لیاری کی بسمہ،وی آئی پی پروٹوکول کی نذر ہوگئی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والی
دس سالہ بچی سول اسپتال میں ٹراما سینٹر کے افتتاح کے نتیجے میں وی وی آئی
پی کے پروٹو کول کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئی۔ سول اسپتال میں پاکستان پیپلز
پارٹی کے چیرٔ مین بلاول بھٹو زرداری اور سید قائم علی شاہ نے نئے تعمیر
ہونے والے ٹراما سینٹر کا افتتاح کرنے کے لیے اسپتال پہنچنا تھا ۔ ان سیاسی
شخصیات کی حفاظت کے لیے صبح ہی سے پورے علاقے میں پویس تعینات کردی گئی
تھی۔ سول اسپتال کے ارد گرد کی سڑکیں عام ٹریفک کے لیے بند کردی گئیں تھیں،
حتیٰ کہ ان سڑکوں پر پیدل سواروں کو بھی جانے کی اجاذت نہیں تھی۔ لیاری کے
ایک بے روزگار رہائشی کی دس سالہ بچی بسمہ بیمار تھی اور اس کی حالت خرا ب
ہوتی نظر آرہی تھی۔ بسمہ کا بات اپنی لخت جگر کو ہاتھوں میں اٹھائے سول
اسپتال سے کچھ دور کھڑا ڈیوٹی پر موجود پولس اہلکاروں کی خوشامد کرتا رہا ،
اس نے انہیں بتا یا کہ بچی کی حالت انتہائی خراب ہے اسے فوری طور پر اسپتال
لے جانے کی ضرورت ہے لیکن پولس اہلکار وں نے بسمہ کے باپ کی فریاد کو پیروں
تلے روند دیا اوراسے سول اسپتال جانے کی اجاذت نہیں دی۔ وقت گزرتا رہا، بچی
کی حالت خراب ہوتی گئی لیکن ڈیوٹی پر معمور پولیس اہل کار خدا معلوم کس مٹی
کے بنے ہوئے تھے انہیں معصوم بچی کی حالت پر قطعناً رحم نہ آیا۔
بسمہ کے باپ کی تڑپ ، بچی کو اسپتال تک پہنچانے کی منت سماجت ، پولس
اہلکاروں سے ہاتھ جوڑ کر بچی کی زندگی کی بھیک مانگنے ، التجائیں کرنے،
خوشامد درآمد کرنے کی صورت حال کو میڈیا کی آنکھ بار بار دکھا تی رہی،
حکومتی اعلیٰ عہدیدار وں نے بھی ٹی وی پر یہ مناظر دیکھے ہوں گے ، عام لوگ
یہ صورت حال اپنے ٹی وی اسکرین پر دیکھتے رہے، سب لوگ بسمہ کے باپ کی بے
بسی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، ساتھ ہی پروٹوکول پرمعمور شاہ کے
وفادروں کے رویے کو بھی دیکھا جارہاتھا لیکن کسی نے بسمہ کے باپ پر رحم
نہیں کھایا۔ بسمہ کے باپ کو لوگوں نے ٹی وی اسکرین پر بسمہ کو اپنے ہاتھوں
میں لیے سڑک پر دوڑتے ہوئے دیکھا، اسے جب جانے کی اجاذت نہ ملی تو وہ تمام
تر حسار کو توڑکر سول اسپتال کی سڑک پر کپڑے میں لپٹی بسمہ کو اپنے ہاتھوں
میں دبائے سول اسپتال پہنچ گیا لیکن ظالموں کی بے حسی کے باعث دیر ہوچکی
تھی، ڈاکٹر وں نے معائینے کے بعد بتا یا کہ وہ اگر دس منٹ قبل پہنچ جاتا تو
شاید بسمہ بچ جاتی لیکن اسے دنیا سے رخصت ہوئے دس منٹ ہوچکے ہیں۔ پاکستان
پیپلز پارٹی کے بلاول اور وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے لیے لگائے جانے
والے پروٹوکول نے بسمہ کی جان لے لی۔ اس کا حساب کون دے گا، ان اعلیٰ
شخصیات سے تو کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا ، حساب لینا تو دور کی بات ہے۔ دونوں
شخصیات نے دکھ کا اظہار کر کے مرنے والی کے خاندان پر احسان عظیم کیا ہے۔
یاد رکھیے یہ ظلم کی ایک قسم ہے، اس کا حساب تو دینا ہوگا دنیا میں نہ سہی
آخرت میں ضرور آپ کو اس کا حساب دینا ہوگا۔
مجبور اور بے بس باپ، غم زدہ ماں اپنی لخت جگر کے جسد خاکی کو لے کر گھر کو
واپس ہوئے۔ غریب اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ سندھ کے حکمران پچاس سے زیادہ
لشکارے ماتی رنگ برنگی گاڑیوں میں، سینکڑوں محافظوں کے حسار میں سول اسپتال
پہنچے، جہان ان پر پھول نچھاور کیے جارہے تھے ، دوسرے جانب بسمہ کی ماں اور
باپ اپنی لخت جگر کی جدائی پر ماتم کر رہے تھے اور اپنے پھول کواس کی آخری
آرام گاہ پہنچانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اعلیٰ شخصیات کے پروٹوکول ، ان
کی جان عزیز کی حفاظت کی خاطر سڑکوں کو بند کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ
نہیں تھا اورنہ ہی پروٹوکول کی وجہ سے بسمہ کا اس طرح مرجانا پہلا واقعہ
تھا اس سے قبل متعدد واقعات ہوچکے ہیں ۔ اعلیٰ شخصیات کو جب بھی کہیں سے
گزرنا ہوتا ہے تو اس علاقے کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔لوگ اسپتال
جانے سے محروم ہوجاتے ہیں، رکشاؤں میں بچے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے
کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ سیاسی عہدوں پر پہنچ جانے کے بعد وہ خود اور ان کے
وفادار یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب یہ لوگ دنیا میں اعلیٰ و افضل ہیں ،
انہیں زندگی بھر کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ موت تو ایک نہ ایک دن
آنا ہی ہے اور جس کی موت جس طرح لکھی ہے وہ اسی طرح ہی آکر رہے گی۔ یہ
حفاظتی دیواریں، پروٹوکول، پچاس پچاس گاڑیاں، آگے پیچھے درجنوں موبائیلیں،
سٹرک پرمعمور سینکڑوں اہل کار دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے اور موت کا
فرشتہ اپنا کام کر جائے گا۔ ایسا ہوچکا ہے ، ہوتا رہتا ہے،دنیا میں کتنی ہی
شخصیات ایسی ہیں کہ جو حسار میں رہتی تھیں، آگے پیچھے حفاظت کرنے والوں کی
لمبی قطاریں، آگے باڈی گارڈ ، پیچھے باڈی گارڈ، لیکن پھر بھی موت کا فرشتہ
آن موجود ہوا ، پچاس پچاس گاڑیاں، پولس اہل کار ، درجنوں موبائلیں موت کے
فرشتے کو اپنا کام کرنے سے نہ نوک سکیں۔مثالیں تو سینکڑوں ہیں ، ضیاء الحق
مرحوم کی سیکیورٹی کم تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے محافظ کم تھے ،
پرویزمشرف پر جان لیوا حملے نہیں ہوئے۔ قسمت سے بچ گئے یہ دوسری بات ہے،
سلمان تاثیر کا قتل کیسے ہوا، سعودی عرب کے شاہ فیصل کس طرح قتل کیے گئے،
بھارت میں مہاتما گاندھی قتل ہوئے، اندرا گاندھی کا انجام کیا ہوا، لبنان
کے حریری کس طرح مارے گئے، لیاقت علی خان کو بھرے مجمعے میں گولی کا نشانہ
بنا یا گیا، مجیب الرحمٰن کا کیا انجام ہوا، ابراہم لنکن، ماٹن لوتھر، جان
ایف کنیڈی کس طرح مارے گئے۔ کیا ان لوگوں کی سیکیوریٹی نہیں تھی۔ چند کو
چھوڑ کر یہ وہ لوگ تھے جن کے آگے اور پیچھے حفاظتی گاڑیوں کی لمبی قطاریں
ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ سمجھ لیناچاہیے کہ موت بر حق
ہے،جس لمحہ موت کے فرشتے کو حکم ہوا کہ اس نے آپ کی روح قبض کرنی ہے تو وہ
آپ کی حفاظت پرمعمور سینکڑوں اہلکاروں کی کھلی آنکھوں کے سامنے آپ کو بہ
حفاظت اٹھا لے جائے گا۔
افسوس ناک پہلو بسمہ کی موت کے بعد یہ سامنے آیا کہ بجائے اس کے کہ پی پی
کے رہنما و ذمہ داران اپنی غلطی کو تسلیم کرتے، اس بچی کے گھر بلاول بھٹو
ذرداری،وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ از خود تشریف لے جاتے، لیکن اس کے برعکس
اس بچی کے والد جو رنج و الم میں مبتلا تھے کو گاڑی میں بٹھاکر وزیر اعلیٰ
صاحب کے سامنے لے جایا گیا جہاں پر سندھ کے ناکام کپتان نے بچی کے والد سے
افسوس کااظہار کیا۔ سندھ کے سینئر وزیر بھی جو مستقبل کے بڑے وزیربھی
ہوسکتے ہیں نے ٹی وی پر افسوس ناک بیان دیا ان کا فرمانا تھا کہ بچی کے
مرنے کا افسوس ہے لیکن بلاول ان کے لیے قیمتی ہے، گویا بچی مرگئی کوئی بات
نہیں بلاول کا پروٹوکول زیادہ اہم تھا، اسی طرح وزیر اعلیٰ کے مشیر قیوم
سومرو کا فرمانا تھاکہ ٹھیک ہے بچی کا انتقال ہوگیا لیکن جس مقصد کے لیے
بلاول اسپتال جارہے تھے وہ مقصد بھی زیادہ اہم تھا، انہوں نے فرمایا کہ
پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں بھی پروٹوکول کے باعث جانیں گئیں ہیں، اگر
بسمہ کی جان چلی گئی تو کیا ہوا، دوسرے صوبوں میں بھی تو جانیں گئیں ہیں۔
بہت خوب ، اسے کہتے ہیں ڈھٹائی ، ندامت ، افسوس اور غم ذدہ غریبوں کی دل
جوئی کرنے کے بجائے یہ کہا جارہا ہے کہ ہم نے ایسا کیا تو کیا ہوا دوسرے
صوبوں میں بھی تو ایسا ہوتا رہا ہے۔ البتہ زرداری صاحب نے آئندہ اسپتالوں
میں تقریبات نہ کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ مرنے والی بچی کے والدین
لیاری سے تعلق رکھتے تھے، وہ لیاری جو پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھی
جاتی رہی ہے۔ آج یہ وقت آگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ اوردیگر
اعلیٰ لیڈر لیاری جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ پروٹوکول کے ساتھ ، حفاظتی گاڑیوں کی
بارات کے ساتھ، سینکڑوں پویس ا و ررینجرز کے ساتھ لیاری جانے سے کتراتے
ہیں۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو ذوالفقارعلی بھٹو ، بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی
اور آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی پیپلز پارٹی میں واضح طور پر
محسوس کی جارہی ہے۔ اندرون سندھ کے علاوہ ملک کے تمام علاقوں میں پیپلز
پارٹی رفتہ رفتہ اپنی حیثیت کم یا ختم کرتی جارہی ہے۔ کراچی کے کچھ علاقوں
میں پارٹی کی تائید موجود ہے لیکن یہاں بھی گراف نیچے کی جانب ہے۔یہ لمحہ
فکریہ ہے اعلیٰ قیادت کے لیے۔
لیاری کی بسمہ کی موت اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کے بے شمار چھوٹے بڑے
لیڈروں کے بیانات سے بسمہ کے والدین ، عزیزرشتہ داروں کوتو تکلیف پہنچی ہی
ہوگی عام لوگوں کو پارٹی کے سیاسی لیڈروں کی باتیں، تاویلیں اور دلائل سن
کر دلی صدمہ ہوا، جس گھر میں موت واقع ہوجائے اس موت پر دکھ، افسوس کااظہار
کیا جاتا ہے، لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا جاتا ہے،انہیں تسلی و تشفیع دی
جاتی ہے، ان کے دکھوں کا مدوا کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔
نہ کہ پارٹی کے لیڈر اس قسم کی باتیں کریں کہ پنجاب میں، خیبر پختون خواہ
میں بھی تو اعلیٰ شخصیات کے پروٹوکول کے موقع پر لوگ مرے ہیں اگر یہ واقعہ
ہوگیا تا کیا ہوا۔ سیاسی لیڈر تو ایسے موقعہ سے فوری فائدہ اٹھاتے ہیں،
جیسے ہی یہ واقع رونما ہوا تھا ، بلاول بھٹو ، سید قائم علی شاہ اور
دیگرپارٹی کے لیڈر سول اسپتال میں افتتاح کرنے کے بعد سیدھے مرنے والی بچی
کے گھر چلے جاتے، اس کے باپ کو سینے سے لگاتے، عزیز رشتہ داروں کو تسلی
دیتے ، ان کے لیے کچھ امداد کا اعلان کردیتے، ان کا یہ عمل غموں پر مرہم
رکھنے کے مترادف ہوتا۔ صرف یہ اعلان نہ کافی معلوم ہوتا ہے کہ انکوائیری
کرائی جائے گی، جو ذمہ دار ہوگا اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی
کی اسی قسم کی غلطیوں نے پارٹی کو آسمان سے زمین پر دے مارا ہے۔ |
|