پرانے وقتوں کی بات ہے ایک درویش اپنے چیلے
کے ساتھ کسی جنگل میں رہتا تھا۔ درویش ہمیشہ ایک ہی دعا کرتا رہتا، “اے
الله اگر تو مجھے اس سلطنت کی بادشاہت دے دے تو میں اس ملک سے ظلم کا خاتمہ
کر دوں، انصاف کا بول بالا قائم کر دوں اور لوگوں کو ان کے کھوئے ہوئے حقوق
دلاؤں۔“ چیلا ہر بار اس کی دعا پر زور سے آمین کہتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا،
یہاں تک کہ درویش بوڑھا ہو گیا اور اس کا چیلا جوان ہو گیا۔ چیلا بچپن سے
درویش کے منہ سے ایک ہی دعا سن سن کر اکتا چکا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں دعا
مانگنا شروع کر دی کہ، “اے الله! اگر تو مجھے اس سلطنت کا بادشا بنا دے تو
میں اس سلطنت کی عوام پر وہ ظلم ڈھاؤں کہ جو تاریخ میں کسی نے نہ ڈھائے ہوں“۔
اب درویش دعا مانگنے بیٹھتا تو کونے میں بیٹھا چیلا اپنی دعا مانگتا یہاں
تک کہ اب وہ بھی بلند آواز میں دعا مانگنے لگا۔
اتفاق سے اس سلطنت کا بادشا مر گیا اور بادشا کا کوئی جانشین نہ تھا لہٰذا
نئے بادشا کا انتخاب ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ کئی گروہ بادشاہت کی طرف
لپکے، یہاں تک کہ معاملہ جنگ تک آ پہنچا۔ ایسے میں لوگوں نے مشورہ کیا کہ
اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے اور لوگوں کو جنگ سے روکا جائے۔ لہٰذا
باہمی مشورے سے طے پایا کہ شہر کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ کل صبح جو شخص
سب سے پہلے شہر میں داخل ہوگا وہی اس سلطنت کا بادشا بنے گا اور ہر شخص اسے
تسلیم کرے گا۔
قسمت کی بات کہ اگلی صبح اسی درویش کا چیلا بھیک مانگنے کی غرض سے شہر کی
طرف چلا اور وہ پہلا شخص تھا جو شہر میں سب سے پہلے پہنچا تھا۔ لہٰذا شرط
کے مطابق اسے بادشا بنا دیا گیا۔
شاہی تخت سنبھالتے ہی چیلے نے ظلم و ستم کا نیا باب کھول دیا۔ لوگوں کا
جینا تنگ کر دیا۔ ہر وہ ظلم کہ جو سوچا جا سکتا تھا اس نے کیا۔ پہلے تو لوگ
اسے برداشت کرتے رہے لیکن جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو لوگوں نے مشورہ کیا کہ
اس بادشا کا کچھ کرنا چاہئے۔ مشورہ ہوا کہ اس کے پیر درویش کے پاس جا کر
منت کرنی چاہئے وہی ایک شخص ہے جو اسے روک سکتا ہے۔
لوگ درویش کے پاس گئے اور اپنی داستان غم سنائی۔ درویش کو تعجب ہوا۔ وہ اس
کے پاس گیا اور اسے خدا کے غضب سے ڈرایا اور ظلم کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔
جواب میں چیلے نے کہا کہ اے بابا، تجھے یاد نہیں کہ تو نے برسوں اس سلطنت
کی بادشاہت کی دعا مانگی تاکہ تو یہاں انصاف قائم کر سکے۔ ظلم کو ختم کر
سکے لیکن تیری دعا قبول نہیں ہوئی۔ میں نے تو کچھ دن دعا کی کہ اگر بادشاہت
مجھے مل جائے تو میں ظلم کے پہاڑ توڑ دوں، تو بابا، اگر خدا کو اس قوم پر
انصاف مقصود ہوتا تو وہ بے شک بادشاہت تجھے دیتا لیکن اسے اس قوم پر ظلم
کروانا مقصود تھا تبھی تو بادشاہت مجھے ملی سو میں اپنا وعدہ پورا کروں گا،
کیونکہ میری دعا قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ قوم انصاف کے نہیں ظلم کے
لائق ہے، پس میں ظلم کرتا رہوں گا جب تک کہ کسی منصف کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
الله رب العزت کا بھی فرمان ہے کہ “جیسے تمہارے اعمال ہیں میں تم پر ویسا
ہی حکمران مسلط کر دوں گا“ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین دور شروع ہو چکا ہے
کہ حکومت اس کے ہاتھ میں ہے جو کل تک ایک ڈاکو کے طور پر جانا جاتا تھا۔ تو
ہمیں اس موقع پر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہماری ریاست اور حکومت ڈاکوؤں کے
ہاتھوں میں چلی گئی بلکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم سب ہی اخلاقی طور پر
اتنے گر چکے ہیں کہ ہماری نمائندگی اب ڈاکو کرنے لگے ہیں۔ ہماری قوم میں
کوئی منصف ہی نہیں رہا کہ جو ہماری نمائندگی کر سکے۔ یاد رکھیں کہ بندروں
کی رعیت میں شیر کبھی نہیں رہتا، ہاں گدھے ضرور رہتے ہیں ایسے ہی چوروں کی
رعیت میں ولی کبھی نہیں رہتا بلکہ ڈاکو ہی رہتے ہیں۔ تو کیا ہم سب چور اور
ڈاکو ہیں کہ ہماری قیادت، ہماری سربراہی اور ہماری نمائندگی ڈاکوؤں کے ہاتھ
میں ہے۔ کیا ہم اخلاقی طور پر اتنے گر چکے ہیں کہ جس کا دل کرتا ہے ہمیں
ہانکنے کے لئے ڈنڈا اٹھا لیتا ہے۔ ہم کہاں ہیں؟ ہماری اخلاقی اقدار، ہماری
قومی غیرت کہاں ہے؟
آؤ کہ وقت نکلتا جا رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری
بے حسی پر لعنت نہ بھیجتی رہیں اور ہمارے اسلاف ہمارے گریبان پکڑ کر ہم سے
اپنے خون کا حساب نہ مانگ لیں۔ آؤ کہ سنبھل جائیں ابھی وقت ہاتھوں میں ہے۔ |