جب خواب ٹوٹتے ہیں!

بوبی اُن نوجوان لڑکوں کی طرح ہی ثابت ہوا جنکو سکول کی تعلیم کے دوران ہی لڑکیاں پسند آنا شروع ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔اس دوران اُس کے ایک پرانے محلے کے قریبی دوست نے اطلاع دی کہ جس لڑکی کو تم پسند کرتے ہو وہ گزشتہ چند ماہ سے بیمار۔۔۔۔۔بازاروں کا ایک اپنا ہی ماحول ہوتا ہے۔تعلیم سے زیادہ وہاں نصیب کا راج ہو تا ہے۔۔۔۔۔بوبی نے اُنکی بات تو مان لی لیکن رُخ جو سیدھا کیا تو سامنے ایک نئی لڑکی کھڑی تھی۔۔۔۔۔آج بوبی کے بچے ہیں لیکن خواب نہیں۔اوہ!

کہیں دور چلا جائے

 بچے کی پیدائش جہاں اُس کے ماں باپ اور گھر کیلئے ایک رونق ہوتی ہے وہاں اُسکی پیدائش سے ہی اُس کے مستقبل کی منصوبہ بندی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ غریب سے امیر تک ہر والدین کی اولین کوشش اُسکی بہترین دینی و دُنیا وی تعلیم و تربیت ہو تی ہے ۔لیکن قدرتی طور جیسے ہی بچے نوجوانی کی عمر میں میں قدم رکھتے ہیں اُنکے رویوں میں ایک ایسی دلچسپ تبدیلی نظرآ نا شروع ہو جاتی ہے جو مستقبل کیلئے اُنکی معاون ھی ثابت ہو سکتی ہے اور ناکامیوں کے باعث دل برداشتہ بھی کر کے رکھ سکتی ہے۔

گورنمنٹ کے ایک ریٹائر افسر کا ایک بیٹا بوبی اور دو بیٹیاں ہیں۔بیوی اُنکی گھریلو خاتون ہیں اور دونوں آجکل بڑھاپے کی خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اُنکے تینوں بچے شادی شُدہ ہیں ۔گو کہ خاندانی مسائل و رشتے داریوں میں دُکھ سُکھ کے دن بھی دیکھنے پڑتے ہیں لیکن زندگی کے اِن لمحوں میں اُنکے بیٹے بوبی کے روئیے کی داستان اپنی جگہ اُن نوجوانوں کی خواہشات سے منسلک کی جا سکتی ہے جو مستقبل کے حسین خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوششیں تو کرتے ہیں لیکن ناکام ہو جانے کے بعد اپنے خواب اپنے سامنے ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

بوبی اُن نوجوان لڑکوں کی طرح ہی ثابت ہوا جنکو سکول کی تعلیم کے دوران ہی لڑکیاں پسند آنا شروع ہو جاتی ہیں۔نویں جماعت میں محلے کی لڑکی سے آنکھ لڑا بیٹھا تو والدہ نے وہ پٹائی کی کہ نانی یاد آگئی۔کچھ مدت اس خوف میں رہا کہ والدین کہیں ناراض ہی نہ ہوجائیں لہذا بہتر ہے تعلیم ہی مکمل کی جائے۔اس دوران اُسکے والدین نے اپنا گھر خرید کر محلہ بھی بدل لیا۔گھر تو تبدیل ہوگیا لیکن دِل میں جو اُس عمر میں ایک دفعہ بس جائے اُسکو کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ایف ۔اے کا امتحان پاس کر کے خواہش تھی کہ ایک دفعہ والدین کو راضی کرنے کی کوشش کروں ۔لیکن اُنکا زور تھا کہ اس عمر کے عشق شادی کے بعد نہیں رہتے اور زیادہ تر ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑتا ہے۔ لہذ پہلے بی ۔اے تک تعلیم مکمل ہو جائے تو پھر مستقبل کا تعین بھی کر لیں گے اور شادی کا فیصلہ بھی۔

بوبی کے والد چاہتے تھے کہ اُنھوں نے چونکہ ساری زندگی گورنمنٹ کی ملازمت کی ہے ۔لہذا ریٹائر منٹ کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کوئی کاروبار کیا جائے۔اس لیئے اُنھوں نے جوہر ٹاؤن کی ایک اہم مارکیٹ میں ایک مناسب سائز کی دوکان خرید کر بوبی کو وہاں بچوں کے گارمنٹس کا کاروبار شروع کروا دیا۔ اس دوران اُس کے ایک پرانے محلے کے قریبی دوست نے اطلاع دی کہ جس لڑکی کو تم پسند کرتے ہو وہ گزشتہ چند ماہ سے بیمار تھی اور ڈاکٹروں نے اُس کے ٹیسٹ کروانے کے بعد اُسکے والدین کو بتایا ہے کہ اُنکی بیٹی کو "کینسر "ہو گیا ہے۔ جسکی آخری اسٹیج ہے۔ بوبی کیلئے یہ خبر اُس کے "خواب ٹوٹنے" کے مترادف تھی لیکن اُس نے حوصلہ کرتے ہوئے اپنے دوست سے یہ اُمید ظاہر کی کہ دیکھنا میری محبت اُسکی صحت ثابت ہو گی۔

بوبی کا اُس خبر کے بعد ایک دفعہ پھر ذہن اُلجھ سا گیا اور ساتھ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق بھی جاتا رہا۔ لیکن اُس نے اپنے والدین کی فرما نبرادری کو اہمیت دیتے ہوئے کاروبار میں دلچسپی لینی شروع کر دی ۔پھر آخر کار خبر وہی آئی کہ اُس" لڑکی کا انتقال" ہو گیا ہے۔بوبی کی خاموشی کہیں کچھ اور ہی رنگ نہ دکھا دے والدین اور بہنیں پریشان ہو گئیں۔اُدھر دوکان پر اُس نے کسی پر بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ اُس پر کیا گزر گئی ہے ۔

بازاروں کا ایک اپنا ہی ماحول ہوتا ہے۔تعلیم سے زیادہ وہاں نصیب کا راج ہو تا ہے۔لہذا کون کتنا پڑھا لکھا ہے یہ اہم نہیں ہوتا ۔اہم یہ ہوتا ہے کہ کمائی اور چمک دمک کس کی زیادہ ہے۔سارا دن گاہک کے انتظار میں فارغ بیٹھے ہوئے دوکاندار اور اُنکے ملازمین اِدھر اُدھر کی گپیں مارتے رہتے ہیں ۔لہذا اس ہی صورتِ حال کے پیشِ نظر بوبی نے بھی فی الوقت بازار والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن ذہنی طور پر وہ کہیں اور ہی تھا۔کچھ راہیں بے راہ روی کی طرف بھی نکلتی نظر آنا شروع ہوئیں تو سب نے اُسکو سمجھایا کہ زندگی کا ابھی طویل سفر پڑا ہے۔لہذا رُخ سیدھا ہی رکھو ۔

بوبی نے اُنکی بات تو مان لی لیکن رُخ جو سیدھا کیا تو سامنے ایک نئی لڑکی کھڑی تھی۔اوہ!اب وہ کیا کرتا۔خوبصورت اور دل کو بھانے والی۔ چند دنوں میں اُسکے ساتھ کچھ روابط قائم ہوئے تو بوبی کو اندازہ ہوا کہ اس میں اور پہلی والی میں فرق یہ ہے کہ اُس عمر میں خوف کا پہرہ تھا اور اُس لڑکی سے اُسکی ایک بھی ملاقات نہ ہو پائی تھی۔لیکن اس کے ساتھ ملاقاتوں نے اُس کے ذہن میں محبت کا حقیقی تصور اُجاگر کر دیاتھا اور اب وہ ایک دفعہ پھر آنے والی زندگی کے نئے خواب دیکھنے لگا تھا۔

آپس کی جان پہچان کے بعددونوں کے گھر والوں کی بھی آپس میں ملاقات ہو گئی۔لیکن اس دفعہ پھر بوبی کے والدین نے یہ کہہ کر کہ وہ لڑکی ایک امیر خاندان کی ہے لہذا یہ رشتہ ہوتا ہوا ممکن نظر نہیں آتا۔ ابھی اس پر سوچ بچار جاری تھا کہ معلوم پڑا کہ لڑکی کے والد نے دوسری شادی کر لی ہے اور گھر میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔اِدھر بوبی کے والدین نے بھی انکار کر دیا کہ اب وہ اُس لڑکی کے خاندان سے کوئی تعلق قائم نہیں کر سکتے کیونکہ اُسکے والد نے دوسری شادی کر لی ہے۔حالانکہ بوبی نے کہا کہ دینی طور پر اُنھوں نے ایک جائز کام کیا ہے۔لیکن پھر بھی معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اور بوبی کے والدین نے اُسکی منگنی کسی اور جگہ کر دی۔
بوبی نے وقتی طور پر تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ لیکن پھر چند ماہ بعد اُس لڑکی یاد ستانے لگی تو اپنے والدین سے ضد کرنے لگا کہ ایک تو وہ اُس لڑکی سے ہی شادی کرے گا اور دوسرا وہ کاروبار میں بھی تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ شاید وہ فرما برداری کا بوجھ اب برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔لہذا پہلے اُس نے منگنی توڑ دی اور پھر اُس ہی دوکان میں پلاسٹک کے برتنوں کاکاروبار شروع کر دیا۔اپنی "محبت" سے ایک مدت سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور کوئی رابطہ نمبر بھی نہیں تھا ۔اس لیئے ایک دن موٹر سائیکل پر اُس کے گھر کے باہر جاکر دیوانہ وار چکر لگانے شروع کر دیئے۔کچھ لوگوں کو شک ہوا تو وہاں سے بھاگ نکلااور گھر پہنچ کر والدین اور بہنوں سے ضد کرنے لگا کہ وہ وہاں اُسکا رشتہ لیکر جائیں۔

بوبی نے اُنکو خوشی خوشی گاڑی پر اپنی محبت کے گھر اُسکے والد سے رشتہ لینے بھیجا اور پھر چند لمحوں بعد خود بھی رکشہ لیکر پیچھے چلا گیا۔والدین اور بہنیں گھر کے اندر جا چکی تھیں اور وہاں اور بھی بہت سی کاریں کھڑی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ معلوم کرے کہ کیا ماجرا ہے کہ اُس کو محسوس ہوا کہ گھر کے قریب کھڑے دونوجوانوں نے شاید اُسکو پہچان لیا ہے کہ یہ وہی موٹر سائیکل والا لڑکا ہے۔اس پر بوبی نے واپس دوڑ لگا کر اُس رکشے والے کو ہی روکا اورکر گھر کی طرف واپسی کی راہ لی۔لیکن ذہن میں سوال یہی تھا کہ وہاں کیا ہو سکتا ہے؟

لڑکی کے گھر کے اندر داخل ہوئے تو وہاں مرد سر جھکائے کھڑے تھے۔بوبی کے والد نے پوچھا ! خیریت ہے! تو جواب سُن کر سب ہکا بکا رہ گئے کہ" لڑکی کے والد کا آج صبح انتقال ہو گیا ہے" اور اندر اُنکی میت پڑی ہوئی ہے ۔چند لمحوں میں اُنکا نمازِجنازہ ادا کی جائے گی۔والد نے نمازِ جنازہ پڑی اور خواتین نے گھر والوں کے ساتھ افسوس کرنے کے دوران کچھ ایسی معلومات حاصل کر لیں جن میں یہ بھی تھی کہ اُس لڑکی کی "شادی" فیصل آباد کے ایک صنعت کار کے بیٹے سے ہو چکی ہے۔

اس دفعہ والدہ نے بحیثیت ایک" ماں"اپنے بیٹے بوبی کو واقعی دُکھ بھری نگاہ سے دیکھا اور سارا معاملہ روتے ہوئے بیان کر دیا۔یہ کیا ہو گیا؟ بوبی بولا ۔۔میں نے تو اپنی خواہش ہی ظاہر کی تھی ۔کیا انسان کو خواب نہیں دیکھنے چاہییں؟خواب تو سب دیکھتے ہیں شاید ٹوٹنے کیلئے۔۔۔میں جا رہا ہوں ۔۔میں جا رہا ہوں۔۔۔۔
بوبی صبح سویرے اُٹھا تو اُس کا ذہن بدل چکا تھا اور اب اُسکی خواہش تھی کہ وہ اس شہر سے ،اس ملک سے کہیں دور چلا جائے۔

بوبی کونہ کوئی سمجھ رہا تھا اور نہ ہی سُن رہا تھا۔بس ایک دن وہ اچانک گھر سے کسی دوسرے شہر چلا گیا۔کہاں یہ تو اُس نے نہیں بتایا لیکن یہ سوچ کر کہ اُسکے بوڑھے والدین پریشان نہ ہوں پہلے راستے سے اور پھر جہاں گیا تھا وہاں سے جاکر لینڈ لائن سے گھر ٹیلی فون کر دیا کہ وہ خیریت سے ہے۔موبائل اُن سالوں میں اُسکے پاس نہیں تھا لہذا مزید رابطہ ممکن نہیں تھا۔

بوبی نے فی الوقت اخراجات پورے کرنے کیلئے ایک سیکیورٹی کمپنی میں گارڈ کی ملازمت اختیار کر لی اوراِدھر والدین اور قریبی رفقاء اُسکی تلاش کرتے رہے ۔بوبی کے چند دوکاندار دوستوں نے اُسکے والد سے کہا کہ اس کو بیرونِ ملک بھیج دیں۔کسی نے کچھ اور مشورے دیئے ۔لیکن پہلا سوال تو یہی تھا کہ پہلے وہ گھر تو واپس آئے۔

بوبی اپنے والدین سے کبھی الگ نہیں رہا تھا لہذا وہ اکیلا اُداس ہو گیا۔چند دوستوں سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے گھر واپس آنے پر زور دیا۔اُسکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے کہ ایک دن اُسکے والد اپنے ایک عزیز کے ساتھ اُسکو تلاش کرتے ہوئے فیصل آباد پہنچ گئے جہاں وہ ایک کمرے میں سویا ہوا تھا۔اچانک اُنکو دیکھ کر حیران رہ گیا اور پھر اُن دونوں کے سمجھانے پر واپس اپنے گھر آ گیا۔بہنوں نے کہا کہ ہمارا بھائی اُداس نہ ہو ہم اُسکے لیئے خوابوں کی پری ہی ڈھونڈ کر لائیں گے اور پھر اُسکی شادی کیلئے رشتے دیکھنے شروع کر دیئے۔
لڑکی کیسی ہونی چاہیئے؟بوبی کیلئے یہ اب کوئی سوال نہیں تھا۔لہذا شاید اس ہی لیئے اُسکے والدین کو تو رشتے پسند آجاتے ۔لیکن جب لڑکی والوں کے گھر والے بوبی کو ملتے تو شکایت کرتے کہ اُسکے رویئے میں اُنکو "بناوٹ" نظر آتی ہے ۔وہ اُنکی موجودگی کو اہمیت نہیں دیتا تو اُنکی بیٹی کا خیال کیسے رکھے گا؟اسطرح دو تین سال گزر گئے اور بوبی نے اس دوران اپنا دل اپنے کاروبار میں لگا لیا ۔وہ جان چکا تھا کہ اب شادی کا رشتہ اُسکے لیئے ایک روایتی سا ہو گا۔

آخر کار وہ دن آہی گیا اور گھر والوں کی پسند سے ایک اچھے خاندان کی لڑکی سے بوبی کی شادی انجام پا ہی گئی۔وہ بہت خوش تھا ۔سب کو بتا رہا تھا۔ ماضی کو بھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔سب بھی اُس کو مبارک دے رہے تھے۔اُسکی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول قائم کر کے اپنے اُس تصور کو غلط قرار دے کہ اُسکی یہ شادی روایتی طرز کی ہی ہے۔لیکن چند مہینوں بعد وہ کچھ اُداس نظر آنے لگا۔دوستوں نے سوال کیا تو پہلے خاموش رہا لیکن پھر بولا!کیا بیوی ایسی ہو تی ہے؟

بوبی کہنے لگا!میں اُس کیلئے کچھ کھانے کیلئے لیکر جاتا ہوں تو دلجوئی بھی نہیں کرتی۔کہیں رات کو کار پر سیر کرتے ہوئے کسی ہوٹل پر کھانا کھانے کی خواہش کرتا ہوں تو مانتی نہیں ہے۔پسند کے کپڑے لیکر دینا چاہتا ہوں تو کہتی ہے کہ آپ میری پسند کے کپڑے لے ہی نہیں سکتے۔ کیا خاوند کی پسند بیوی کی پسند نہیں ہو نی چاہیئے؟
آج بوبی کے بچے ہیں لیکن خواب نہیں۔اوہ!
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 342040 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More