پاکستان جتنا خراب ہونا تھا ہوگیا ہے اب
ٹھیک کریں گے۔ کرپشن کے خلاف بھی جہاد ہونا چاہئے، آئی ایم ایف سے قرض لیا
ہے تو اس کے شرائط بھی ماننا پڑیں گی، ترقی کے لیے انفرادی خود احتسابی
ناگزیر ہے، ہماری منزل جدید اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان ہے۔ یہ الفاظ صدر
پاکستان جناب ممنون حسین کے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا
ہے کہ پاکستان ایک آزاد ریاست نہیں ہے۔
صدر مملکت کے بیان کو اگر دیکھا جائے تو بجا ہے کہ پاکستان نے جتنا خراب
ہونا تھا ہو چکا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اس کے مزید بھی خراب کرنے
پر تلے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی حکمران ایسا نہیں گزرا جس نے ملک کو غلامی سے
نکالنے کی کوشش کی ہو۔ کسی حکومت میں بیرونی قرضوں کے بغیر نظام نہیں چلا۔
کوئی بھی لیڈر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہ کر سکا۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ اپنے ستر سالہ دور میں کوئی بھی حکمران ایسا
نہیں ملا جو ملک کو غیر وں کی غلامی سے مکمل طور پر آزاد کرائے۔جمہوری
طریقہ انتخاب سے جو بھی مسلط ہوا ، شروع میں یہی رونا رویا کہ خزانہ خالی
ہے ، نظام کیسے چلے گا؟ اور پھر دامن پھیلا کر بین الاقوامی مالیاتی اداروں
سے امداد کے نام پر قرضے لینے شروع کر دیے ۔ قرضے ملتے رہے، نظام چلتا رہا،
عوام رلتی رہی اور ملک قرضوں تلے دبنے لگا۔ پھر آخری وقت میں حکومت اعلانات
پر اعلانات کرتی رہی کہ خزانہ بھر گیا ہے، ہم نے ملک کو ترقی کی راہ پر
گامزن کیا ہے، مالیاتی ذخائر میں اضافہ ہوگیا ہے، وہ وقت دور نہیں جب ہم
معاشی طور پر خود مختار ہو جائیں گے۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔ حکومت ختم ہوجاتی۔
انتخابات کرائے جاتے۔ نئے چہرے سٹیج پر ابھر آتے اور وہی رونا روتے رہے۔۔۔۔۔خزانہ
خالی ہے ۔ نظام کیسے چلائے۔
چلتے چلتے وطن عزیز تقریبا ستر سال کا سفر طے کر چکا ہے ۔ ان ستر سالوں میں
وطن عزیز پر قرضوں کا بوجھ 14,800 ارب روپے ہو چکا ہے یعنی پاکستان کے
22کروڑ آبادی پر اگر اس قرضہ کو تقسیم کر لیا جائے تو ہر شخص 672727 روپے
مقروض ہے۔ بالفاظ دیگر صدر پاکستان اس بات کا خود ہی اقرار کر چکے ہیں کہ
پاکستان کا ہر بچہ 600000 کے قرض کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے۔ بقول جناب ممنون
حسین صاحب ’’2008 میں جب پی پی کی حکومت آئی اس وقت ملک پر 6700ارب کا قرضہ
تھا اور گذشتہ پانچ سال میں 8100 روپے کا قرضہ بڑھ کر کل 14800 روپے ہوگیا‘‘۔
صدر صاحب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے تو اس کی شرائط بھی
ماننا پڑیں گی۔
آخر وہ کون سی وجہ ہے جس نے ہمیں اتنا قرضہ لینے پر مجبور کر دیا ؟ آخر کب
تک ہم غلام رہیں گے؟ کیا ہمیں اتنی بھی آزادی نہیں کہ وطن میں بننے والی
بجلی اور پیدا ہونے والے گیس کو اپنی مرضی کی قیمت مقرر کر کے عوام کو دیں؟
کیا پاکستان کے اندر اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنے ، ٹیکسز لگانے یا ختم کرنے
اور بجٹ پیش کرنے کے لیے ہمیشہ آئی ایم ایف کے شرائط ماننے پڑیں گے اور ان
سے منظوری لینی ہوگی؟ ؟؟ |