دنیا کے نقشے پر ایک اور اسلامی ملک
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
گیمبیا براعظم افریقہ کا ایک چھوٹا
ساملک ہے ،جس کا رقبہ 10,689اسکوائر کیلومیٹر پر محیط ہے ،تین جانب سے
سینگال سے گھرا ہوا ہے جبکہ مغربی حصہ میں اس کا اختتام بحر اوقیانوس پر
جاکر ہوتا ہے ۔تین تہائی سے زیادہ عوام بین الاقومی سطح پر خط افلاس سے
نیچے زندگی بسرکرتی ہے ،زراعت ، سیاحت اور ماہی گیری ذرائع آمدنی میں
سرفہرست ہیں ۔ یہاں کی کل آباد تقریبا 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں سے
90 فی صد مسلمان ہیں ، 8 فیصد عیسائی ہیں اور دو فیصد خودساختہ افریقی
عقیدے کے ماننے والے ، مسلکی اور فقہی اعتبار سے یہاں کے اکثر وبیشتر
مسلمان ائمہ اربعہ میں سے حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ کے پیروکار ہیں ۔
گیمبیا کی تاریخ تقریبا چار ہزار سال پرانی ہے ، عرب مورخین کے مطابق یہاں
دوہزار سال قبل مسیح کے آثار ملتے ہیں ، گیارہویں، بارہویں صدی میں عرب
تاجر اور ریسرچ اسکالر یہاں آئے تھے جنہوں نے یہاں بنیادی چیزیں فراہم
کرائیں ، یہاں کے لوگوں سے رابطے ہموا ر کئے ،رفتہ رفتہ یہاں کی عوام اسلام
کے آغوش میں آنی شروع ہوگئی۔چودہویں صدی میں گیمبیا مالی سلطنت کا حصہ بن
گیا جو افریقہ کی سب سے بڑی حکومت تھی ، 1235 سے 1665 تک یہ مالی سطنت قائم
رہی ، افریقہ کی زیادہ ترریاستیں اسی سطلنت کا حصہ تھی ، اس کا کل رقبہ
گیارہ لاکھ مربع میل پر مشتمل تھا اور کل آبادی تقریبا دوکڑور سے زیادہ ۔
پندرہویں صدی میں کشتی کے ذریعے یہاں پرتگالیوں کی آمد ہوئی اور تجارت پر
ان کا کنٹرول شروع ہوگیا ۔1588 میں پرتگالی سطلنت کے دعویداروں نے برطانوی
تاجروں کے ہاتھوں تجارتی حقوق کو فروخت کردیا جس کے بعد برطانوی تاجروں کی
آمدو رفت شروع ہوگئی،ملکہ الزبتھ اول بڑے پیمانے پر گیمبیا کے ساتھ تجارتی
امور کو فروغ دینے میں مصروف ہوگئی ۔
سترہویں صدی میں سینگال ریوراور گیمبیا ریور پر سیاسی اور اقتصادی بالادستی
حاصل کرنے کے لئے برطانیہ اور فرانس نے اپنی جدو جہد شروع کردی ، طویل جنگ
کے بعد آگستو کیپال کی قیادت میں برطانیہ گیمبیا ریور پر قابض ہونے میں
کامیاب ہوگیا،1765 میں گیمبیا برٹش کالونی کا مستقل حصہ بن گیا ۔گیمبیا پر
قابض ہونے کے بعدبرطانیہ نے انسانوں کو غلام بناکر ایک نئی تجارت کا آغاز
کیا ، تقریبا تین ملین انسانوں کو غلام قراردے کر یورپ سے فروخت کیا گیا ،انہیں
بطور نوکر کے امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں بھیجا گیا جسے
transatlantic slave trade کہاجاتا ہے،1807 میں برطانیہ نے اپنی سطلنت میں
slave trade (غلاموں کی تجارت )کو ختم کردیا ،بحر اٹلانٹک میں مغربی افریقہ
کے رویل نوی نے جن کشتیوں کو اپنی قیدمیں لیاتھا اسے بھی گیمبیا واپس کردیا
،غلامانہ زندگی سے نجات ملنے کے بعد گیمبیائی عوام نے ایک نئی زندگی کی
شروعات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن برطانیہ اور فرانس کے درمیان جاری کشمکش میں
یہ لوگ ایک طویل عرصے تک آزاد فضاء میں سانس لینے سے محروم رہے ۔ بالادستی
باقی رکھنے کے لئے برطانیہ نے بنجول میں جو وہاں کی موجودہ راجدھانی ہے ایک
پولس چھاونی قائم کردی اور ہندوستان کی طرح یہ چھوٹاسا ملک بھی برطانوی نو
آبادیاتی کا حصہ بنا رہا ۔
سالوں کی جدوجہد کے بعد 1965 میں گیمبیا کو برطانیہ سے آزادی ملی ،1970 میں
اسے دنیا کی جمہوری ریاست کا درجہ ملاتاہم دولت مشترکہ کی قید سے نجات نہیں
مل سکی ، حکومتی امورکو آزاد مقننہ ، آزاد عدلیہ اور آزاد انتظامیہ میں
تقسیم کردیا گیا ،دودا جاورا وہاں کے پہلے صدر منتخب ہوئے،بلاشرکت غیر تیس
سالوں تک وہاں انہوں نے حکومت کی ،ہر انتخاب میں انہیں کامیابی ملی،پانچ
مرتبہ کے انتخاب میں ان کی سیاسی جماعت پیپل پروگریسیو پارٹی کے مد مقابل
میں کسی مضبوط اپوزیشن کا وجود نہیں تھا ۔1994 میں بدعنوانی کے الزام کے
تحت فوج نے بغاوت کرکے جاورا کو اقتدار سے بے دخل کردیا ،جاورا اور ان کی
حکومت سے وابستہ تمام وزراء اور افسران کی سیاسی سرگرمیوں پر 2001 تک پابند
عائد کردی گئی، لیفٹیننٹ جرنل اور AFPRC کے چیر مین ی29 سالہ یحیی اے جے جے
جامع نے ریاست کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں تھام لی ،دوسالوں بعد اے ایف پی
آر سی نے جمہوری سیاست کی بحالی کا اعلان کیا۔1996 کے صدارتی انتخابات میں
اے ایف پی آر سی کے چیرمین جمہ کو 53 فی صدووٹ ملے ،اس کے بعد آزادالیکشن
کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ،ووٹ ڈالنے کے لئے ووٹر آئی کارڈ اور
رجسٹریشن کا عمل شروع ہوا،2002 میں انعقاد پذیر عام انتخابات میں یحیی کی
پارٹی Alliance for Patriotic Reorientation and Construction کو اپوزیشن
یونائٹیڈ ڈیموکریٹک پارٹی (یوڈی پی) کی شدیدمخالفت کے باوجود قومی اسمبلی
میں دوتہائی سے زیادہ اکثریت سے کامیابی ملی ۔1970 کا قانون تین حصوں میں
منقسم تھا ،جامع نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس پر نظر ثانی کرنے کے لئے ایک
کمیٹی تشکیل دی اور از سرنو قانون بنایاگیا ،دوسرے قانونی مسودہ میں صدرکو
لامحدود اختیارات دیئے گئے ، اس کے علاوہ عدلیہ اور انتظامیہ کو صدرکے
سامنے جوابدہ بنایاگیا ۔
1996 سے تادم تحریر جمہ گیمبیا کے عہدہ صدارت پر مسلسل فائز ہیں ،ا نہوں نے
اپنی حکومت کے دوران ملک کی عوام کو خوشحالی فراہم کرنے اور غربت کے خاتمہ
میں اہم رول اداکیا ہے ، ملک کی اقتصادی شرح میں حالیہ کچھ برسوں سے سالانہ
اضافہ ہورہا ہے ، تعلمی معیار کو بہتر بنایاگیا ہے ، اسکولوں میں بنیادی
تعلیم مفت فراہم کرائی جاتی ہے ، چھٹی کلاس تک جو اسکول فیس لیتے ہیں اس کے
خلاف سخت قانون وضع کیا گیا ہے ، چند دنوں قبل اپنے لئے گئے ایک فیصلہ سے
صدریحیی جامع عالم اسلام میں سرخیوں میں آگئے ہیں اور ان کے اس فیصلہ کی ہر
طرف ستائش ہورہی ہے ، عالم اسلام میں خوشی کی لہر پائی جارہی ہے ۔
11 دسمبر 2015 کو گمیبیائی صدر یحیی جامع اپنے ایک فیصلہ میں مسلم اکثریت
ہونے کے ناطے اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا ہے۔انہوں نے ریاستی
ٹی وی چینل کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس اقدام سے ریاست کو نوآبادیاتی ماضی
سے چھٹکارا مل جائے گا،اس سے یہاں کی کی مذہبی شناخت اور اقدار کا اظہار
ہوگا، انھوں نے مزید کہا کہ اس اعلان کے پس منظر میں شہریوں پر کسی مخصوص
لباس کی پابندی عائد نہیں کی جائے گی اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی مکمل
آزادی حاصل ہوگی۔
یحیی جامع کا یہ اقدام لائق ستائش اور قابل مبارکباد ہیں ، ان کی خدمات اور
سیاسی عزائم سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلامی سیاست اور ملی خدمت کے جذبہ سے ہم
آہنگ اور سرشار ہیں ، گذشتہ چند ماہ قبل انہوں نے میانمار میں مسلمانوں پر
ہونے والے ظلم ستم کے خلاف بھی آواز بلند کی تھی اور کہاتھاکہ برما کے
مظلوموں مسلمانوں کو ہم اپنے یہاں رہائش دیں گے ، وہاں سے ہجرت کرکے گیمبیا
آئیں یہاں ان کا خیر مقدم ہے ، وہ ہمارے دینی بھائی ہیں ۔2013 میں صدر یحیی
نے جرات کا مظاہر کرتے ہوئے دولت مشترکہ سے بھی خود کو الگ کرلیا ہے، ماضی
کی خوفناک اور افسوسناک تاریخ کو بھلاکر وہ ایک آزادی اسلامی ریاست کے طور
پر دنیا میں اپنی نمائندگی چاہتے ہیں ۔ یہ امید کی جانی چاہئے کہ عالم
اسلام کی جانب سے یحیی کے اس اقدام کی ستائش کی جائے گی ،ان کی طرف سے دست
تعاون بڑھا یا جائے گا ،خود مختار اور مضبوط گیمبیا کی تشکیل میں عالمی
رہنما مکمل طور پر اپنا ساتھ دیں گے۔ |
|