سیاہ وردی میں اجلے لوگ
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
پاکستان شہیدوں اورسرفروشوں کی سرزمین ہے،
اس کی آبیاری ہمارے باپ دادا کے مقدس خون سے ہوئی ہے ۔ پاکستانیوں کو موت
سے ڈر نہیں لگتا ، جو لوگ شوق شہادت سے سرشارہوں انہیں شکست نہیں دی جاسکتی
۔ جس طرح قیام پاکستان کیلئے جام شہادت نوش کرنیوالے ہمارے سروں کاتاج ہیں
اس طرح دفاع وطن اور استحکام پاکستان کیلئے جان قربان کرنیوالے بھی
ہماراسرمایہ افتخار ہیں۔ راہ حق میں شہادت کی بیش قیمت سعادت اﷲ تعالیٰ کی
خاص رحمت اور اچھی قسمت سے ملتی ہے۔ہمارے شہید اورغازی ہمارے سچے محسن
اورمحبوب ہیں۔ان کی شجاعت اورشہادت کی پرجوش داستانیں قیامت تک دہرائی جاتی
رہیں گی۔ اے پی ایس پشاورمیں ہونیوالے اندوہناک سانحہ کے بعد سیاسی ودفاعی
قیادت نے متفقہ طورپر ایک نیشنل ایکشن پلان بنایامگر بدعنوان سیاستدان
احتساب اور انجام کے ڈر اس کی راہ میں دیوار بن گئے۔ایک فردواحدڈاکٹرعاصم
اوراس کی سرپرستی کرنیوالی بااثرسیاسی شخصیات کوبچانے کیلئے بدعنوان
سیاستدان متحدہوگئے ۔ پیپلزپارٹی نے وفاق سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کی ملی
بھگت سے رینجرز کے اختیارات پرشب خون مارتے ہوئے شہرقائدؒ کودوبارہ کشت
وخون کی آگ میں جھونک دیا۔سیاستدان چوری اورسینہ زوری کے مصداق سکیورٹی
فورسزکی قربانیوں کامذاق اڑاتے ہیں۔سیاستدان ایک دوسرے کااحتساب نہیں
کرسکتے انہیں رینجرز کے سپردکیا جائے۔ منتخب ایوانوں دندناتے کئی میرجعفر
اورمیرصادق دہشت گردوں سے بڑاخطرہ ہیں۔ اے پی ایس پشاور کے بچوں کی شہادت
نے پاکستان کی سیاسی ودفاعی قیادت کوجھنجوڑدیا مگرسیاسی قیادت پھرسوگئی۔
ہمارے جانبازمحافظ جاگ اوربزدل دہشت گرد بھاگ رہے ہیں مگرہمار ی فوج
اورپولیس کے سرفروش جوان سرزمین پاک سے ان چوہوں کاصفایاکرنے تک چین سے
نہیں بیٹھیں گے۔
شہیدسانجھے ہوتے ہیں مگرہم نے شہداء کوبھی تقسیم کردیا ہے ۔ کسی انسان کی
قدروقیمت اوراہمیت دوسرے سے کم نہیں ہے ۔خاکی وردی سے سیاہ شرٹ اورخاکی
پینٹ والے یونیفارم تک،ہماری سکیورٹی فورسز ہمارابیش قیمت اثاثہ ہیں۔ تحریک
قیام پاکستان کے گمنام شہیدوں،بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کی پاداش میں
سزائے موت پانیوالے شہداء ،بھارتی درندگی کانشانہ بننے والے ہزاروں نہتے
کشمیری شہیدوں اورڈرون حملوں کے نتیجہ میں معصوم بچوں سمیت جوبیگناہ مسلمان
شہیدہوئے ان سمیت ملک عزیز کا دفاع اورشرپسندوں کامقابلہ کرتے ہوئے جام
شہادت نوش کرنیوالے فوج ،رینجرز،پولیس اورایف سی کے آفیسرزاورجوان ہماری
قومی تاریخ کے جلی عنوان ہیں۔سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پرحملے کے دوران
لاہورمیں ٹریفک وارڈنز بھی شہیدہوئے ، طیب حفیظ چیمہ ان کابھی یوم شہادت
مناتے ہیں ۔ پنجاب رینجرز کے ترجمان نے بتایا ورکنگ باؤنڈری پر دشمن کاڈٹ
کرمقابلہ کرنے والے نڈر رینجرز کامورال بلند اوران میں پاکستانیت کا جذبہ
بیدارکرنے کاکریڈٹ رینجرز پنجاب کے ڈی جی میجرجنرل عمرفاروق برکی کو جاتا
ہے۔''جہاں ڈینجر وہاں رینجر'' میجرجنرل عمرفاروق برکی کاماٹو ہے۔جس کانام''
عمرفاروق'' ہوگایقینانڈر،قوی اوردبنگ ہونااس کی فطرت میں ہے ۔ ڈی جی رینجرز
میجرجنرل عمرفاروق برکی نے پنجاب رینجرز کومزید منظم اورمتحرک بنانے کیلئے
جودوررس اصلاحات کی ہیں ان سے متعلق آئندہ کسی وقت سپردقرطاس کروں گا ۔
دہشت گرد اورسماج دشمن عناصر کسی کے دوست نہیں ہیں ،ان کی طرف سے ہماری
فوج،رینجرز،پولیس اورایف سی یعنی چاروں اداروں کے اہلکاروں پرکئی بارحملے
ہوئے جبکہ دہشت گردوں کامقابلہ کرتے ہوئے شہیدہونیوالے ہمارے محافظوں کے
سینوں پرگولیاں پیوست ہوئی ہیں کبھی کسی کی پیٹھ پرگولی کانشان نہیں دیکھا
گیا۔حکمرانوں اورسیاستدانوں کے دورے ملتوی ہوجاتے ہیں مگر پولیس اہلکاروں
نے کبھی ڈیوٹی سے انکار نہیں کیا۔میں نے ملک یعقوب اعوان سمیت سیاہ شرٹ میں
ملبوس کئی اجلے اورسلجھے لوگ بھی دیکھے ہیں اور کئی بارسیاہ شرٹ کوخون
آلودبھی دیکھا ہے۔پولیس کے شہداء بھی قومی پرچم میں دفن ہوتے ہیں۔ہمارے
جانبازکبھی سبزہلالی پرچم کوسرنگوں نہیں ہونے دیں گے۔دہشت گرد کئی بارجان
بچانے کیلئے فرارہوتے دیکھے گئے مگرہمار ے جانباز مرتے دم تک میدان نہیں
چھوڑتے ۔ اگردہشت گردوں کے حملے میں دس پولیس اہلکار شہیدہوں تو وہاں بیس
اورآجاتے ہیں۔بارش ہوآندھی یاطوفان ہماری سکیورٹی فورسز کے جوان ہروقت دشمن
کے مقابل سربکف ہوتے ہیں ۔16دسمبر کویوم شہداء قراردیا جائے اورتمام
سکیورٹی فورسز 16دسمبر کواپنے اپنے شہیدوں سمیت مقبوضہ کشمیر اوراے پی ایس
پشاور کے شہداء کی یادیں تازہ اوران کے بلندی درجات کیلئے خصوصی دعائیہ
تقریبات کااہتمام کریں ۔اے پی ایس پشاور کے شہیدبچوں کویادکرنے کے ساتھ
ساتھ ہمیں ان گمنام بچوں کیلئے بھی دست دعابلندکرناہوں گے اوران کے ورثا کی
اشک شوئی کرناہوگی جوڈرون حملوں کے نتیجہ میں شہید ہوئے تھے ۔
پچھلے دنوں لاہورسمیت پنجاب بھر میں پولیس کے ہزاروں شہداء کادن بھرپورجوش
وجذبہ کے ساتھ منایاگیا۔لاہورمیں انتھک سی سی پی او کیپٹن (ر)محمدامین وینس
کی طرف سے 270شہداء کی یادمیں ایک پروقارتقریب منعقد کی گئی جس کے انتظامات
کاکریڈٹ متحرک ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹرحیدراشرف کوجاتا ہے۔شہداء کی
یادگارپرپھولوں کی چادرر کھنے کے ساتھ ساتھ انہیں سلامی دی گئی جبکہ شہداء
کے ورثا کی بھرپورپذیرائی کی گئی۔لاہور کے زیرک سی سی پی او کیپٹن (ر)محمدامین
، پروفیشنل ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹرحیدراشرف،جہاندیدہ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن
سلطان احمدچودھری ،پرعزم ایس ایس پی انوسٹی گیشن حسن مشتاق سکھیرا ،پرجوش
اور بہترین منتظم ایس ایس پی ڈسپلن سہیل احمد سکھیرا، دبنگ ایس ایس پی سی
آئی اے عمرورک،لاہورکے مستعدسی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ ، سمارٹ ایس ایس پی
اطہراسماعیل ، باوفااورباصفا طارق محمود گجر ،منصورقمر،عاطف حیات ،اقبال
شاہ ،ملک یعقوب اعوان،عتیق ڈوگر اورشہداء کے ورثا سمیت سیاست اورصحافت کے
شعبہ سے تعلق رکھنے والے اہم افراد شریک تھے۔آئی جی پنجاب مشتاق
احمدسکھیراشہداء پولیس کے سلسلہ میں کسی تقریب میں نظرنہیں آئے ۔مشتاق
سکھیرا کی ترجیحات وہ جانیں یاان کے دفترمیں کسی بڑی سفارش کے نتیجہ میں
مسلسل کئی برسوں سے براجمان خاتون ڈی پی آرکیونکہ شہداء پولیس کے حوالے سے
آئی جی پنجاب کا بیان تک نہیں آیا۔اگرمشتاق احمدسکھیراپنجاب پولیس کی
مضبوطی کیلئے اپناکرداراداکرتے تونتیجتاً ان کے منصب کوطاقت ملتی ۔سب
یادرکھیں جودوسروں کاراستہ روکتے ہیں ان کی اپنی منزل بھی کھوجاتی ہے ۔
مجھے پولیس شہداء کی یادمیں ہونیوالی تقریب میں پنجاب پولیس کے سابقہ نیک
نام آئی جی حاجی حبیب الرحمن ،سابق آئی جی طارق سلیم ڈوگر ،سابق سی سی پی
اولاہوراسلم خان ترین،قابل ڈی آئی جی جواد احمد ڈوگر ،دوراندیش اورمعاملہ
فہم ڈی آئی جی اختر عمر حیات لالیکا اور کردار کے غازی محمدعلی نیکوکارا کی
کمی شدت سے محسو س ہوئی۔مہذب معاشروں میں اس قسم کی تقریبات میں سابقہ
آفیسرز کوبھی مدعو کیاجاتا ہے ۔جوآ ج عہدوں پربراجمان ہیں کل انہیں بھی
سبکدوش ہوناہے ۔اگریہ آفیسرزآج تعمیری روایات کی بنیادرکھیں گے توکل انہیں
بھی تقریبات میں بلایا جائے گااورعزت دی جائے گی۔ماضی اورحال کو آپس میں
جوڑے بغیرمستقبل روشن اورمحفوظ نہیں ہوسکتا۔آئی جی سے سی سی پی او،آرپی
او،سی پی اواورڈی پی اوحضرات تک سب اپنی اپنی سطح پرہرسال ایک مقررہ دن
اپنے سرکاری گھر میں ڈنر کااہتمام کیاکریں جس میں وہ اپنے اپنے سابقہ ہم
منصب آفیسرز کی میزبانی کریں اوران سے سیکھیں۔دوران تربیت بھی سابقہ
مگرتجربہ کار آفیسرز کونوجوان آفیسرزاوراہلکاروں کے ساتھ براہ راست گفتگو
کرنے کیلئے پلیٹ فارم مہیاکیاجائے جہاں وہ انہیں اپنے تجربات اورمشاہدات سے
آگاہ کریں۔سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس اورلاہور کے چیف ایڈمن
آفیسر عمرورک لاہور کے ایڈمن آفیسرز کے ماہانہ سیشن میں سابق آئی جی حاجی
حبیب الرحمن سمیت دوسرے ریٹائرڈ آفیسرز کوبھی خطاب کی ضرور دعوت دیں ۔
سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس اپنے فرض کی بجاآوری کیلئے جس منصب
پربھی بیٹھے وہاں انہوں نے تعمیری روایات اوراصلاحات کوفروغ دیا ۔
لاہورپولیس کے کپتان اوران کے ٹیم ممبرز پولیس فورس کوجدیدخطوط
پراستوارکرنے کے خواہاں ہیں ،اگروہ اپنے نیک ارادوں میں کامیاب ہوگئے تو
پولیس شہریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف سروسزبھی فراہم کرے گی
۔ایڈیشنل آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) محمد امین وینس اپنے پیشہ ورانہ امور کو
بڑی باریک بینی سے دیکھتے ہیں،ان کے ویژن سے پنجاب بھرکی پولیس
مستفیدہوسکتی ہے لیکن اس کیلئے ان کے آئی جی بننے کاانتظارکرناہوگا ۔ مجھے
علم ہے محمدامین وینس کے پاس ابھی مزیدکئی آئیڈیاز ہیں جوپولیس کلچر کی
کایاپلٹ سکتے ہیں۔ان کی دوررس اصلاحات کو لاہوریاپنجاب تک محدودرکھنے کی
بجائے سندھ سمیت دوسرے صوبوں میں بھی آزمایا جائے۔جب چاروں صوبوں میں پولیس
کی وردی اوران کا قانون ایک ہے توپھرپالیسیاں مختلف کیوں ہیں ۔ سی سی پی
اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس نے مجرمان کی مانیٹرنگ کیلئے ایک جامعہ
پروگرام پرکام شروع کردیا ہے ،اس ضمن میں راقم نے بھی اپنے ایک کالم میں
کچھ تجاویز دی تھیں ۔پولیس میں تعمیری تجاویزکوسنجیدگی سے لیاجاناخوش آئند
ہے ۔ سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس اورڈی آئی جی آپریشن
ڈاکٹرحیدراشرف آئی ٹی ماہرین سے مشاورت کے بعدایک خصوصی ویب سائڈ بنوائیں
جس پرتمام مجرمان اورملزمان کی تصاویرسمیت ان کا ریکارڈ محفوظ اوردستیاب
ہو،کوئی بھی عام شہری اس ویب سائڈ پرکسی بھی دوسرے شہری کے قومی شناختی
کارڈکانمبر انٹرکرے تواس کامجرمانہ ریکارڈ سکرین پرآجائے اورجولوگ مجرمانہ
سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے یقینا ان کاکوئی ریکارڈ نہیں ہوگا اوریوں
لوگ ایک دوسرے کو قرض حسنہ د یتے یاکاروبار ی پارٹنر شپ کر تے وقت غلطی
اوردھوکے سے محفوظ رہیں گے اوراس سے عدلیہ اور پولیس پربھی کام کے بوجھ میں
خاصی کمی آئے گی ۔ محمدامین وینس اورڈاکٹرحیدراشرف عادی مجرموں کاڈی این اے
بنک بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے اہلکاروں کابلڈبنک بھی ضرور بنائیں جوضرورت کے
وقت زمینی وآسمانی آفات یاحادثات میں زخمی ہونیوالے افراد کواپنے خون کے
عطیات دیں ،اس مثبت اقدام سے جہاں پولیس کے جوانوں میں مزید جذبہ
ایثارپیداہوگاوہاں پولیس رویوں کیخلاف شہریوں کی شکایات میں خاطرخواہ کمی
آئے گی ۔ہم لوگ اپنے سکیورٹی اداروں پرتنقید اوران کی توہین کرتے وقت ان کی
قربانیاں کیوں بھول جاتے ہیں۔ خامیوں کے باوجود ہمارے پاس ان کاکوئی متبادل
نہیں۔اگرسیاستدانوں اوراداروں کے درمیان موازنہ کیا جائے توریاست سیاست کے
بغیربھی اپناوجودبرقرار رکھ سکتی ہے مگراداروں کے بغیر نہیں۔اندرونی
وبیرونی دشمنوں کامقابلہ کرنے کیلئے ہمیں منتخب ایوانوں نہیں سکیورٹی
اداروں کی ضرورت ہے۔ |
|