علم کی بات بتاؤ
نامور دانشور و قلمکار اشفاق احمد صاحب کے ایک بیٹے انیق احمد 80ء کی دہائی
کے آغاز میں ایف سی کالج لاہور میں نفسیات کے لیکچرار تھے۔جن طلباء کی
امتحان کیلئے تیاری مکمل نہیں ہوتی تھی اُنکو وہ اپنے گھر "داستانِ
صحرائے"واقع ماڈل ٹاؤن بُلا کر بغیر کوئی فیس لیئے پڑھا دیا کرتے ۔اس دوران
جناب اشفاق احمد صاحب تو اپنی مصروفیات کے باعث گھر پر کم ہی ہوتے ،لیکن
محترمہ بانو قدسیہ صاحبہ وہاں موجود ہوتیں اور اگرسر انیق احمد کہیں گئے
ہوتے تو وہ انتظار کیلئے طلباء کو اُس ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا کرتیں جس
میں ایک غیر ملکی خوبصورت پالتو بلی بھی پھرتی رہتی تھی۔ کوشش تو یہی ہوتی
کہ کوئی شرارت نہ ہو ۔لیکن ایک دن اشفاق احمد صاحب کی گھر میں موجودگی کے
دوران اُن لڑکوں سے کچھ شور شرابا ہو ہی گیا ۔چند لمحوں بعدسر انیق احمد
آئے اور کہا کہ اشفاق صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ تعلیم حاصل کرنے آئیں ہیں
تو انکو علم کی بات بتاؤ کہ "اس تعلیم سے تم جوڈگریاں حاصل کر کے سوٹ بوٹ
پہن کر سڑک پر اکڑ تے ہوئے جا رہے ہوگے توسامنے سے آنے والے شخص نے اپنے
علم کے مطابق تمھیں آواز نہ دی کہ بابو دیکھ کر آگے گٹر پر ڈھکنا نہیں ہے
تو ڈگریوں سمیت تم گٹر میں "۔یہ تھی وہ دل کی آواز جو لڑکوں کی نفسیات پر
اثر کر گئی۔
ماں بچوں کا انتظار
شہر میں روٹ پر چلنے والی ایک ویگن میں جو مسافر بیٹھے ہوئے تھے اُن میں
عام گھرانے کی دو خواتین بھی شامل تھیں ۔رشتے میں ما ں بیٹی لگ رہی تھیں
اور بیٹی بھی عمر سے ما ں ہی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اشارے پر اُس ویگن کے
ساتھ ایک کوچ نما بس آ کر رُکی جس میں سکول اور کالج سے چھٹی کے بعد لڑکے
اپنے گھروں کو جارہے تھے۔لڑکوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ بس کی
چھت پر بھی چڑھے ہوئے تھے اور آپس میں مذاق میں دھکم پیل بھی کررہے تھے۔
اُن میں سے دو چار ایک دو لڑکوں کو بس کی چھت سے مذاق میں دھکیلنے کی بھی
کوشش کر رہے تھے کہ اس دوران جب ایک لڑکا واقعی گرتے گرتے بچا تو اچانک اُن
خواتین میں سے چھوٹی والی کے مُنہ سے ایسا فقرہ پنجابی زبان میں نکلا کہ
سارے اُس کی طرف دیکھ کر داد دیئے بغیر نہ رہ سکے کہ دل کے دُکھ کا اظہار
اتنا ہی فی البدی ہو سکتا ہے۔اُس نے اُنکی اُس حرکت پر کہا تھا کہ "ماواں
پائیاں راواں تکن ڈائیں نے، تے منڈے کی کرین ڈائے نیں"۔یعنی مائیں اپنے
بچوں کا گھر پر انتظار کر رہی ہیں اور بچے کیا کر رہے ہیں۔(خاص طور پر یہ
جو آجکل اتوار والے دن موٹر سائیکلوں پر لڑکے کرتے ہیں)۔
پولیس والا اور پیں پاں
چند سال پہلے ماہِ اگست کی ایک رات کو کوٹھی میں چوری کی واردات کے بعد
وہاں پولیس آئی اور جائے وقوعہ کا جائزہ لینے کے بعد اُن میں سے انچارج
پولیس والا بولا کہ کل دوپہر دوبارہ آکر باقاعدہ رپورٹ لکھوں گا۔اگلے دن
دوپہر کو کوٹھی والے اُسکو لینے گئے تو وہ تھانے میں دھوتی پہن کر چارپائی
پر لیٹا ہوا شاید اپنی احساسِ محرمیت کے پہلوؤں کا جائزہ لے رہا تھاکہ اُس
کو کہا کہ آئیں چلیں۔وہ ادب سے بولا ایک منٹ بیٹھیں میں وردی پہن آؤں۔ اُن
دنو ں کاروں میں نیا نیا" ریمورٹ اَلارم لاک" سسٹم آیا تھا۔ لہذا انتظار
میں اُنھوں نے اپنی کار کا اَلارم لاک لگایا تو اُسکی آواز سن کر وہ پولس
والا واپسی پر بولا کہ اچھا آپ نے بھی یہ" پیں پاں" ولا لاک لگایا ہوا ہے
اور کار میں اُنکے ساتھ بیٹھ کو بولا کہ نئی گاڑیوں کیلئے یہ اَلارم بہت
فائدے مند ہے۔ اسکو لگانا بھی چاہیئے۔کیونکہ آپ کے قریب کی ہی کوٹھی میں
ایک کمپنی نے اپنے چیف اکاؤنٹ افسر کو بڑی گاڑی دے کر یہی اَلارم لاک بھی
لگوا کر دیا تھا۔ چند روز پہلے رات گئے وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی تقریب سے
واپس آکر گیٹ کھولنے کے بعد گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ دو چور موٹر سائیکل
پر ساتھ اندر آگئے اور افسر کی کنپٹی پر پستول رکھ کر گاڑی کی چابی مانگی
۔مرتے کیا نہ کرتے چابی دے دی اور پھر اُن میں سے ایک چور نے گاڑی سٹارٹ کر
کے باہر نکالی۔۔۔۔اور پھر جو سپاہی نے بازو اُونچا کر کے ہاتھ کے اشارے سے
سمجھایا وہ کسی کی بے بسی پر اُسکے دل کی آواز ہی ہو سکتی ہے کہ ، آگے گاڑی
اور پچھے موٹر سائیکل۔۔ وہ افسر اور اُسکی بیوی خوف کے مارے دیکھتے ہی رہ
گئے کہ" نہ پیں نہ پاں"۔
فقیر بابا کا کشکول
بس میں سفر کے دوران اگر غور کیا جائے تو مسافرو ں کے دلچسپ جملے سننے کو
ملتے ہیں اور وہ بھی خاص طور پر لوکل روٹ پر۔اسی طرح کی روٹ پر چلنے والی
بس میں ایک فقیربابا جس کے بال لمبے ،جسم پر کالے رنگ کا چوغہ اورہاتھ میں
کشکول تھا چڑھ آیا اور مانگنا شروع کر دیا۔چند لمحوں میں تقریباًہر ایک کے
آگے اُس نے کشکول کیا لیکن کچھ لوگوں کے علاوہ کسی نے اُسکی طرف توجہ بھی
نہ دی۔ اس ہی دوران بس راستے میں ایک ایسے سٹاپ پر رُکی جسکے نزد ایک بابے
کا مزار تھا۔بس کے ڈرائیور نے کنڈیکٹر کو آواز دی کہ دس روپے مزار کے صندوق
میں ڈال آ۔ابھی اُس نے بس کی سیڑھی سے اُترنے کیلئے قدم بڑھایا ہی تھا کہ
مختلف مسافروں نے بھی آوازیں دینے شروع کر دیں کہ ہم سے پیسے لے جاؤ اور
بابا کے مزار کے صندوق میں ڈال آ ؤ۔بس میں مانگنے والا بابا ہاتھ میں کشکول
پکڑے یہ سب حیرانگی سے دیکھتا ہوا انتہائی عقیدت سے بولا " کہ بزرگاں دے
صندوق پردے رہو مینو کوئی افسوس نہیں۔ افسوس تے ایدہ اے کہ زندہ بابا مانگ
مانگ کے تھک گیا اے تے اوداھ کشکول خالی۔ ایدہ مطلب ہیے میں وی مراں گا ہی
تے ۔۔۔"(بزرگ کا صندوق بھرتے رہو مجھے کوئی افسوس نہیں ۔افسوس یہ ہے کہ
زندہ بابا مانگ مانگ کر تھک گیا ہے اُس کا کشکول خالی۔اس کا مطلب ہے میں
بھی مروں گا ہی تو۔۔) اور پھر وہ تو خاموش ہو گیا لیکن مسافر حیران رہ گئے
کہ بابے نے دل کے تار کا وہ ساز چھیڑا ہے جس میں دُکھ کے وہ سُر تو ہیں جس
پر آہ بھری جاسکتی ہے لیکن معاشرے کی گرفت سے نکلا نہیں جاسکتا۔
سب کچھ ہے سکون نہیں
جولائی کا مہینہ تھا اور گرمی و حبس شدید۔ملک بھر میں رات 8سے10کی بجلی کی
لوڈشیڈنگ معمول کے مطابق جاری تھی کہ دو تین خواتین ایک دوکان میں خریداری
کیلئے داخل ہوئیں ۔اُس وقت یو پی ایس کی بیٹری بھی ختم ہونے والی تھی ۔چند
لمحوں میں اُن خواتین کا بُرا حال ہو گیا تو اُن میں سے ایک نو عمر لڑکی نے
دوکاندار سے مخاطب ہو کر کیا کمال کہا کہ دیکھیں آج ہمارے گھروں و دوکان
میں خوبصورت لائٹس بھی ہیں پنکھے بھی اور سب سے اہم کے ایئر کنڈیشنربھی
۔لیکن نہیں ہے تو بجلی نہیں ہے۔"سکون والی اشیاء سے بھی سکون حاصل کرنا
ممکن نہیں"۔
دل کی پسند یہی ہے
ایک معزز خاتون خوبصورت کپڑے زیب تن کیئے ہوئے شاپنگ پلازہ میں ایک گارمنٹس
کی دوکان کے اندر داخل ہوئی اور ایک جیکٹ کو دیکھ کر بولی کہ اسکے اور رنگ
و ڈیزائن د کھا دو۔دوکاندار نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ سردی کا موسم چونکہ
اختتام پر ہے لہذا یہ آخری ہے ۔بہرحال دوکان میں اور بھی گارمنٹس کی ورائٹی
ہے آپ کو کچھ اور دکھا دیتا ہوں۔اُس نے جواب میں ایک ایسا خوبصورت جملہ
بولا جس سے ایک تو اُسکی تعلیمی قابلیت سے زیادہ علمی روشنی کی نشاندہی
ہوئی اور دوسرا دوکاندار کا دل بہت خوش ہوا۔ پھر اُس نے پوچھنے پر دوکاندار
کو بتایا کہ وہ یہاں کے ایک مشہور کالج میں کیمسٹری کی لیکچرار ہیں۔ جملہ
یہ تھا کہ "آپ کی دوکان میں ہر چیز بہت خوبصورت نظر آرہی ہے لیکن میرے دل
کی پسند یہی ہے لہذا اس ہی کو پیک کر دیں" ۔ |