لودھراں میں تحریک انصاف نے میدان مارلیا

23دسمبر2015ء کو ہونے والا قومی اسمبلی حلقہ این اے 154لودھراں کا ضمنی انتخاب تحریک انصاف کو شاندار فتح سے ہم کنار کرگیا اور نون لیگ کو بد ترین شکت دے گیا۔اس سے قبل ہونے والے این اے 122کا ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق فتح یاب ہوئے تھے۔ اس وقت نون لیگ شیر کے نشان کے ساتھ شیر نی بن کر سامنے آئی تھی اور تحریک انصاف کے تمام تر دھاندلی کے شور شرابے کو بے بنیاد اور لغو تصور کیا جانے لگا تھا۔ اس انتخاب نے نون لیگ کے بارے میں یہ تاثر قائم کر دیا تھا کہ نون لیگ عوام میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے، اس کا گراف اوپر کی جانب ہے، عمران خان باوجود اپنی تمام تر کوششوں کے نون لیگ کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ایاز صادق کی جیت نے نون لیگیوں کے حوصلے بلند کر دیے تھے وہ سینہ تان کر عمران خان کے تمام تر الزامات کو ’نہ مانوں‘ کی رٹ سے تشبیح دے رہے تھے۔ نون لیگ کا بونے سے بونا لیڈر بھی تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔ جب کے تحریک انصاف شکست کے باعث بغلے بجا تی دکھا ئی دے رہی تھی۔ اس ضمنی انتخاب کے بعد ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کی پے در پے فتح سے نون لیگیوں کا مارل اور زیادہ ہائی ہوگیا تھا جب کہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں شکت کے بعد اور بھی زیادہ پستی میں چلی گئی تھے۔ آخری معرکہ کراچی میں ہوا جس میں تحریک انصاف کو جماعت اسلامی سے اتحاد فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنا ۔تحریک انصاف کو پوری امید تھی کہ وہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں فاتح بن کر ابھرے گے لیکن یہاں بھی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو کامیابی نہ ہوئی اور کراچی کا میئر بنانے کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔

شکست در شکست کے بعد تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے ، کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی کیفیت تھی۔ انصافیے ابھی اسی کیفیت میں تھے کہ لودھران کا ضمنی انتخاب سر پر آگیا۔ جو صورت حال سامنے تھی ، تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں شکست کھارہی تھی ، بلدیاتی انتخابات میں پنجاب اور سندھ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ، یہ خیال کیا جارہا تھا اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت بشمول میرے یہ خیال کررہی تھی کہ لودھراں میں بھی نتیجہ کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین نون لیگ کے امیدوار صدیق بلوچ سے ہار جائیں گے باوجود اس کے کہ صدیق بلوچ کو کورٹ سے انتخاب لڑنے نا اہل قرار دیا گیا، اس سے ان کے کارکنوں میں بدلی پھیلی ، وہ اپیل میں گئے جہاں سے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی۔ ادھر کپتان نے اپنے جوہر دکھائی ، کارکنوں کو حوصلہ دیا، نون لیگ کے خلاف خوب خوب بھڑکایا، دوسرے جانب تحریک انصاف کے امید وار جہاگیر ترین نے اپنی تمام تر طاقت انتخاب جیتنے پر لگادی۔تحریک انصاف کے چودھری سرور نے لودھراں میں ڈیرے ڈالیے۔ دونوں جانب سے سخت مقابلہ تھا۔ اس کے باوجود تجزیہ نگار وں کا خیال یہی تھا کہ نون لیگ کم مارجن سے ہی صحیح لیکن میدان مار لے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، تجزیہ نگاروں کے تجز یے غلط ثابت ہوئے، نون لیگ میدان مارنے کے بجائے شکست کھا گئی۔ نون لیگ کی اس شکست کو نون لیگ کے لیے بڑا اَپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف نے نون لیگ کو گہرا ڈینٹ لگا یا ہے۔ اس جیت سے تحریک انصاف کا دیرینہ الزام کے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی کو تقویت ملی ہے۔ لودھراں کا یہ حلقہ اُن چار حلقوں میں سے ایک ہے جس کو کھولنے کی گردان تحریک انصاف عرصہ دراز سے کرتی چلی آرہی ہے۔اس کے لیے اس نے 126 دن کا دھرنا بھی دیا ،یہ حلقہ ان چار میں سے ایک ہے ۔ اس وجہ سے بھی کپتان کا یہ کہنا کہ’ دیکھو میں نہیں کہتا تھا کہ چار حلقے کھول دو دھاندلی ثابت ہوجائے گی ، اس حلقہ میں شکست سے ثابت ہوگیا کہ میری بات درست ہے، 2013کے انتخابات منظم دھاندلی کا نتیجہ تھے‘۔ ضمنی انتخاب میں کامیابی کپتان کی اس بات کو تقویت دے رہی ہے ۔ لیکن موجودہ ضمنی انتخاب کے حالات میں اور 2013کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کپتان جس قدر اب ملک میں مقبول ہوچکے ہیں ، تحریک انصاف منظم اور عوام میں مقبول ہوچکی ہے اُس وقت نہیں تھی۔

لودھراں ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی فتح کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سے چھ حسب ذیل ہوسکتی ہیں۔ (1) ایک وجہ یہ ہے کہ نون لیگ کو لودھراں کے ضمنی انتخاب سے قبل دیگر ضمنی انتخابت جیسے ایاز صادق کے انتخابات میں جو فتح حاصل ہوئی، اس کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں جو فتح حاصل ہوئی حالانکہ اسے خیبر پختون خواہ اور سندھ بشمول کراچی میں وہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی اس کے باوجود نون لیگی لیڈر اور اس کے ورکر ضمنی انتخاب اور بلدیاتی انتخاب کے نشہ میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے لودھراں کے انتخاب کو آسان سمجھا ، وزیر اعظم صاحب نے کسان پیکج کا اعلان ضرور کیا لیکن یہ ہربہ بھی لودھران کے عوام کو اپنی جانب متوجہ نہ کرسکا۔ لیگی لیڈروں نے لودھراں کے ضمنی انتخاب میں دلچسپی نہیں لی، جب کے تحریک انصاف نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ (2)دوسری وجہ نون لیگ نے ایک ایسے شخص کو اپنا امیدوار بنا یا جو 2013ء کے الیکشن میں آزاد حیثیت سے جیت کر نون لیگ میں شامل ہواتھا، اگر نون لیگ کے بجائے پیپلز پارٹی حکمراں جماعت ہوتی تو یہ آزاد امیدوار پیپلز پارٹی میں شریک ہوجاتا۔ گویا صدیق بلوچ کو اقتدارچاہیے تھا خواہ وہ نون سے ملے یا پی پی سے ملے۔ حلقے کے لوگوں کے ذہنوں میں اس شخص کا یہ کردار تھا۔ الیکشن میں جیت تو گیا لیکن پھر یہاں کے انتخابات کو الیکشن کمیشن نے کالعَدَم قرار کیوں دیا، اس کی وجہ صدیق بلوچ کی جالی ڈگری تھی، لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی رہی کہ اس شخص نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر الیکشن لڑا۔ یہ صاف ستھرا انسان نہیں۔ (3)تیسری وجہ صدیق بلوچ کی شکست کی یہ رہی کہ نون لیگ نے ضمنی انتخاب میں صرف یہ دیکھا کہ صدیق بلوچ نے 2013ء میں انتخابات آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر نون لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی چنانچہ نون لیگ کے ٹکٹ پرالیکشن لڑنا اِسی مرد مجاہد کا پیدائشی حق ہے، نون لیگ نے لودھراں کی مقامی لیڈر شپ سے مشورہ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا اور انہیں خاطر میں نہ لاتے ہوئے صدیق بلوچ کو ٹکٹ دے دیا، چنانچہ نون لیگ کی لودھراں کی مقامی لیڈر شپ اس بات سے اختلاف رکھتی تھی اور اس نے دلجمعی ٔسے، خلوص سے انتخاب میں وہ سرگرمی نہیں دکھائی اور حصہ نہیں لیا۔(4) چوتھی وجہ صدیق بلوچ بہادر کی اپنی ذات میں موجود کچھ خامیاں اور کمزوریاں بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صدیق بلوچ صاحب لودھراں کے لوگوں کے کام تو کرواتے رہے ہیں لیکن لودھراں میں ان کی شخصیت پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ کسی مجرے میں ان کی موجودگی کی کوئی تصویر بھی اخبار کی ذینت بن چکی ہے۔اس کی تصدیق پاکستان کے ایک سینئر صحافی عارف نظامی کر چکے ہیں۔ اسی طرح دیگر قسم کے معاملات سے انہیں جوڑا جاتا رہا ہے۔ (5)پانچویں وجہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ناکام سیاست ہے، جس کی وجہ سے پی پی کا گراف نیچے کی جانب چلا گیا۔ پارٹی پنجاب میں اپنی سابقہ حیثیت کھو چکی ہے ۔ اس کا ووٹر نون لیگ کے علاوہ تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہو ا ہے اور اس ضمنی الیکشن میں پی پی کے کافی ووٹ تحریک انصاف کی جھولی میں آن گرے ، جس نے تحریک انصاف کو فتح سے دوچار کیا۔(6)چھٹی وجہ جہانگیر ترین کی فتح اور صدیق بلوچ کی شکست کی یہ رہی کہ جہانگیر ترین اپنے ذاتی حیثیت میں اور اپنی پارٹی کے حوالے سے انتظامی معاملات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی وہ ایک بہترین منتظم ہیں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کو اس ضمنی انتخاب میں بھر پور طریقے سے استعمال کیا۔دوسرے تحریک انصا ف کے چودھری سرور جو پہلے ہی سے پارٹی کی تنظیمی معاملات میں اپنی بھر پور صلاحیتیں صرف کررہے ہیں انہوں نے شروع ہی دن سے لودھراں میں ڈیرا ڈال لیاتھا۔ لودھراں کی مقامی لیڈر شپ اور وہاں کے مقامی زمینداروں، وڈیروں، چودھریوں اور بااثر لوگوں کو تحریک انصاف کا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہے۔ انہیں تحریک انصاف کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے مقابلے میں نون لیگی لیڈر اور مقامی لیڈر شپ نے خاطر خواہ کوششیں بھی نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ جیسے ان کا امیدوار صدیق بلوچ آزاد حیثیت میں الیکشن جیت کر حکمران جماعت میں شامل ہوگیا لودھراں کے ووٹروں کی اکثریت بھی حکمرانوں کا ساتھ دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس الیکشن نے ثابت کردیا کہ ہوا کا رخ نون لیگ کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔جہانگیر ترین نے 1,29,606ووٹ حاصل کیے جب کہ نون لیگ کے امیدوار صدیق بلوچ نے 93,183ووٹ حاصل کیے،اس طرح صدیق بلوچ کو36423ووٹوں سے شکست ہوئی۔ووٹرز کا ٹرن آوٹ 60فیصد رہا ۔ اس الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار بھی الیکشن لڑرہے تھے ان دونوں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ پنجاب کے ا س حلقے میں متحدہ قومی موومنٹ کا ووٹ بنک بھی ہے اور وہ جماعت بھی یہاں سرگرم عمل تھی یہاں اس جماعت نے نون لیگ کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن متحدہ کی حمایت بھی صدیق بلوچ کے کام نہ آسکی۔ ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘ ۔لودھراں کے اس ضمنی انتخاب نے تحریک انصاف میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ سابقہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں شکست سے جو منفی اثرات ورکروں پر پڑے تھے اس الیکشن نے پوری پارٹی کو تازہ دم اور حوصلہ مند کر دیا ہے۔فتح کے بعد پارٹی میں جو لہر آئی ہے اسے قائم و دائم رہنا چاہیے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437683 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More