این اے 154 کا معرکہ!

 اِس سال کے آخری ضمنی الیکشن کا معرکہ سر ہوا۔ روایت کے برعکس قومی اسمبلی کے اس الیکشن میں حکومت کے مخالف امیدوار نے کامیابی حاصل کرلی۔ یہ الیکشن اگرچہ ایک حلقے میں ہوا اور یہ حلقہ بھی دور دراز ایک پسماندہ اور چھوٹے ضلع میں ہوا تھا، تاہم اس کی اہمیت ملکی سطح پر بن چکی تھی، کیونکہ اس میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی مرکزی سطح پر دلچسپی تھی، یہاں الیکشن مہم میں حمزہ شہباز شریف تین مر تبہ اور عمران خان دو مرتبہ لودھراں آئے۔ یہ سیٹ صدیق بلوچ نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتی تھی، روایتی طور پر جیسے آزاد امیدوار حکومت کے ساتھ مل جایا کرتے ہیں، انہوں نے بھی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ صدیق بلوچ اگرچہ بہت کم تعلیم یافتہ ہیں، تاہم جب سے اسمبلی ممبر شپ کے لئے ڈگری لازمی ہونے کی کہانی شروع ہوئی انہوں نے تمام مراحل مکمل کر کے ڈگری حاصل کرلی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار نااہل ہونے کے باوجود آخر کار سپریم کورٹ نے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔

صدیق بلوچ کی یہ سیٹ خاندانی قرار دی جاسکتی تھی، کم از کم ایم پی اے کی سیٹ ان کے گھر سے باہر کبھی نہیں نکلی۔ اب بھی وہ خود ایم این اے تھے تو انہوں نے ایک ضمنی الیکشن میں اپنے بیٹے کو ایم پی اے بنوا لیا تھا،اس سے قبل بھی مشرف دور میں جب تعلیمی ڈگری کو لازمی قرار دیا گیا اور موصوف ڈگری سے تہی دست تھے تو انہوں نے اپنے ایک بھانجے کو اپنی سیٹ پر ایم پی اے بنوایا تھا۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیٹ ان کی خاندانی ہے، وہ عشروں سے یہاں سے کامیاب ہوتے آرہے ہیں، مگر اس کے باوجود حلقے میں ترقیاتی کاموں کی جھلکی دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ نظامت کے دور میں اگرچہ کچھ ترقیاتی کام دیکھنے میں آئے، مگر شہر میں ایک ہی سرکاری ہائی سکول تھا، اب بھی ایک ہی ہے تاہم مضافات میں اکا دکا ہائی سکول بن گئے ہیں۔ لودھراں شہر ایک دیہاتی قصبے کا منظر پیش کرتا تھا، تاہم اب شہر کے اندر وہی نظامت دور کی ترقی کے کچھ آثار دکھائی دیتے ہیں۔

2013ء کے الیکشن میں اگرچہ جہانگیر ترین کو دس ہزار ووٹ کم ملے، مگر یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ ایک اور امیدوار بھی مسلم لیگ ن کا ہی ساتھی تھا جس نے پینتالیس ہزار ووٹ لئے تھے، لہٰذا اب حکومتی پارٹی کا خیال تھا کہ دوسرے امیدوار کے ساتھ ملنے سے ووٹوں کی تعداد کافی زیادہ ہوجائے گی اور یوں ہمارا امیدوار کم از کم تیس ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کرلے گا۔ حکومت نے بھی اپنی تمام تر مشینری اس الیکشن میں جھونک دی۔ چند ماہ قبل وزیراعظم بھی یہاں ڈھائی ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کر کے گئے تھے۔ وفاقی وصوبائی وزراء ، وفاقی و صوبائی سیکریٹریز اور بہت سے دیگر معزز ممبران اسمبلی لودھراں کے الیکشن میں پائے گئے۔ بہت سے ترقیاتی کاموں کے وعدے ہوئے، سرکاری ملازمین کو جلسوں میں پابند کرنے کے ساتھ انہیں سرکاری امیدوار کو کامیاب کروانے کا بھی حکم دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بھی مرکزی اور صوبائی قیادت میں سے لوگ لودھراں آئے۔ لودھراں میں چند روز خوب میلا سجا رہا۔
 
گزشتہ الیکشن میں صدیق بلوچ کے مقابلے میں جہانگیر ترین کو 75ہزار ووٹ ملے تھے، حالانکہ اس وقت تک جہانگیر ترین کا لوگوں میں گھل مل جانے کی روایت عام نہ تھی۔ یار لوگوں نے تو اب تک یہی مشہور کر رکھا ہے کہ وہ لوگوں کو ملتے نہیں اور یہ بھی کہ ملنے کے بعد صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ مگر حالیہ الیکشن میں ماحول بالکل مختلف تھا، اس بات جہاں صدیق بلوچ کو بلدیاتی الیکشن میں کامیابی اور حکومتی تعاون کا زعم تھا تو دوسری طرف عوام میں جہانگیر ترین کی پذیرائی کافی زیادہ تھی۔ یہ لہر بھی دیکھنے میں آئی کہ ہر چوتھا فرد ایسا تھا جس کا قول تھا کہ وہ صدیق بلوچ کے ساتھ ہے مگر ووٹ ترین کو جائے گا، شام کے نتیجے نے عوام کے قول اور رویے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ اس مرتبہ فوج کی موجودگی بھی جہانگیر ترین کے مفاد میں گئی، کیونکہ جہاں کسی وڈیرے وغیرہ نے دھاندلی کرنا تھی، وہاں انہیں قریب پھٹکنے کی اجازت نہ ملی، لوگوں کو ڈراتا کون اور ووٹ دینے پر مجبور کون کرتا؟ کسی تعصب کے بغیر اب کہا جارہا ہے کہ لودھراں کی تقدیر سنور جائے گی، یہی بات جہانگیر ترین کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں، اب انہی اپنے رویے کو بھی سیاسی بنانا پڑے گا اور کام کے معاملے میں بھی کچھ کر کے دکھانا پڑے گا۔ عوام نے انہیں مینڈیٹ دے دیا ہے، اسے پورا کرنا اور عوام کی توقعات پر پورا اترنا ان کا کام ہے، ورنہ تبدیلی کا اختیار تو عوام کے پاس ہی ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 435669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.