چو لہو بھر پا نی میں ڈو ب مر و
69سالہ اقتدار کے مزے باریاں بد ل بدل کر لوٹنے والوں کو حا لیہ بلدیاتی
انتخابات کے نتائج نے مقتدر رہنے والی تمام سیاسی پارٹیوں پر عدم اعتماد
کرکے انھیں بالکل ننگا کر دیکھایا ہے ثابت کردیا ہے کہ سبھی نام نہاد بڑی
پارٹیوں کے چو ہد ری ،لوٹیرے، چور ،ڈکیت ،سرما یہ دار و ڈکٹیٹر لیڈران کرام
ایک ہی حمام میں ننگے نہا رہے ہیں اور عوام کی کمزوری کی وجہ سے مزے لوٹ
رہے ہیں ۔مقابلے میں کوئی مؤثر جماعت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ناز نخرے
قابل ستا ئش ہیں تمام لیگیں تو صرف ظالم جاگیرداروں ،نودولتیے سرمایہ داروں
،عیاش وڈیروں اور سودخورصنعتکاروں کے اکٹھ کا ہی نام رہا ہے ۔مگر اب اتبد
یلی والے بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے انھوں نے لالچی سیا سیوں کوپکڑ
دھکڑ کر مذکورہ لالچیوں کواپنے چنگل میں ڈھا ل لیا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے
کہ اب اقتداری ہڈی ہماری جھولی میں آگرے گی اس طر ح عمرانی نعرے اور وعدے
تبد یلی صرف خواب یا فریب محض بن چکے ہیں اگر ایک مو لو ی کتنا ہی سفید پوش
ہو وہ مولوی رنڈ ی خا نے میں اکیلا چلا جائے تو کوئلوں کی دلالی میں منہ
کالا ،پلید در پلید ہو کر ہی نکلے گااور ایسے ہی لالچی مفاد و اقتدار
پرستوں نے قائد اعظم ؒکی مسلم لیگ کا بھی ستیا نا س کر ڈالا تھاآج کے نام
نہاد راہنما و لیڈرکس باغ کی مولی ہیں وہ بچ سکیں یہ طے شدہ امر ہے کہ نواز
اور عمران آئندہ منتخب ہوکر نہیں آسکتے جس کا بین ثبوت موجودہ بلدیاتی
انتخابات ہیں کہ آزاد امیدواروں کے کل ووٹ سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے
ووٹوں کی نسبت دگنااورکہیں چو گنا تعداد میں ہیں ان کا بوریا بسترجو کہ
ابھی سے گول ہو چکا ہے تو آئندہ غیر جانبدارانہ انتخابات میں انھیں الیکشن
مہم چلانا ہی مشکل ہو گی انھیں ووٹ تو کیا ملیں گے امیدوار تک ہی نہ مل
سکیں گے کہ موجودہ انتخابات میں لوگوں نے ان کی ٹکٹوں پر الیکشن میں حصہ
لینا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ ان کا انتخابی نشان لے کر عوام کے پاس جا کر
بے عزتی ان کے کرتوتوں اور پیدا کردہ مسائل ،بیروزگاری ۔مہنگائی ،دہشت گردی
،خراب امن عامہ اوربجلی ،گیس ،صاف پانی کی عدم دستیابی کا کیا جواب دیں گے
ویسے بھی جو کل تک دوسری پارٹی میں رہ کر بدمعاش یا کرپشن کنگ کا"عظیم"عہدہ
پا چکا ہے اب وہی انصاف کے چرنوں میں گر کرکیوں کر منصف ہو کر پاک باز کہلا
سکتا ہے ۔ خرِعیسیٰ گربہ مکہ ر ود ۔ یہ لوگ توسیاست کرتے ہی مال بنانے کے
لیے ہیں پھر ڈر کس بات کا ہے؟مقتدر ہوتے ہی تو ان کی ملیں سال میں کئی بچے
جنتی ہیں اور ان کی زمینیں بھی سونا اگلنا شروع کر دیتی ہیں کہ دنوں میں
مزید ملوں کے مالک ہوکر بنک بھر جاتے ہیں ۔دنیا میں کہیں بھی صنعتکار
حکمران نہیں ہوتے سوائے ہمارے ہاں کے۔دنیا کے غلیظ ترین نظام سود کے
علمبرداران حکمران بن جائیں گے تو خدا کی رحمتیں زحمتوں میں بدل جائیں گی
کہ یہ فیصلہ خداوندی ہے ان کا ماٹو تولُٹوتے پُھٹوہی ہے۔اب چونکہ یہ سیاسی
پارٹیاں اپنی سیاسی موت کے دن گن رہی ہیں اسی لیے سٹیل ملز واپڈا ،پی آئی
اے و دیگر اہم ترین قومی ادارے اپنے ہی عزیز و اقارب کو بیچ کر مال بنانا
ہی ان کا وطیرہ اور مطمع نظر رہ گیا ہے کہ ـ"اندھا بانٹے ریوڑیاں موڑ موڑ
کر اپنوں کو "دوسری طرف ان کے سارے عزیزو اقارب ، خونی رشتہ دار اور
اولادیں تک ٹھیکہ دار بن کرتعمیراتی منصوبوں سے آدھے سے کچھ زائد مال ڈکار
رہی ہیں کہ بابربہ عیش کوش کہ اقتدار دوبارہ نیست، سپریم کورٹ یا ہائی
کورٹس تو صرف احکام ہی صادر کرسکتی ہیں عملدرآمد تو صرف حکومتی طاقتور
اداروں ،ان کی دم چھلہ پولیس اور کرپٹ لادین بیورو کریٹوں ہی نے کروانا
ہوتا ہے وہ چونکہ برابر کے حصہ دار ہیں اس لیے وہ چپ کا روزہ مسلسل رکھے
ہوئے ہیں وہ عدالت کے احکامات کوپرِکاہ جتنی بھی اہمیت نہیں دیتے اگر ایسا
ہوتاتو سابقہ اور موجودہ سبھی وزیر بے شمشیر مشیر ا ن جیلوں میں بیٹھے چٹا
ئیاں بنا رہے ہوتے اور مرغ مسلم کھانے کی بجائے دال پی رہے ہوتے وہ پا نی
زیا دہ اور دال کم یار عجیب دستور ہے ان حکمرانوں کاکوئی چیخے چلائے بھی تو
دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہماری کیا پورے پا کستان کے عوام کی تو بولتی بند
کرڈالی ہے ہمیں ملازمت اور اسطرح نان نفقہ اور حصہ بقدر جسہ ہی عزیز ہے
عوام پر مِنی نہیں بلکہ مَنی بجٹ کے ذریعے مہنگائی کی قیامت صغریٰ برپاکر
دی اور کر رہے ہیں،دراصل حکمرانوں کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے آئی ایم
ایف اور ورلڈ بنک سے سابقہ حکومتوں کی نسبت کئی گناہ زیادہ قرضے لے کر اللے
تللوں عیاشیوں پر خرچ کرڈالنے سے ہم غربت کی گہری کھائی میں ہی نہیں بلکہ
دوزخ میں اتر رہے ہیں۔پہلے ہی یہ سود خور ادارے تین مسلمان ملکوں انڈونیشیا
،ارجنٹائن اور بولیویاکی معیشت کو نگل چکے ہیں۔ان کے عوام کی طرح ہمارے لوگ
بھی صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں مگر چونکہ یہ ملک لاکھوں ماؤں
بہنوں نوجوانوں بزرگوں کی ان گنت قربانیوں سے معرض وجود میں آیا تھا اور اب
سات دہائی سالوں بعد بھی چند وڈیرے و صنعتکار خاندان اس کو لوٹتے چلے جارہے
ہیں ۔توآئندہ عام انتخابات میں ہر صورت خدائے عز و جل کی غیرت جوش میں
آکران کو سیاسی قبروں میں دفنانے کاانتظام کرڈالے گی اور انکے سیاسی مقبرے
بن کر رہیں گے اصلی خدائی کوڑے کی زد سے اس بار قطعاً نہیں بچ سکتے اور یہ
فطری تقاضوں کے عین مطابق ہو گا ۔کہ خداوند قدوس اپنی پاک سرزمین کو اتنے
طویل عرصہ تک راندہ ٔدرگا ہ لوگوں کی مسلسل چراگاہ بننے نہیں دے سکتے جس کی
دنیا کی تاریخ گواہ ہے سابقہ ادوار کے فرعون ،نمرود ،شداداور موجودہ دور کے
شہنشاہ ایران و دیگر ظالم ڈکٹیٹر آخر فنا ہو کر رہے بادشاہتیں ٹوٹ رہی ہیں
اور اسلامی جمہوریتیں سر بلند ہو رہی ہیں کہ کسی کہ روکے نہ رکا ہے کبھی
سویرا اور یہ کہ رات خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اس کی کوکھ سے صبح ضرور
جنم لیتی ہے جب غرباء اور پسے ہوئے طبقات کے لوگوں کے کپڑے تک اتار لیے
جائیں گے ،بھوکی مائیں بمعہ بلکتے بچوں کے خود کشیاں کریں گی تو پھر یہ ننگ
دھڑنگ افرادتنگ آمد بہ جنگ آمد کی طرح اٹھیں گے اور اپنی آخری سانسوں کی
بحالی کے لے بذریعہ ووٹ ان سے بدلے چکائیں گے۔ غریبوں کے خون کو پٹرول کی
جگہ ڈال کر چلنے والی پجارو اور لمبی لمبی مر سڈیز و لیمو زینوں پر چڑھے
سرمایہ پرست لالچی افراد کیسے مقتدر رہ جائیں گے جبکہ زخمی ننگے پیروں پر
چل کر غریب عوام ان سے ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار کی باگیں چھین لیں گے
کو ئی ایسا مسیحا آئیگا جو ،بجلی ،گیس ،علاج، تعلیم ،انصاف ،صاف پانی اور
اعلیٰ سیوریج سسٹم ہر در پر مفت پہنچا ئے گاتو واقعی فلاحی و اسلا می
انقلاب برپا ہو گا۔محنت کش اور مزدور بھی ان حالات میں کم ازکم ہزار روپے
ماہانہ معاوضہ پائیں گے۔نیز کھانے پینے کی تمام اشیاء پانچواں حصہ کم قیمت
اور ہمہ قسم تیل تیسرا حصہ کم قیمت پر ملے گاتو ملک معاشی ،سیاسی ،خارجی
امور میں انتہائی طاقتور ایٹمی قوت بن کر ابھرے گا جب کہ تمام بیرونی قرضے
یکمشت اتر چکے ہوں گے کرپشن کیسز سپریم کورٹ میں کھل چکے ہیں کچھ سیاسی
راہنمابھاگ کر نہیں بلکہ چوہوں کی طرح دم دبا کر غیر ممالک میں پناہ گزین
ہوچکے ہیں اور باقی بھاگنے کی تیاریوں میں مصروف مزید مال سمیٹ رہے ہیں اﷲ
کی لا ٹھی بے آ واز ہے حکمر انون خدا کے خوف سے ڈرو پا کستان و اس کے عوام
پر ظلم بند کر و- |