جنرل عاصم سلیم باجوہ نے واقعی ایک چومکھی جنگ لڑی
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک چومکھی جنگ لڑی، میڈیا، دہشت گردوں کے خوف میںمبتلا تھا یا ان کا حلیف تھا، ٹی وی چینل دہشت گردوں کے لائیو انٹرویو نشر کر رہے تھے، بھارت اور مغربی دنیا پاک فوج پر جو الزم تراشی کرتی ، ہمارا میڈیا اس میںنمک مرچ لگا کر اسے دو آتشہ کر دیتا، مذہبی طبقے کھلم کھلا دہشت گردوں کے حامی اور سیاسی پارٹیاں بشمول حکمران جماعتیں بھی دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ان دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا جنہوں نے دو مرتبہ جنرل مشرف پر قاتلانہ حملہ کیا ۔سول سوسائٹی کا بڑا طبقہ فوج کو بے نقط سنا رہا تھا۔ اس پس منظر میں جنرل راحیل شریف منظر پر ابھرے، اس مٹی میں ان کے بڑے بھائی کا جوان، گرم خون بھی شامل تھا۔جنرل راحیل اورجنرل باجوہ میں قربت کے تعلقات تھے، ا س سے جنرل باجوہ کا کام مزید آسان ہو گیا۔ ایک اور ایک مل کر گیارہ ہو گئے |
|
اس وقت پاک اس وقت فوج میں اکیلے آرمی چیف
کا امیج بلند نہیں ہوا، کور کمانڈر کوئٹہ جنرل جنجوعہ نے بھی عزت کمائی، اس
وقت کور کمانڈر کراچی جنرل نوید اپنی دھاک بٹھاچکے ، پشاور کے سابق کور
کمانڈر جنرل ربانی جنہوں نے شمالی وزیرستان کی اوکھلی میں سر دیااور ان کا
بیٹا بھی اس محاذ پر شجاعت کی داستان رقم کر رہا تھا، ان کو بھی لوگوں نے
سر آنکھوں پر بٹھایا۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک چومکھی جنگ لڑی، میڈیا،
دہشت گردوں کے خوف میںمبتلا تھا یا ان کا حلیف تھا، ٹی وی چینل دہشت گردوں
کے لائیو انٹرویو نشر کر رہے تھے، بھارت اور مغربی دنیا پاک فوج پر جو الزم
تراشی کرتی ، ہمارا میڈیا اس میںنمک مرچ لگا کر اسے دو آتشہ کر دیتا،
مذہبی طبقے کھلم کھلا دہشت گردوں کے حامی اور سیاسی پارٹیاں بشمول حکمران
جماعتیں بھی دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ان دہشت گردوں کو ہیرو
بنا کر پیش کیا جاتا تھا جنہوں نے دو مرتبہ جنرل مشرف پر قاتلانہ حملہ کیا
۔سول سوسائٹی کا بڑا طبقہ فوج کو بے نقط سنا رہا تھا۔ اس پس منظر میں جنرل
راحیل شریف منظر پر ابھرے، اس مٹی میں ان کے بڑے بھائی کا جوان، گرم خون
بھی شامل تھا۔جنرل راحیل اورجنرل باجوہ میں قربت کے تعلقات تھے، ا س سے
جنرل باجوہ کا کام مزید آسان ہو گیا۔ ایک اور ایک مل کر گیارہ ہو گئے،
جنرل راحیل نے فوجی ہائی کمان کی تنظیم نو کی۔ وہ اپنے فیصلے بسرعت تمام کر
تے چلے گئے ، جب جنگ چھڑ چکی ہو تو پھر کسی کے احکامات کی ضرورت نہیں ہوتی،
دنیا کا کوئی آئین دفاع وطن کی جنگ میں فوج کے پائوں کی زنجیر نہیںبنتا۔
جنرل راحیل کے پہاڑ جیسے حوصلوں سے جنرل باجوہ شیر کی طرح گرجنے لگے،
انہوںنے لگی لپٹی رکھے بغیر فوج کا نقطہ نظر بیان کیا، انہوںنے ہر منفی
سوال سنا اور ہر سوال کا خندہ پیشانی سے مثبت جواب دیا، سوال کرنے والا ان
کے سامنے مطمئن ہو جاتا اور تنقید و تنقیص کی مزید گنجائش باقی نہیں رہتی۔
صاف گوئی اور کھرے لب و لہجے میں بات کرنے والا جنرل باجوہ بہت جلداپنی
حیثیت منوانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
آج کی دنیا میں سوشل میڈیا ،پروپیگنڈے کا نیا محاذ ہے، جنرل باجوہ نے اس
محاذ پر دنیا کی ہر فوج کے مقابلے میں پہل قدمی کی،ٹوئٹر پر ان کے چندفقرے
ملکی ا ور غیر ملکی میڈیا کی ہیڈ لائنیں بنے اور ٹی وی چینلز کے لئے بریکنگ
نیوز۔میڈیا کے بڑے بڑے ٹائی کونز اس پر ششدر رہ گئے۔یہ جنرل باجوہ کی
ٹیکنیک اور حکمت عملی تھی کہ امریکی میڈیا نے جنرل راحیل کو طاقتور تریں
جرنیل قرار دے ڈالا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ٹھوس کارکردگی کا
مظاہرہ کیا، افغانستان میں امریکہ اور اس کے نیٹو کے اتحادی جو جنگ بارہ
برس میں ہار گئے تھے، وہ جنرل راحیل نے ایک ڈیڑھ سال کے اندر جیت کر دکھا
دی، فاٹا کا ایک علاقہ سول انتظامیہ کے سپرد کیا جا چکا ہے۔ جنرل کیانی کے
دور میں سوات ا ور مالا کنڈ آپریشن میں بھی کیا تھامگر اسے بعد میں برقرار
نہ رکھا جا سکا، اس کی وجہ فوج نہیں،بلکہ سیاستدان تھے جو دہشت گردوں سے
مذاکرات کے حامی تھے ۔ اب تو وزیر اعظم نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ جو لوگ
مذاکرات کی زبان ہی نہیں سمجھتے تھے اور صرف گولی کی زبان میں بات کرتے تھے،
ان کے خلاف آپریشن ناگزیر ہو گیا۔ وزیر اعظم کو یہ احساس آرمی پبلک اسکول
میں ننھے پھولوں کے خون کی ندیاں بہنے پر ہوا۔یہ ایک قومی سانحہ تھا مگر
شکر کی بات یہ ہے کہ قوم اس کے بعد یک سو ہو گئی ، خواہ وقتی طور پر سہی!
اور فوج نے ایسا آپریشن شروع کیا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور
دنیا کی کوئی فوج ایسی جنگ میں قدم رکھنے سے ڈرتی تھی مگر پاک فوج کے گوشت
پوست کے جوان اور افسر ان پہاڑوں کی غاروں اور ان کی سنگلاخ چوٹیوں پر
بظاہر ناقابل تسخیر مورچوںسے ٹکر اگئے۔
جنرل باجوہ وہ شخص ہے جس نے پاک فوج کے اس آپریشن کی کامیابی کا ڈنکا
بجایا اور اقوام عالم کے منہ سے اس کے لئے توصیفی کلمات نکلوائے۔ پینسٹھ کی
جنگ میں پاکستان ا ور بھارت کا کوئی مقابلہ ہی نہ تھا، بھارت نے جارحیت کے
تمام فوائد اٹھائے مگر اس جنگ میں جسے بھارت اپنی فتح خیال کرتا ہے، اسے ہم
نے پراپیگنڈے کے محاذ پر شکست دے ڈالی مگر آج تو ہم نے ہر لحاظ سے جنگ جیت
لی ہے، اسے بھی شکست میں ڈھالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیامگر جنرل
باجوہ کے سامنے کسی کی دال نہ گلی۔ پراپیگنڈے کی دنیا میں آج تک ایک ہی
نام سامنے آیا ہے، وہ ہے گوئبلز کا جس کا نظریہ تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ
لوگ اسے سچ سمجھنے لگ جائیں مگر جنرل باجوہ نے پراپیگنڈے کی تاریخ میں ایک
نئے باب کاا ضافہ کیا ہے کہ سچ کو جھوٹ ثابت کرنے والوں کے منہ بند ہو گئے۔
ابلاغیات کے شعبے میں پراپیگنڈے پر جب بھی بات ہو گی تو بڑے بڑے محقق جنرل
باجوہ کی کامیاب حکمت عملی کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ |
|