گیس کی لوڈشیڈنگ کے فوائد!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اگر عوام کی سوچ حکمرانوں جیسی ہوتی
تو وہ کب کے حکمران بن چکے ہوتے، اُن کی سوچ محدود ہے، وہ بس دو قدم آگے تک
ہی دیکھ سکتے ہیں، یہ تو حکمرانوں کی مہربانی ہے کہ وہ عوام کی رہنمائی کا
فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ دوسری طرف اپنی کم فہمی اور کوتاہ نگاہی کی وجہ سے
ہی عوام حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ہر تنقید کرنے والا خود کو دانشور اور
سامنے والے کو کم علم جانتا ہے۔ مگر عوام کو باور کرلینا چاہیے کہ حکمران
عوام سے زیادہ ذہین تھے تو انہیں حکمرانی نصیب ہوئی۔ حکمران جو اقدام کرتے
ہیں وہ نہایت سوچ سمجھ کر اور غور وفکر کے بعد کرتے ہیں، پہلے آئیڈیا تیار
ہوتا ہے، اس کی فیزیبلٹی بنتی ہے، اس کے نشیب وفراز کو پرکھا جاتا ہے، اس
کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیا جاتا ہے، پھر وہ بڑے صاحب کو پیش کیا
جاتا ہے، انہیں قائل کیا جاتا ہے اور آخر میں اس کی منظوری ہوتی ہے۔ اتنے
مراحل سے گزرنے والے منصوبے میں آخر کمی کہاں رہ سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ
حکومت کے منصوبے حرفِ آخر ہوتے ہیں، ان پر مخالفت برائے مخالفت کے لحاظ سے
تنقید تو کی جاتی ہے، مگر تنقید بے جان اور خواہ مخواہ ہی ہوتی ہے۔
اب گیس کی لوڈ شیڈنگ کو ہی لے لیجئے، ہر طرف چیخ وپکار ہے، جلوس نکل رہے
ہیں، خواتین ہانڈیاں اور چولہے اٹھا کر سڑکوں پر آگئی ہیں، نعرے لگ رہے ہیں،
انہوں نے بینر اور کتبے اٹھا رکھے ہیں، دھرنے دیئے جارہے ہیں۔ اخبارات میں
بیانات دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی جار ہی ہے، پریس کانفرنس کے ذریعے خود
نمائی کا بندوبست کیا جارہا ہے، جلسوں میں حکومت کو گیس کی لوڈشیڈنگ کا
مورد الزام ٹھہرا کر نااہل قرار دیا جارہا ہے، حتیٰ کہ انہیں حکومت چھوڑ
دینے کا حکم بھی دیا جارہا ہے۔ نجی محفلوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ پر اظہار
افسوس کیا جا رہا ہے، کونسا موقع ہے جب حکومت کو کوسنے نہیں دیئے جاتے، بعض
جذباتی لوگ تو مغلظات سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ مگر کبھی کسی نے یہ نہیں
سوچا کہ اگر گیس کی لوڈشیڈنگ ہے تو حکومت نے یہ فیصلہ کچھ سوچ سمجھ کر ہی
کیا ہوگا، اس پر ماہرین کا اجلاس ہوا ہوگا، زمینی حقائق کو دیکھا گیا ہوگا،
اس کے فوائد اور نقصانات کو مد نظر رکھاگیا ہوگا، تب جا کر لوڈشیڈنگ کا
فیصلہ ہوا ہوگا۔
ہمارا خیال ہے کہ اگر حکومت نے بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی لوڈشیڈنگ کی ہے تو
ضرور عوام کی بہبود کا خیال رکھ کر ہی کی ہوگی، وہ کون سی حکومت ہے جو عوام
سے ووٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور عوام کے ہی خلاف اقدامات شروع
کردے؟ ایسا ممکن نہیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ آخر
لوڈشیڈنگ کیوں ہوتی ہے، ہم نے غور وخوض کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس نتیجے
پر پہنچے ہیں کہ حکومت نے یہ مشکل فیصلہ عوام کے فائدے کے لئے ہی کیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ اگر سروے کروا کے دیکھ لیا جائے پاکستان میں
توند بردار افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی ہے، اس کی سب سے اہم اور خاص
وجہ یہی ہے کہ ہم لوگوں نے بسیار خوری کو اپنی عادت کا حصہ بنا لیا ہے، ہم
اس وقت تک اپنا ہاتھ نہیں روکتے، جب تک ہماری بس نہیں ہوجاتی۔ پھر اسی پر
بات ختم نہیں ہوتی، بلکہ سردیاں ہوں یا گرمیاں، دن میں تین مرتبہ کھانا
کھانے کی عادت بھی پختہ ہوچکی ہے، اس کے علاوہ گیارہ بجے ٹی ٹائم، شام کو
کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی ایک اور نشست۔ انہی خراب عادتوں کی بنا پر ہی
بیماریاں ہمارے ہاں گھر کر جاتی ہیں۔ ہم چونکہ ہاتھ روکتے نہیں، کسی اخلاقی
حتیٰ کہ قانونی پابندی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، اس لئے حکومت نے ایسا
بندوبست کردیا ہے کہ نہ گیس ہوگی اور نہ ہی کھانے پکانے کا بازار گرم ہوگا۔
محدود وقت میں اور محدود مقدار میں گیس آتی ہے، مشکلوں سے ضرورت پوری ہوتی
ہے، پھر چلی جاتی ہے۔ اسی طرح ہم لوگ رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر سے
اٹھنے کے عادی بھی ہوچکے ہیں، اب حکومت کے اقدام کی وجہ سے گھر کا چولہا
دیر سے اٹھنے والوں کا منہ چِڑا رہا ہوتا ہے، اگر کوئی صبح سویرے اٹھے گا
تو ناشتہ کرسکے گا۔ سردیوں میں دوپہر کے کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لئے
دوپہر کو گیس آتی ہی نہیں۔ اب چونکہ سردیاں محدود ہوتی جارہی ہیں، مگر ہم
لوگ اپنی عادت سے مجبور ہوکر گیس کے ہیٹر چلانے سے باز نہیں آتے، حکومت نے
اخبارات کے ذریعے اور گیس کے بِل پر تحریر کرکے مسلسل عوام کو منع کیا،
انہیں بتایا کہ ہیٹر نہ جلائیں بلکہ گرم کپڑے پہنیں، کوئی نہیں رکا، مجبوراً
حکومت کو لوڈشیڈنگ کرنی پڑی، ’’ہور چوپو‘‘۔ |
|