غیر مسلموں کی نفرت اور اسلامی ممالک کا اتحاد

کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی گروپ کے مظابق امریکہ میں مسلمانوں سے نفرت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں نقاب پوش خواتین پر حملوں،مسجدوں کی بے حرمتی اورمسلمان بزنس پیشہ افراد کو جان سے مار دینے کی دھمکی جیسے واقعات عام ہو چکے ہیں ۔ امریکی مسلمانوں سے خائف ہیں اور انھیں ظالم قوم سمجھنے لگے ہیں اور ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے ۔ اسلام سے متعلق غیرمسلموں کی سوچ کا یہ انداز مسلمانوں کے لیے جہاں تکلیف دہ ہے وہیں امریکہ اور یورپ میں مقیم مسلمانوں کے لیے گھمبیر مسائل کو جنم دے رہا ہے ۔ ان حالات کے تناظر میں سعودی عرب نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو قابل تعریف بھی ہے اور قابل قدر بھی۔ سعودی عرب کی کوششوں سے چونتیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد تشکیل پایا ہے جو مسلمانوں کی تاریخ میں اتحاد کے تناظر میں اپنی مثال آپ ہے ۔ اک مدت سے اس خواہش کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ امت مسلمہ کا ایک ایسا مشترکہ پلیٹ فارم وجود میں آنا چاہیے جو داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی مذموم کاروائیوں کو کنٹرول کر سکے ۔ بالآخر سعودی کاوش سے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو اہے اور دنیا بھر سے چونتیس کے قریب اسلامی ممالک ایک چھتری تلے جمع ہو کر دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا عزم کر چکے ہیں ۔اس اتحاد کے پس پردہ مقاصد کی تفصیل بتاتے ہوے سعودی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف مربوط کاروائی کے لیے تشکیل دیا گیا ہے اور یہ اتحاد کسی بھی مسلم ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے سرگرم عمل ہو گا اور دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک اپنی بھر پور کوشش جاری رکھے گا۔ شنید ہے کہ پاکستان نے بھی اس اتحاد میں شمولیت کی تصدیق کر دی ہے اگرچہ کچھ دن پہلے تک پاکستان سے متعلق اس اتحاد میں شمولیت کے حوالے سے متضاد اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ تاہم اب صورتحال واضح ہو چکی ہے جبکہ پاکستان نے صورتحال کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ اس اتحاد کے مقاصد سے مکمل جانکاری حاصل کرنے کے بعد ہی تفصیلی وضاحت کرے گا کہ اس کا اس اتحاد کی سرگرمیوں میں کیا کردار ہو گا۔دوسری جانب امریکہ نے بھی اس اتحاد کو خوش آئند قرار دیا ہے اور اس تحاد کا کھلے دل سے خیرمقدم کیا ہے ۔ امریکہ نے امید ظاہر کی ہے کہ اس اتحاد کے نتیجے میں داعش اور اس قسم کی دیگر دہشت پسندانہ عزائم رکھنے والی تنظیموں کے ارادے خاک میں مل جائیں گے اور اس اتحاد کی بدولت دہشت گردوں کے گرد مزید گھیرا تنگ کیا جا سکے گا اور ان کے خاتمے میں خاطر خواہ کامیابی ملے گی۔

توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ پاکستان اک مدت سے دہشت گردی کا شکار ہے اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیزاور دیگر امن و امان کی بحالی پر مامور ادارے دن رات ایک کیے ہوے ہیں ۔ ان حالات میں اس قسم کے مسلم اتحاد کا وجود میں آنا پاکستان کے لیے نیک شگون ہے اور اک عرصہ سے تن تنہا اس مشکل صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف دہشت گردی کے شکار ملک کو جب چند ساتھیوں کی مدد بھی میسر ہو گی تو اس عفریت سے چھٹکارہ آسان ہو جائے گااور ان شیطانی قوتوں کا قلع قمع یقینی بن جائے گا۔ایک اور بات جو اس اتحاد کو لے کر باعث مسرت ہے یہ کہ پاکستان کی معروف مذہبی جماعتوں کے جید علما نے بھی اس اتحاد کے قیام کو خوش آمدید کہا ہے اور اس امر کا اظہار کیا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہے اور اس کی کاروایاں دہشت گردوں کے خاتمے میں معاون ثابت ہوں گی۔اگر دہشت گردی کے پس منظر میں عالمی منظر نامہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ غیر مسلم اقوام دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ یک زبان بھی ہیں اور اس فتنہ کو ختم کرنے کے لیے بظاہر بڑی متحرک دکھائی دیتی ہیں البتہ مسلمان ممالک اس قسم کے اتحاد کی عملی تصویر پیش کرنے سے قاصر دکھائی دے رہے تھے لیکن اب سعودی حکومت کی مخلصانہ کاوش کی بدولت مسلمان ممالک کے اتحاد کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے اور ہم پر امید ہیں کی یہ اتحاد مسلمان مماک کو مذید قریب لانے میں مدد گار ثابت ہو گا اور اس کا دائرا کار وسیع ہو کراقتصادی اور معاشی میدان تک پھیل جائے گا جو یقینی طور پر مسلمان ممالک بالخصوص پسماندہ اسلامی ملکوں کے لیے سود مند ہو گا۔
امید ہے کہ اس اتحاد کے نتیجے میں غیر مسلموں کی اس سوچ میں تبدیلی رونما ہو گی جو وہ مسلمانوں سے متعلق قائم کر چکے ہیں اور اس مذموم پراپیگنڈے میں بھی کمی واقع ہو گی جس کے تحت وہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر جب دنیا بھر کے اسلامی ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات میں مصروف ہو ں گے تو عالمی طاقتوں کو دہشت گردی کی کاروائیوں کو اسلامی ممالک کے کھاتے میں ڈالنے کے لیے بھی دقت کا سامنا کرنا پڑے گااور مسلمانوں کے بارے ان کی سوچ میں تبدیلی یقینی امر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اتحاد اپنی افادیت کے حوالے سے دوررس نتائج کا حامل ہے لیکن اس اتحاد میں ایران کا شامل نہ ہونا اس اتحاد کی تشکیل میں کمزوری کا ایک پہلو اجاگر کرتا ہے۔ اگر ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا جائے جو کہ تھوڑی سی کوشش سے ممکن ہے تو اس اتحاد کی پائیداری کی ضمانت دی جا سکتی ہے وگرنہ سازشی عناصر سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے سے مذید دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس اتحاد کی تشکیل سے جن ثمرات کی ہم توقع کر رہے ہیں ان میں صد فیصد کامیابی نہ مل سکے گی۔ تاہم ایک ایسے وقت میں جب پوری غیر مسلم برادری مسلمانوں کو شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اور مسلمانوں سے دوری کا رویہ اپنائے ہوے ہے اور حتیٰ کہ مسلمانوں سے قطع تعلق کے موڈ میں ہے سعودی عرب کا مسلمان ممالک کو اکٹھا کر کے دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہونے کا فیصلہ مسلم امہ کے لیے امید کی اک کرن ثابت ہو اہے ۔
abdulrazzaq choudhri
About the Author: abdulrazzaq choudhri Read More Articles by abdulrazzaq choudhri: 96 Articles with 60382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.