو کسی حدتک کم کر سکتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر ہمارے لیئے اور
کیا بات ہو سکتی ہے کہ درخت لگا نا سنت نبوی ہے اور ہمیں یہ بتا یا گیا ہے
کہ اگر ہم کو معلوم بھی ہو کہ کل قیامت ہے تب بھی درخت لگایا جائے۔ تو آئیے
درخت لگا کر اپنے علقے، اپنے ملک کو سر سبز و شاداب بنائے ورنہ مستقبل میں
ہمیں بہت سے ماحولیاتی ، جلدی اور جسمانی مسائل کا سامنا کر نا پڑھ سکتا
ہے۔اور مو جودہ خیبر پختنو خواہ گو رنمنٹ کا حالیہ درخت لگانے کی مہم کا
فیصلہ نہایت ہی مستحسن ہے ۔ مو جودہ حکومت کے اس فیصلے سے بھر پور فائدہ
اٹھانا چاہیئے اور بھر پو ر ساتھ دینا چاہیئے۔ |