شمائلہ جاوید بھٹی
ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق پاکستان کو اس بات پر بھی تحفظات
ہیں کہ بھارت نے وسیع پیمانے پر زیرزمین کا سروے مکمل کرلیا ہے اور اس کے
لیے وہ جرمن جیو ہیلی بورن(ہیلی کاپٹر)ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے، جو بہت
زیادہ گہرائی تقریبا 1000 نیچے زیرزمین موجود پانی کا بھی سراغ لگا دیتی ہے۔
پاکستان اس حوالے سے انتہائی خدشات کا شکار ہے۔ سرحدپار تعلقات بہتر رکھنے
اور شکوک و شبہات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ مکمل ڈیٹا
اور تمام اعدادوشمار کا تبادلہ کرے تاکہ صورت حال واضح ہو اور بداعتمادی کی
فضا ختم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ مشورہ بھی دیا کہ دونوں جانب کے
سائنس داں ایک دوسرے ممالک کا دورہ کریں اور صورت حال کا جائزہ
لیں۔پاکستانی وفد کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ چوں کہ ہمارے صحرا پہلے ہی بہت
زیادہ ماحولیاتی شکستگی کا شکار ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے ضروری ہیں کہ
زیرزمین پانی کے استعمال کے لیے کوئی قانون یا قواعد وضح کیے جاسکیں یا پھر
دونوں ممالک کے مابین پہلے سے موجود سندھ طاس معاہدہ(Indus Water Treary-
IWT) کے تحت اس کا احاطہ کیا جائے۔
زیر زمین پانی وہ ہوتا ہے جو مساموں والی مٹی میں جذب ہو جاتا ہے۔ یہ پانی
زمین میں جذب ہوکر اس کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے جب اس کی راہ میں
کوئی ایسی تہ آ جائے جو ناقابل گزر ہو جیسے (چٹان یا لیس دار گارے کی تہہ)
تو پانی اس کے اوپر جمع ہو جاتا ہے یہ گہرا پانی ہوتا ہے کبھی یہ پانی متصل
علاقے میں قابل گزر جگہ پا کر چشمے یا کنویں کی شکل میں نکل آتا ہے یا پھر
پہلی تہہ کے نیچے گزرنے کی راہ پا کر نیچے اترتے ہوئے دوسری ناقابل گزر تہہ
تک پہنچ کر اس کے اوپر جمع ہو جاتا ہے یہ گہرا یا زیر زمین پانی ہوتا ہے
چونکہ یہ پانی مٹی کے مساموں سے رستا ہوا جاتا ہے، اس لئے یہ صاف ہو جاتا
ہے۔ بعد میں ان دونوں تہوں کا پانی یا تو چشموں کی شکل میں پھوٹ پڑتا ہے یا
انسانی ہاتھ اسے کنوؤں اور ٹیوب ویلوں کی صورت میں نکال لیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کو اﷲ تعالیٰ نے کئی بڑے دریاں سے نوازا ہے جسکے باعث
جنوبی ایشیا میں وسیع پیمانے پر اناج پیدا ہوتا ہے اور اس خطے کا زرعات کا
دارومدار پانی پر پے۔ پاکستان کے پاس ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 11.55 ملین
ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف 30 دن کا پانی
ذخیرہ کر سکتے ہیں، بھارت 120دن تک جبکہ امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے
کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار
150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200 کیوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000
کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7% پانی ذخیرہ
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40% ہے جسکی وجہ سے
پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی پوری دنیا میں سب سے کم یعنی کیوبک میٹر
ہے جبکہ امریکہ میں فی کس پانی کی دستیابی 6150 کیوبک میٹر ہے ۔یوں پاکستان
اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان
اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25
ارب ڈالر ہے۔
بھارت دوہری آبی جارحیت کے ذریعے خشک سالی کے دور میں پاکستان کے حصے کا
پانی روک کر اور سیلاب کے دنوں میں مزید پانی چھوڑ کر پاکستان کو صحرا زدہ
اور سیلاب زدہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے ہوئے ہے جس سے پاکستان کی
ماحولیات اور زراعت تباہی کے دہانے پر پہنچنے والی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ
ہیگ کی عالمی عدالت انصاف نے فروری 2013ء میں جو حکم جاری کیا تھا بھارت
اُس پر عملدرآمد نہیں کررہا۔ عدالت نے کشن گنگا ہائیڈرو پراجیکٹ سے 24گھنٹے
پانی کے ماحولیاتی بہاؤ کو جاری رکھنے کے لئے 9کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی
چھوڑنے کا حکم دیا تھا جبکہ بھارتی حکومت کی تجویز 4.25کیوبک میٹر فی سیکنڈ
تھی۔ عدالت نے بھارتی حکومت کی طرف سے فروری 2013ء کے عدالتی حکم کی ازسر
نو تشریح کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔ تاہم پاکستان کی طرف سے بھارت کی
آبی جارحیت کے خلاف معاملات اور مقدمات مجرمانہ تاخیر سے اٹھائے جاتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کے توڑ پر مامور واٹر کمشنر اور دیگر
متعلقہ افراد کو بھارت پیسے دیکر خرید لیتا ہے۔ مگر ابھی تک پاکستان میں
آبی غداروں کے خلاف مطلوبہ تحقیقات اور قرار واقعی سزا نہیں دی گئی جو کہ
وقت کا تقاضا ہے۔ |