بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ ماسکو
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان کے خلاف نقب زنی
ـڈوبتے جہازسے چوہے چھلانگیں لگانے لگتے ہیں،امریکہ کو تاریخ کے صفحات میں
دفن ہوتا دیکھ کر بھارت نے روس کے ساتھ پینگیں بڑھانے شروع کر دی ہیں۔اس کی
تازہ مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دودنوں پر محیط دورہ ماسکو
ہے۔بھارتی وزیراعظم بدھ 23دسمبر2015کوماسکو پہنچے ہیں جہاں وہ روسی بھارتی
سولھویں سربراہ ملاقات میں شریک ہوں گے۔اس ملاقات کاایجنڈاتین نکاتی
بتایاجاتاہے،تجارت،دفاع اوردہشت گردی۔اس کے علاوہ بھارتی وزیراعظم ان تین
ہزاربھارتیوں سے بھی خطاب کریں گے جوماسکو جیسے ٹھنڈے شہر میں رہتے ہیں ۔ماسکویاتراسے
قبل منگل 22دسمبر2015کوبھارتی کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے کم از کم بھی دوقسم
کے دفاعی سودوں کی یقینی منظوری دی ہے۔پہلے سودے میں دوسو کی
تعدادمیںKamov-226ہیلی کاپٹرزہیں جنہیں بھارت چاہتاہے کہ روس کی مدد سے
اپنی سرزمین پر تیارکرے ۔جبکہ دوسرے سودے میں روس سے دوسری ایٹمی آبدوزحاصل
کرناشامل ہے۔اس کے علاوہ بھی بھارتی کابینہ کی دفاعی کیمیٹی نے روسی
ساختہS-400 Triumf air defence میزائیل میں بھی اپنی دلچسپی کااظہارکیاہے۔
Kamov-226T ہیلی کاپٹرہلکے وزن کاہمہ جہتی پرندہ ہے،دوران استعمال اس میں
بہت سی ساختہ تبدیلیاں لاسکناممکن ہے۔نومسافروں کی گنجائش ہے،چودہ سوسے
پندرہ سوکلوگرام تک کاوزن بھی اٹھاسکتاہے اور دوسوکلومیٹرفی گھنٹہ کی اوسط
رفتارسے ہوا میں محوپرواز ہو سکتاہے۔اپنے ہلکے پن کے باعث بنیادی طورپر
فوری نوعیت کے امور سرانجام دے سکتاہے جن میں مریضوں کی منتقلی،آگ بجھانے
میں مدداورخوراک وادویات وغیرہ کی ترسیل شامل ہے۔روس میں اسے قدرتی آفات سے
نمٹنے کے لیے اور محدودحد تک دفاعی امور کے لیے بھی استعمال کیا
جاتاہے۔1990میں سب سے پہلے روس کی قدرتی آفات سے نبردآزماہونے والے محکمے
میں اس ہیلی کاپٹرکو استعمال کیا گیا تھا۔بھارت کے ساتھ ہونے والے معاہدے
میں اس ہیلی کاپٹر کا 2002ء ماڈل پیش نظر ہے۔بھارتی کابینہ کی دفاعی کمیٹی
نے جس دوسرے معاہدے کی منظوری دی ہے اس میں روس سے دوسری ایٹمی آبدوز حاصل
کرنا ہے۔اس سے قبل ’’آئی این ایس چاکرا‘‘نامی ایٹمی آبدوزاپریل 2012ء میں
روسی بحریہ نے دس سال کے لیے بھارتی بحریہ کے سپرد کی تھی۔آٹھ ہزارٹن سے
زیادہ وزنی اس آبدوز سے خطہ کا دفاعی توازن بری طرح بگڑ گیاتھا،لیکن بھارتی
سرکار کو ابھی مزیداسلحے کی ضرورت ہے جس کے لیے دوسری ایٹمی آبدوزلینے کے
لیے بھارتی وزیاعظم ماسکو میں پہنچ چکے ہیں۔بھارتی وزیراعظم کے حالیہ دورے
سے ماقبل بھارتی وزیردفاع منوہرپریکارنے بھی نومبر2015کے اوائل میں روس کا
دوروزہ دورہ کیاتھا۔اس دورے میں وقت کے جدید ترین میزائلی نظام S-400کے
سودے میں دلچسپی بھی شامل تھی۔اس میزائلی نظام سے ملکی اہم تنصیبات کا دفاع
ممکن ہے ،جیسے ایٹمی تنصیبات،گنجان آباد شہری علاقے یااہم سرکاری دفاتر
وغیرہ۔ان کے علاوہ اپنے اڈے سے چارسوکلیومیٹردور تک اپنی طرف آنے والے کسی
بھی ممکنہ یا یقینی خطرے کو راستے میں ہی تباہ کردینے کی صلاحیت بھی
رکھتاہے۔وزیردفاع نے روس جانے سے قبل ہوائی اڈے پر صحافیوں سے گفتگوکرتے
ہوئے کہا تھاکہ دسمبر میں ہونے والی بھارت روس سربراہ ملاقات میں ان
میزائلوں کاسودابھی متوقع ہے۔
روسی فاضل پرزہ جات کی اہمیت بھارتی دفاعی نظام میں ایسی ہی ہے جیسے کسی
جسم میں ریڑھ کی ہڈی ۔ایک اندازے کے مطابق بھارت کے پاس دنیاکی تیسری بڑی
فوج ہے،بھارتی فضائی دنیاکی چوتھی بڑی دفاعی قوت ہے اور بھارتی بحریہ کا
دنیامیں ساتواں بڑا نمبر ہے۔اس لحاظ سے بھارت دنیاکا سب سے بڑا دفاعی
سازوسامان کا درآمدکنندہ ہے اوردنیابھرمیں ان دس ملکوں میں شامل ہے جو اپنے
بجٹ کی بہت بڑی شرح دفاع پر اٹھا دیتے ہیں۔جیساکہ بھارتی دفاعی اداروں کے
زیراستعمال مشینوں کے کل 30%فاضل پرزہ جات ملکی کارخانوں میں تیارکیے جاتے
ہیں باقی تمام تر دوسرے ملکوں سے عام طورپر اور روس سے خاص طورپر درآمد کیے
جاتے ہیں۔2009سے2012کے درمیان صرف تین سالوں کی مدت میں میں چالیس بلین
ڈالرزسے زائد کی خطیر ترین رقم صرف دفاعی سازوسامان کی مرمت پر خرچ کر دی
گئی۔جبکہ اگلے سالوں کے لیے دوسوپچاس بلین امریکی ڈالرزسے زائد کی رقم اس
مقصد کے لیے مختص کر دی گئی ہے۔ اس رقم کا 53%بری افواج کے لیے،23%بھارتی
فضائیہ کے لیے اور16%بھارتی بحریہ کے لیے ہے۔بھارتی وزیردفاع نے جنوری
2016میں ایک نئی دفاعی پالیسی لانے کااعلان کیاہے جس کے تحت دفاعی پرزہ جات
کی مقامی تیاری کو 30%سے بڑھا کر 40%تک لایا جائے گا تاکہ ملکی زرمبادلہ
بچایا جاسکے۔
بھارتی حکومت کی تمام تریہ مساعی صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نقب لگانے
تک ہی محدود ہیں۔اسی کی دہائی میں جب افغان مسئلے باعث پاکستان اور امریکہ
بہت قریب ہو گئے تو بھارت نے روسی کیمپ میں پناہ تلاش کر لی۔پورے افغان
مسئلے کے دوران بھارت نے کھل کر روسی جارحیت کا ساتھ دیااوراس وقت کے روسی
صدر برزنیف نے بظور تشکر کے بھارت کادورہ بھی کیا۔لیکن جیسے روس کا سفینہ
ڈوبنے لگاتو بھارتی حکومت نے چھلانگیں لگائیں اور ایک ہی جست میں امریکہ کی
حاشیہ نشینی اختیارکر لی۔افغان طالبان کے معاملے میں بھی امریکہ کی خارجہ
پالیسی پاکستان کی مرہون منت رہی اور مشرق وسطی سمیت ایران امریکہ تعلقات
میں پاکستان کی سنی جاتی رہی اور پاک امریکہ تعلقات میں اگرچہ گرمجوشی تو
نہ رہی تاہم بھارت کو بھی امریکہ نے کوئی بہت زیادہ گھاس نہ ڈالا۔پرویز
مشرف کا دورپاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسی سمیت معاشی وسماجی طورپربھی
پاکستان کا بدترین دور تھا۔پرویزمشرف کی فرد واحد انہ حکومت نے کل پڑوسیوں
کودشمن بنالیا،پاکستان کی شمال مشرقی سرحدتاریخ میں پہلی مرتبہ خطرناک حد
تک غیرمحفوظ ہو گئی۔پرویزمشرف نے غیروں کو خوش کرنے لیے اپنوں کوپابندسلاسل
کیابلکہ کرہ ارضی سے ان کا وجود ہی گم کردیااور دشمنوں کی سازشوں کے لیے
ایوان صدر کے دروازے کھول دیے۔پرویز مشرف کا سیکولرازم وطن عزیز کی جڑوں
میں سرائت کرگیااور ہر آئے دن انسانی لاشوں کے ٹکڑے بجلی کی تاروں اور
درختوں کی شاخوں سے لٹکے خون بہاتے نظرآرہے ہوتے ،یہاں تک کہ وطن عزیز کے
انتہائی حساس و دفاعی ادارے بھی دہشت گردوں کی دسترس میں آنے لگے۔پرویزمشرف
کی امریکہ نوازپالیسیوں اور دہشت گردی کی جنگ میں صف اول کی ریاست کاپول اس
وقت کھلا جب بھارت نے مسلمان ملک کے اس سیکولرحکمران کی پایسیوں کا فائدہ
اٹھایا اور امریکہ کے اتنا قریب ہو چکا کہ جس ایٹمی سول معاہدے کا وعدہ
پرویز مشرف کے ساتھ متوقع تھا اس کا کرہ فال بھارت کے حق میں جا نکلا۔یہ
خبرپاکستانیوں کے لیے بہت مایوس کن تھی۔کاش پاکستانی قیادت قرآن مجید کی اس
آیت کو سمجھ جاتی کہ یہودونصاری ہرگزتمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔بھارت نے
اپنی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے خلاف نقب لگائی اور جو پھل پاکستان کی
گود گرنا چاہیے تھا،بنیے نے بڑی چابکدستی کے ساتھ اسے ہتھیاکیا۔
وقت بہت بڑامرہم ہوتاہے،ایک نسل گزرجانے کے بعد جب افغان مسئلے کے زخم
مندمل ہونے لگے توپاکستان اور روس میں فاصلے سمٹتے چلے گئے۔امریکہ نے
فاصلوں کی دوری کو امر کردیاتھا روس نے قربتوں کی چاہتوں کو ایک بارپھر
آزمانا چاہا۔مشرق وسطی میں بھی روس نے امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف کھل
کراپنے رویے کااظہار کیا ہے،اگرچہ عالمی سطح پر دوستی نام کی کوئی چیز نہیں
ہوتی اور سب مفادات کی جنگ ہی ہوتی ہے،مفادات یکجاہوئے تو دوستی بن گئی اور
مفادات ٹکراگئے تو توکون اور میں کون بن گئے،تاہم پھر بھی خصوصی طورپر شام
کے معاملے میں اگر روس کی پالیسی مسلمان نوازہے تو اس بات کا امکان بہرحال
موجود ہے کہ روس اپنے ماضی کے برخلاف اب مسلمانوں کی قربت چاہتاہے۔پاکستان
اور روس جب سے ایک دوسرے کے قریب ہونے لگے ہیں تو بھارت کاوزیراعظم پھر روس
کی سرزمین پر جااترا ہے۔ملاقات کے تین نکات،دفاع،تجارت اوردہشت گردی ،تینوں
کامطلب پاکستان سے دشمنی ہے اور قریب آتے ہوئے روس کو پاکستان سے ایک
بارپھردورکرنے کی سازش ہے۔دیدہ بینا رکھنے والا معمولی سے تجزیہ سے بھی جان
سکتاہے کہ بھارت کی دفاعی قوت کس کے خلاف استعمال ہوگی،بھارت کی دہشت گردی
کاپروپیگنڈاکس کی بنیادیں ہلانے کاباعث بنے گااور بھارت کی تجارت کا ہدف کس
ملک کی معاشی حالت ہے۔بھارتی وزیراعظم کاروس کادورہ واضع طور پر مشرق میں
پاکستان کو تنہاکرنے کی کوشش ہے،گویا خطے میں روس کے مفادات کوبھارت اسی
طرح اپنی جیب میں ڈالنا چاہتاہے جس طرح امریکی پالیسی میں ہوا۔لیکن اب
پرویز شرف جیسے حکمرانوں کادوربیت گیا،قوم نے سیکولرحکمرانوں کو بڑے قریب
سے دیکھ لیا،جانچ لیااورپرکھ لیاہے،انتہائی زوال کے بعد اب عروج کا
سفرہے۔پاکستان کاماضی حال اور مستقبل نظریہ پاکستان سے ہی وابسطہ
ہے،اﷲتعالی کی رحمت سے قوی امید ہے بلکہ یقین ہے ہرابھرتاہواسورج اسلامی
مملکت پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے،انشااﷲتعالی۔ |
|