حضرت عمرؓ نے امتیازی سلوک اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا تھا
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ مدعی کے ساتھ قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے قاضی نے امیر المومنین کو بیٹھنے کیلئے بہتر جگہ دی تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ امتیازی سلوک اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ہم اپنے محترم جج صاحبان سے مودبانہ گذارش کرتے ہیں کہ وہ تقریریں کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے حکومت کی رہنمائی بھی کریں اور اس پر عدالتی دبائو بھی ڈالیں کیونکہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی آئینی تقاضہ ہے۔ |
|
لانگ مارچ کے نتیجے میں جب بحال ہوئے تو
انہوں نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ ’’ریاست ماں جیسی ہوگی اور سب کو سستا
انصاف ملے گا‘‘۔ عوام کی طاقت سے چوہدری صاحب اپنے منصب پر بحال ہوگئے۔
انہوں نے ہر چند کہ حکومت کا قبلہ درست کرنے کیلئے چند دلیرانہ فیصلے کیے
مگر عوام سے کیا ہوا وعدہ بھول کر شہرت اور پروٹوکول کے اسیر ہوگئے۔ انکے
بیانات اور ریمارکس میڈیا میں ہیڈ لائنز اور بریکنگ نیوز بننے لگے۔ ان کا
یہ رویہ عالمی اور اسلامی عدل و انصاف کے اساسی اصولوں کے منافی تھا۔ عوام
سستے اور فوری انصاف کو ترستے رہے اور سابق چیف جسٹس اپنا منصب انجوائے
کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے۔ انہوں نے عوام سے وعدہ خلافی کی معافی نہیں
مانگی اور اب سستے اور فوری انصاف کی تحریک چلانے کی بجائے نئی جماعت بنا
کر اقتدار کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ انہوں نے تقریروں اور بیانات کی جو ’’بدعت‘‘
شروع کی تھی موجودہ قابل احترام جج بھی اسی بدعت پر چل پڑے ہیں ۔ انکے
بیانات اور خطبات میڈیا پر شائع اور نشر ہورہے ہیں۔ عوام تو لاچار، بے بس
اور مجبور ہیں اور حالات کا ماتم ہی کرسکتے ہیں۔ عوام کے مقدر کی ستم ظریفی
دیکھیے کہ با اختیار اور مقتدر جج بھی عدل و انصاف یقینی بنانے کی بجائے
حالات کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ درست فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان بدانتظامی
اور بری حکمرانی کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے‘‘۔ حضور والا
عوام کو ڈرانے کی بجائے انصاف کی ذمے داری پوری کیجئے۔ جسٹس ثاقب نثار ایک
تاریخی فیصلے میں عدالتی مقدمات کے فیصلوں کی مدت مقرر کرچکے ہیں۔ سپریم
کورٹ اور ہائی کورٹس کے محترم چیف جسٹس اس فیصلے پر ہی عملدرآمد کردکھائیں۔
جسٹس میاں عبدالرشید، جسٹس حمود الرحمن، جسٹس کیانی، جسٹس کارنیلیس، جسٹس
صمدانی عدلیہ کے نیک نام اور محترم جج تھے۔ جو ’’سیاسی بیانات‘‘ کی بجائے
اپنے فیصلوں سے بولتے تھے۔
مفکر اسلام علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جب بھی مسلمان زوال کا شکار ہوئے تو
اسلام نے ہی انکی رہنمائی کی۔ آج پاکستان کے عوام اور پاکستانی سماج دونوں
عدل و انصاف نہ ہونے کی بناء پر زوال پذیر ہیں تو ہم عید میلادالنبیﷺ کے پر
مسرت اور روح افروز موقع پر رحمتہ اللعالمینﷺ سے عدل و انصاف کے سلسلے میں
رہنمائی لیتے ہیں۔ سیرت رسولﷺ قرآن کی عملی تفسیر تھی۔
ارشاد ربانی ہے کہ ’’اے ایمان والو! انصاف کو قائم کرنے والے بن جائو اور
خدا کے واسطے کے گواہ بنو۔ خواہ یہ گواہی اپنی ذات کیخلاف ہو یا اپنے
والدین یا اقربا کیخلاف ہو۔ وہ امیر ہوں یا غریب، اللہ ان کا بہتر نگہبان
ہے تم اپنی خواہشات کی پیروی میں عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم بات کو گول
کرجائو گے یا سچائی سے پہلو بچائو گے تو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے
باخبر ہے‘‘۔[135:4] ’’اے ایمان والو! اللہ کیلئے انصاف کی گواہی دینے کیلئے
کھڑے ہوجایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم
عدل چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو کہ یہی تقویٰ کے قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو
کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے‘‘۔ [8:5] ’’کسی کی شخصی
مخالفت کے باعث نا انصافی کے مجرم نہ بن جائو بلکہ عدل کرو اور یہی متقی کی
شان ہے‘‘۔[8:5] ’’ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور ان کے ساتھ
کتاب اور میزان اُتاری تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر‘‘۔[25:57]
حضور اکرمﷺ نے ریاست مدینہ میں عدل و انصاف کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ ہمارے
جج انصاف کے چند واقعات سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ’’خیبر کی فتح کے بعد
مفتوحہ زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ یہود نے اللہ کے رسولﷺ سے درخواست کی کہ
وہ چونکہ زمین پر بہتر کاشت کرسکتے ہیں لہٰذا زمینیں انکے پاس ہی رہنے دی
جائیں اور وہ پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کرینگے۔ آپﷺ نے اس تجویز
سے اتفاق کیا۔ بٹائی کا وقت آتا تو آپﷺ حضرت رواحہؓ کو بھیجتے جو فصل کے
دو حصے کرتے اور یہود سے کہتے کہ اس میں سے جو حصہ چاہے لے لو۔ یہود اس عدل
پر متحیر ہوکر کہتے کہ زمین اور آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں‘‘۔[بلاذری]
’’یہودیوں نے آپﷺ سے شکایت کی کہ مسلمان مساقات (حصہ وصول کرنے) کے بعد
بھی انکی فصلوں اور سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے حکم دیا کہ
معاہد قوم کا مال مسلمان کیلئے حلال نہیں ہے۔ اسکے بعد مسلمان سبزی وغیرہ
قیمتاََ خریدنے لگے‘‘۔ [الواقدی]
فتح مکہ کے بعد رحمتہ اللعالمین اور محسن انسانیتﷺ نے اسلام کے دشمنوں کو
معاف کردیا تھا۔ انسانی تاریخ میں برداشت اور عفو کی اس سے بڑی مثال نہیں
ملتی۔ حضور اکرمﷺ خانہ کعبہ میں مناصب عطا فرمارہے تھے آپﷺ کے چچا حضرت
عباسؓ اور داماد حضرت علیؓ نے حضور اکرمﷺ سے درخواست کی کہ خانہ کعبہ کی
کلید ان کے سپرد کردیں۔ آپﷺ عام معافی کا اعلان فرماچکے تھے اس لیے انصاف
کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قبائلی، مذہبی اور خاندانی تعصب کو مسترد کرکے
آپﷺ نے خانہ کعبہ کی کلید صفوان بن عثمان کے پاس ہی رہنے دی جس نے ابھی
اسلام بھی قبول نہیں کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ مدعی کے ساتھ
قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے قاضی نے امیر المومنین کو بیٹھنے کیلئے بہتر
جگہ دی تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ امتیازی سلوک اسلام کے عدل و انصاف کے
اصولوں کے منافی ہے۔ ہم اپنے محترم جج صاحبان سے مودبانہ گذارش کرتے ہیں کہ
وہ تقریریں کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم
کرنے کیلئے حکومت کی رہنمائی بھی کریں اور اس پر عدالتی دبائو بھی ڈالیں
کیونکہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی آئینی تقاضہ ہے۔ |
|