گول جو کہ ماضی میں ’’گول گلاب گڑھ ‘‘ کے
نام سے مشہور تھا گو کہ نئی حد بندی ہونے کی وجہ سے گول گلاب گڑھ کو دو
حلقہ انتخاب میں تقسیم کیا گیا ایک حلقہ انتخاب مہورگلاب گڑھ اور دوسراحلقہ
انتخاب گول ارناس وجود میں لایا گیا لیکن گول گلاب گڑھ کی پہچان اپنی جگہ
قائم رہی گول جسے آج بھی گول نہیں بلکہ ’’گول گلاب گڑھ‘‘ کے نام سے جانا
جاتا ہے۔سن1996ء سے قبل گول گلاب گڑھ کا ایک ہی نمائندہ ہوا کرتا تھا
۔1996ء سے قبل نیشنل کانفرنس کے قدآور لیڈرمرحوم حاجی بلند خان نے گول
گلاب گڑھ پر اپنا قبضہ جمایا رکھااور کچھ عرصہ یہاں کانگریس کے محمد ایوب
خان نے بھی اپنا سیاسی کاروبار چلایا۔ 1996ء کے انتخابا ت میں حلقہ انتخاب
گول ارناس اورمہور گلاب گڑھ کی دو اسمبلیاں بنائی گئیں اور دونوں اسمبلیوں
سے نیشنل کانفرنس نے اپنے امیدوار وں کومیدان میں اُتارا۔گول ارناس سے
عبدالوحید شان جبکہ مہور گلاب گڑھ سے عبدالغنی ملک کو منڈیٹ سے نوازا گیا۔
متفقہ طور پر دونوں اُمیدواروں کو میدان میں اُتارنے کا نتیجہ کسی حد تک
بہتر رہا ۔قابل غور بات ہے کہ عبدالوحید شان نیشنل کانفرنس کاگول ارناس سے
پہلا عوامی نمائندہ تھاجسے منڈیٹ سے نوازاگیا تھا۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ جب
گول سے کسی عوامی نمائندے کو عوام کی خدمت کا موقعہ فراہم کیا گیا تھا ۔یہاں
یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ عبدالوحید شان نے اپنا پہلا سیاسی انقلاب حاجی
بلندی خان کی زیر نگرانی میں انجام پایااور اُن کے ساتھ ہاتھ ملاکر رہنے کا
صلہ انہیں نمائندگی کے طور پر ملی ۔کہا جا تا ہے کہ گول ارناس سے
عبدالوحیدشان کو این سی کا منڈیٹ ملنے کی سب سے بڑی وجہ مرحوم حاجی بلند
خان ہی تھے جنھوں نے شان اور خان بنے رہنے کے معاہدے پر انہیں گول ارناس کا
راجہ بنا دیا۔عوامی حلقوں میں آج بھی یہ خبر گشت کرتی ہوئی سنائی دے رہی ہے
کہ جب حلقہ انتخاب گول ارناس میں پہلی مرتبہ عبدالوحید شان کو میدان میں
اُتارا گیا تھا تو اُس کے پیچھے بھی مرحوم حاجی بلند خان کا ہاتھ تھا جنھوں
نے عبدالوحید شان سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اب کی بار حلقہ انتخاب گول ارناس
سے آپ الیکشن لڑو اور دوسری مرتبہ حلقہ انتخاب گول ارناس سے میں اپنے بیٹے
کو میدان میں اُتاروں گا اور اس طرح سے ہمارا یہ معاہدہ آنے والے دور میں
چلتا رہے گا یعنی ایک سیشن میں اقتدار کے مزے میں لون گا اور ایک سیشن میں
آپ سیاسی اقتدار کی چٹنی کا مزہ لینا ۔لیکن سیاسی اقتدار کی چٹنی کا مزہ ہی
کچھ اس قدر ذائقہ دار ہوتا ہے کہ جس نے ایک بار اس کا مزہ چکھ لیا وہ بار
بار اقتدار کی چٹنی کھانے کی تمناکرتا ہے یہی وجہ ہے جس کا سیاست کے ساتھ
ایک بار نکاح ہو گیا اُس کی سیاست سے کبھی طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔
عبدالوحیدشان نے پہلی بار میدان مار کر سیاست میں اپنے قدم اس طرح جما دئیے
اور ہائی کمان سے ایسا یارانہ بنا دیا کہ نیشنل کانفرنس کے پرانے اور
بنیادی لیڈرمرحوم حاجی بلند خان کو باہر نکال کر دیا ۔سیاست اور اقتدار کے
سر چڑھے نشے نے انہیں حاجی بلند خان سے بے وفائی کرنے پر مجبور کر دیا تھا
یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عوامی خدمت کا جذبہ انہیں پھر سے الیکشن لڑنے
کیلئے مجبور کر رہاتھا جس وجہ سے اُسے مرحوم حاجی بلند خان کی یہ تجویر
نہیں بہائی اور انھوں نے اس تجویز اور خفیہ معاہدے سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔
لیکن سیاسی ماحول میں پروان چڑھنے والے حاجی بلند خان نے یہاں سے اپنی
سیاست کا نیا دور شروع کیا۔اسمبلی انتخابات ۲۰۰۲ ء میں مرحوم حاجی بلند
خان کے فرزند کو نیشنل کانفرنس کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے پر مرحوم حاجی بلند
خان نے نیشنل کانفرنس اور اپنے سیاسی یار عبدالوحید شان کی بیوفائی سے بد
ظن ہو کرپارٹی سے اپنا برسوں پرانا رشتہ توڑ ا اور نیشنل کانفرنس کو خیرباد
کہہ دیا ۔
۲۰۰۲ ء میں حاجی بلند خان نے اپنے فرزند اعجاز احمد خان کو آزادانہ طور
میدان ِعمل میں اُتار اور اپنے برسوں پرانے سیاسی تجربے کو بروئے کار لاتے
ہوئے اپنے مخالفوں کو سیاسی کتاب کا ایک ایسا باب پڑھنے کو دیا کہ حلقہ
انتخاب گول ارناس کا کوئی بھی لیڈر اس باب کے نصاب کو سمجھ نہ پایا ۔نیشنل
کانفرنس کی سنگ دلی کے شکارقدآور لیڈرمرحوم حاجی بلند خان نے ۲۰۰۲ء کے
اسمبلی انتخابات میں حلقہ انتخاب گول ارناس کی نشست پر ایک ایسے سیاسی
میزائل کا دھماکہ کر دکھایا کہ آج بھی گول میں کوئی اُن کے چنے ہوئے لیڈر
کوئی مات نہیں دے سکتا۔ مرحوم حاجی بلند خان نے اپنے مخالفوں کو یہ باور
کرایا کہ منڈیٹ حاصل کرنے کا مطلب کامیابی نہیں ،کامیابی تو ایک الگ بات ہے
اُس کیلئے زمینی سطح پر سیاسی کرئیر کی کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ کسی پارٹی سے
منڈیٹ حاصل کرنا۔لیکن نہ جانے گول کے مقامی لیڈر آج بھی عوامی منڈیٹ حاصل
کرنے کے بجائے پارٹی منڈیٹ کے پیچھے کیوں بھاگے جا رہے ہیں ۔
منڈیٹ کا یہ سلسلہ آج بھی بدستور جاری ہے ۔پارٹی منڈیٹ کے دیوانوں نے پارٹی
کو جس اونچائی سے زمین پرپٹخا ہے کہ اب پارٹی کا حلقہ میں وجود زمین بوس
ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔حاجی بلند خان کے نیشنل کانفرنس سے چلے جانے کے بعد
نیشنل کانفرنس کا حلقہ میں جس قدر آپریشن ہو ا قابل ِ رحم ہے ۔بغاوت اور
آپسی رسہ کشی کا یہ سلسلہ اسمبلی انتخابات ۲۰۰۸ ء میں بھی کچھ اسی طرح
سامنے آیاکہ نیشنل کانفرنس جو پہلے ہی کمزور ہو چکی تھی اب دھڑا بندی کا
شکا ر بھی ہوگئی ۔۲۰۰۸ء میں نیشنل کانفرنس کے مانے جانے لیڈر عبدالوحید
شان کے سیاسی ہتھکنڈوں کو پچھاڑتے ہوئے منڈیٹ حاصل کرنے میں ایک بیروکریٹ
غلام قادر مغل نے بازی مار لی اور اس طرح سے غلام قادر مغل نے حلقہ انتخاب
گول ارناس میں ایک نئی نیشنل کانفرنس کو جنم دیا جبکہ عبدالوحید شان کے
حامیوں کو اس کا بیحد صدمہ ہوا اور وہ پارٹی چھوڑ کر طرح طرح کے خانوں میں
جا بیٹھے کیونکہ اب پارٹی میں عبدالوحید شان کے حامیوں کی کوئی قد ر وقیمت
نہ رہی اب تو یہاں غلام قادر مغل والی نیشنل کانفرنس کے حامیوں کی طوطی
بولنے لگی۔نیشنل کانفرنس کی دھڑا بندی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غلام
قادر مغل کی نئی جنم لینے والی نیشنل کانفرنس میں پرانے کارکنان یا یوں
کہیے کہ عبدالوحید شان کے حامیوں کو خاطر نظر لانے میں کوئی توجہ نہیں دی
بلکہ مغرروی کا نشہ سر چڑھ بول رہا تھا کہ اب کے جیت ہماری جھولی میں ہوگی۔
عبدالو حیدشان کے حامیوں نے نئی جنم شدہ غلام قادر والی نیشنل کانفرنس کے
نئے کارکنوں کے راویئے سے کافی بدظن ہوکر اپنے اُصلوں کا قلعہ توڑ کرکسی
ایک فرد یا گروپ سے سیاسی انتقام کی خاطر اُسی پارٹی کیخلاف بغاوت کا اعلان
کیا جس پارٹی میں انھوں نے اپنی جوانیاں کھپائی تھیں ۔کچھ لوگوں کا ماننا
ہے یہ سب کرنے کیلئے عبدالوحید شان کا اپنی حامیوں کو اشارہ تھا کہ غلام
قادر والی نئی نیشنل کانفرنس سے انتقام لینے کا یہ واحد راستہ ہے کہ پارٹی
کیخلاف بغاوت کا اعلان جنگ کر دیا جائے گو کہ خود عبدالوحید شان لوگوں کی
نظروں میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ ہی جڑے رہے لیکن اُن کے حامیوں کا رموٹ
کنٹرول اُن کے پاس ہی تھا وہ جب مرضی رمورٹ اٹھا کر اپنے حامیوں کو گھومتا
تھا اور آج بھی ۔ اُس دور میں یہ خبریں بھی سننے کو ملی کہ عبدالوحید شان
اور اُس کے حامیوں نے غلام قادر مغل کی نئی بننے والی نیشنل کانفرنس سے
انتقام لینے کیلئے اندورنی طور پر اپنے ماضی کے سیاسی دوست مرحوم حاجی بلند
خان کے فرزند چوہدری اعجاز احمد خان سے ہاتھ ملایا اور اُسے اچھا خاصہ ووٹ
دلا کر غلام قادر کی نئی جنم لینے والی نیشنل کانفر نس کو جوان ہونے سے
پہلے ہی نیست و نابود کر کے ہی دم لیا۔جبکہ غلام قادر مغل کی نیشنل کانفرنس
کو اچھا خاصہ ووٹ حاصل کرنے کے باجود بھی میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور اس
طرح سے ہر اسمبلی سیشن میں منڈیٹ کے ان دیوانوں نے عوامی اُمنگوں کا قاتل
عام کیا۔
کس طرح سے عوامی آرزؤں اور اُمنگوں پر سیاست دانوں کے قاتلانہ حملے ہوتے
ہیں اس کی ایک کڑی پیش ہے ۔۲۰۰۸ ء کے اسمبلی انتخاب میں غلام قادر مغل کی
نئی جنم لینی والی نیشنل کانفرنس نے پہلے سے ہی اپنی جیت کا اعلان کر کے
حلقہ میں ایسا ماحول برپا کیا تھا کہ ہر کوئی یہ سوچتا تھا کہ واقعی جیت
غلام قادر مغل والی نیشنل کانفرنس کی ہی ہوگی ۔نتائج سے پہلے ہی جیت کے جشن
منانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ محض دیوانگی تھی بلکہ انتخابی
ریلیوں کے دوران عوامی جم غفیر کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور ہو
جاتا تھا کہ واقعی جیت غلام قادر مغل والی نیشنل کانفرنس کی ہی ہو گی لیکن
نتائج آنے پر یہ سب اس کے برعکس ثابت ہوا کیونکہ غلام قادر مغل والی نیشنل
کانفر نس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ……شکر ہے کہ غلام قادر مغل کے حامیوں
نے نتائج آنے سے قبل ہی اپنی جیت کا جشن منایا تھا ورنہ نا جانے کتنے
حامیوں کا دم گھٹ جاتا اور جان بچی لاکھوں پائے کا سامنا کرنا پڑتا۔ گو کہ
غلام قادر مغل والی نیشنل کانفرنس جیت حاصل کرنے میں ناکام رہی لیکن اچھے
خاصے ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہی جس پر غلام قادر مغل کے حامیوں نے
دم گھٹ کر مر جانے کے بجائے نیشنل کانفرنس کی سرکار میں رہ کر کچھ کرنے
کیلئے جینے کو ترجیح دی لیکن شومئی قسمت کہ غلام قادر مغل نے اچھے خاصے ووٹ
حاصل کرنے کے باجود بھی اپنے حامیوں اور اپنے ۱۳۰۰۰ ہزار سے زائد ووٹران کی
رہنمائی کرنے سے منہ موڑ لیا جس پر اُس کے حامی اُس سے خفا ہو کر سیاست
کرنے کے بجائے اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہو گئے اور اس طرح سے چند دنوں
کے سیاست دانوں کی حالت خاتون خانہ جیسی بن گئی۔
۲۰۰۸ء کے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک
عبدالوحید شان کی پرانی نیشنل کانفرنس اور ایک غلام قادر مغل کی نئی نیشنل
کانفرنس ۔۲۰۰۸ ء میں انتخابات کے دوران پرانی نیشنل کانفرنس یعنی
عبدالوحید شان والی نیشنل کانفرنس نے جس طرح سے ظاہری طور پر نیشنل کانفرنس
کو ہی ساتھ دیابلکہ اندورنی طور پر انھوں نئی جنم لینی والی نیشنل کانفرنس
سے سیاسی انتقام لینے کا محاذ قائم رکھا اتنا کچھ کرنے کے باجود بھی منجھے
ہوئے سیاست دان عبدالوحیدن شان نے نیشنل کانفرنس سے اپنا ناطہ نہیں توڑا
بلکہ نیشنل کانفرنس سے جڑے رہنے کو ترجیح دی۔جہاں ہائی کمان نے ۲۰۰۸ ء
میں این سی کے پرانے لیڈر عبدالوحید شان کو منڈیٹ دینے کے بجائے مغل کو
منڈیٹ دیکر نئی نیشنل کانفرنس کا وجود عمل میں لایا وہیں عبدالوحید شان کا
پارٹی کے ساتھ جڑے رہنے کا کسی حد تک یہ مقصد بھی تھا کہ ہو سکتا۲۰۱۴ ء
میں پھر سے میرے دور کا آغاز ہوجائے کیونکہ ہائی کمان کو میرے علاوہ کوئی
لیڈر ہے بھی نہیں اور آسانی سے منڈیٹ میرے جھولی میں آسکتا ہے ۔کیونکہ نئی
جنم لینے والی نیشنل کانفرنس کے غلام قادر مغل نے اپنے ووٹروں کی نمائندگی
کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا یہی وجہ ہے کہ عبدالوحید شان کو اسمبلی
انتخابات ۲۰۱۴ء میں منڈیٹ ملنے کے آثار نظر آ رہے تھے۔ لیکن اپنے ہی گراتے
ہیں نشیمن پہ بجلیاں کے مصداق عبدالوحید شان کے اپنے ہی کنبہ کی ایک دختر
نے منڈیٹ لینے میں بازی ماری اور اس طرح سے عبدالوحید شان کی منڈیٹ کے تئیں
دکھتی رگ اور بھی زیادہ دُکھنی لگی ۔یہاں یہ سوال بھی اُبھر آتا ہے کہ کیا
غلام قادر مغل نے سیاست کرنا چھوڑ دیا تھا یا عوام کی رہبری کرنا؟ یہ راز
اُس وقت کھل کر سامنے آگیاکہ غلام قادر مغل نے سیاست تو نہیں چھوڑی بلکہ
اپنی سیاست کا انداز بدلا تھا کیونکہ اب اُسے بھی معلوم ہو چکا تھا کہ
سیاست میں آکر یہ لازمی نہیں کہ یہاں حقیقی معنوں میں عوامی کی نمائندگی کی
جائے ایسا کرنا تو گھاٹے کا سودا ہے ،یہ عوامی نمائندگی، رہبری،رہنمائی،
خدمت ِخلق سب بیکار یہاں تو مفاد کی سیاست کام آتی ہے اور اس طرح سے عوامی
آرزؤں اور اُمنگوں کو خاطر ِ نظر میں نہ لاتے ہوئے غلام قادر مغل نے۲۰۱۴
میں نیشنل کانفرنس سے اپنا ناطہ توڑا اور عوامی اُمیدوں کو خاطر میں نہ
لاتے ہوئے اعلانیہ طوربھاجپا کی مہم چلانی شروع کر دی۔ یہاں غلام قادر مغل
سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آخر آپ نے اتنے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنے
ووٹران کی نمائندگی کیوں نہیں کی؟؟ …………تو اُن کا یہ کہنا کہ مجھے سیاست
میں آنے کا کوئی شوق نہیں مجھے تو لوگوں نے سیاست میں آنے کیلئے مجبور کیا
تھا جس وجہ سے میں نے سیاست میں قدم رکھا تھا ۔ میں سیاست میں اپنی مرضی سے
نہیں آیا بلکہ لوگوں کی مرضی سے آیا ہوں ۔لیکن یہاں یہ بات قابل ِ غور ہے
کہ کیاغلام قادر مغل نے عوام سے پوچھ کر پارٹی تبدیل کی ؟ کیا انھوں نے
بھاجپا میں جانے کیلئے عوام سے رائے لی ؟تو جواب نفی میں ہوگا کیونکہ
بھاجپا میں جانے کا فیصلہ اُن کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا نہ کہ عوام کا فیصلہ
بقول محسنؔ…………
چل پڑا ہوں میں زمانے کے اُصولوں پہ محسن
میں اب اپنی ہی باتوں سے مکر جاتا ہوں
!!!
یہی وجہ ہے کہ سیاست دانوں کے یہ راویئے اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ
یہاں کے سیاست دانوں نے کسی بھی وقت عوام کے تئیں سنجیدگی نہیں برتی بلکہ
سب منڈیٹ اور مفاد کی سیاست میں مشغول رہے اور حلقہ کو تعمیر و ترقی کے
جھوٹے خواب دکھا کر ذات پات اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھایا۔
۲۰۱۴ء کے اسمبلی انتخاب میں نیشنل کانفرنس ہائی کمان نے ڈاکٹر شمشاد شان
کو منڈیٹ سے نوازہ جبکہ ہائی کمان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ڈاکٹر شمشاد شان
یہاں سے کامیاب نہیں ہو سکتی ہے اور اُس پر طرہ یہ بھی کہ نیشنل کانفرنس کے
چند کارکنان نے ہائی کمان کے سامنے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ حلقہ انتخاب
گول ارناس سے ڈاکٹر شمشاد شان کو منڈیٹ دینے کے بجائے نیشنل کانفرنس کے
پرانے لیڈرکلدیب راج دوبے عرف منگو شاہ کو دیا جائے۔لیکن کارکنان کا یہ
مطالبہ ہائی کمان کو نہیں بہایا کیونکہ یہاں اس بات کو لیکر ہائی کمان بھی
حیرانگی کے سمندر میں ڈوبی کہ غلام قادر مغل جس کو ۲۰۰۸ء کے اسمبلی انتخاب
میں ہائی نے منڈیٹ سے نوازا تھا نے خود منڈیٹ حاصل کرنے کے بجائے این سی کے
پرانے لیڈرکلدیپ راج دوبے عرف منگو شاہ کو منڈیٹ دینے کا مطالبہ کر ڈالا
جسے ہائی کمان نے کافی مضحکہ خیز اور کی بچگانہ حرکت سے تعبیر کرتے ہوئے
ٹھکرا دیا۔ اور انھوں نے ہار جیت کی فکر کئے بغیر ڈاکٹر شمشاد شان کو ہی
منڈیٹ سے نوازہ ۔کلدیپ راج دوبے عرف (منگو شاہ) کو منڈیٹ دینے کا مطالبہ جب
ہائی کمان نے ٹھکرایا تو یہاں سے حلقہ میں ایک اور نیشنل کانفرنس نے جنم
لیتے لیتے دم توتوڑا لیکن بھاجپا لہر کا آغاز ہوہی گیا ۔ ہائی کمان کے
منڈیٹ فیصلے سے بد ظن ہو کرکلدیپ راج دوبے عرف( منگو شاہ) اور اُس کے
حامیوں نے متحد ہونے کے بجائے آر ایس ایس کی قائم شدہ بھاجپا کو حلقہ میں
مضبوط کرنے پر کمر کس لیااور بھاجپا مہم کو حلقہ میں اس قدر تیز کیا کہ امن
پسندوں نے تباہی کی پیشن گویاں دینی شروع کر دی ۔ اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ
شکر ہے کہ اُن کی یہ پیشن گویاں حقیقت ہوتے ہوتے بچ گئیں ورنہ آج کھاناپینا،
پہننا ،اوڑھنا،بچھونا،ہنسنا، رونا، پڑھناسب حکومت کی مرضی کے مطابق کرنا
پڑتا۔کیونکہ جس طرح سے بھاجپا نے ریاست میں فرقہ پرستی کا ماحول گرما رکھا
ہے اس کا احترام تو ہمارے یہاں بھی لازمی ہوجا تا۔ اقلیتی طبقہ کو زیر کرنے
کیلئے بھاجپا نے جس قدر اپنی فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کاثبوت دیا ہے سب
ہمارے سامنے عیاں ہے اس سب کو سمجھانے کی شائد ضرورت نہیں!کیونکہ ریاست کا
ہر فرد بھاجپا کی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کے اس ماحول میں خود کو غیر
محفوظ محسوس کر رہا ہے اور وہ لوگ بھی اُسی کشتی میں سوار ہیں جنھوں نے
بھاجپا کوپروان چڑھا کر ایسا کرنے کیلئے موقعہ فراہم کیا ایسے لوگوں کو
تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ماضی میں اور دور ِ حاضر میں آر ایس ایس کے
اشاروں پر چلنے والی بھاجپا نے ہمیشہ فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کوفروغ دیا
اور ایسے ماحول میں جب اِن کی پالیسی سے ہر کو ئی واقف ہے انہیں ساتھ دینا
آنی والی صدیوں کی مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
نیشنل کانفرنس جو ماضی میں گول کی ایک نمائندہ پارٹی کے نام سے مشہور تھی
آج منڈیٹ کے دیوانوں نے اس کا حلقہ میں جو حشر کیا ہے قابل ِ رحم ہے۔موجودہ
دور میں نیشنل کانفر نس گول کی یہ حالت ہے کہ جن لوگوں نے ماضی میں پارٹی
کیخلاف بغاوت کی وہی آج حلقہ میں پارٹی کو مضبوط بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں
۔اس وقت نیشنل کانفرنس کوحلقہ میں مضبوطی بخشنے کیلئے چند ایک لوگ زمینی
سطح پر کام کر رہے ہیں لیکن جونہی انتخابات نزدیک آئینگے تو جن لوگوں نے
زمینی سطح پر کام کیا ہو انہیں منڈیٹ ملنے کے بجائے کسی ایسے شخص کو منڈیٹ
سے نوازہ جائیگاکہ جس نے ماضی میں پارٹی کیساتھ بغاوت کی ہو ایسا ہی کچھ آج
تک چلا آ رہا ہے اور ایسا ہی کچھ پلان زمینی سطح پر اس وقت دیکھنے کو مل
رہا ہے ۔ ایسے ماحول پر نظر دوڑاتے ہوئے یہ بات صاف طور پر عیاں ہے کہ ہائی
کمان بھی اس سب ڈرامہ بازی کو لیکر سنجیدہ نہیں ہے اُن کے سامنے گول کے این
سی لیڈران کی حیثیت ایک گاہک جیسی ہے جو کہ انتخابات میں ہائی کمان سے ٹکٹ
خریدتے ہیں اور ٹکٹ کے عوض میں ہائی کمان کو جہاں سے زیادہ روکھڑا(پیسہ)
ملے گا اُسی کو ٹکٹ دیا جاتاہے ۔انہیں عوام سے کیا لینا جب یہاں کے مقامی
لیڈروں کو عوام کی کوئی فکر نہیں تو ہم اپنی ٹکٹ کا بہاؤ خراب کیوں کریں
ہمیں تو ٹکٹ کے عوض اچھے خاصے دام جو مل رہے ہیں رہی بات عوام کی تواُس
کابابائے آدم ہی نرالا ہے یہ کب سدھری تھی جو اب سدھرے گی ۔انہیں تو اپنے
لیڈروں کی مخالفت ہر گز برداشت نہیں! ان کا مستقبل ہی برباد ہو جائے لیکن
لیڈر کو حق تلفی کرنے میں کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے……لیکن………………!!
خدا نے آج تک اُ س قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس قوم کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
|