سعودی عرب معاشی بحران کی سمت رواں دواں۰۰۰؟

خسارے کے باوجود دفاعی بجٹ میں آئندہ پانچ سال کے لئے 27%کا اضافہ

سعودی عرب بجٹ98ارب ڈالر خسارے کے باوجود اس سال اپنے فوجی دفاعی بجٹ میں آئندہ پانچ سال یعنی 2020تک کے لئے 27فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کا بجٹ 98ارب ڈالر خسارے تک پہنچ گیا ہے۔ملک کی آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافے کے بعد توازن پیدا کرنے کے لئے سعودی وزیر خزانہ نے عوام کو پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کم کرنے کا اشارہ دیا تھاجس پر شاہی فرمان کے بعد عمل کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ یمن میں مداخلت اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے سال 2015میں سعودی عرب کے عسکری اور دفاعی اخراجات 20ارب ریال تک پہنچ گئے ہیں۔ سعودی عرب فوجی دفاعی بجٹ کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں اور مشرقِ وسطی پہلا بڑا ملک ہیسعودی عرب نے 2015میں 48.7بلین ڈالر فوجی دفاعی بجٹ کے لئے مختص کئے تھے جبکہ 2016کے لئے 49.5بلین رکھے گئے ہیں اور 2017کیلئے 52بلین سے ہوتے ہوئے 2020کیلئے 62بلین ڈالرس مختص کئے گئے ہیں۔ عالمِ اسلام کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی معیشت مستقبل میں مزید پستی کی طرف چلی جائے گی۔ ملک میں عوام کی خوشحالی کو ختم کرتے ہوئے ان پر مختلف طریقوں سے بوجھ ڈالا جائے تو اندرونی حالات بھی بگڑ سکتے ہیں چونکہ پہلے ہی خطے کے حالات انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں شدت پسند تنظیمیں دہشت گردسرگرمیوں کو بڑھاوا دے رہی ہیں تو دوسری جانب ملک کی معیشت پر منفی اثر اور عوام پر بوجھ ملک کے حالات کو بگڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔عالمی طاقتیں اسلامی ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر متحد نظر آتی ہیں لیکن اندرونی طور پر ہر ایک اپنی طاقت کو منوانے کیلئے عالمِ اسلام پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے۔ لاکھوں ڈالرز کے فوجی سازو سامان کی نکاسی کے لئے ان ممالک نے جس طرح عالمِ اسلام کی معیشت کو تباہ و برباد کیا ہے اور کررہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق عالم اسلام کے حکمرانوں کودشمنانِ اسلام کی پالیسیوں کو سمجھتے ہوئے ان ممالک سے علحدگی اختیار کرنی چاہیے ورنہ مستقبل میں یہی عالمی طاقتیں تیسری عالمی جنگ کے ڈھانے پر پہنچادیں گے۔ سعودی عرب میں سالانہ بجٹ کی پیشکشی کے بعدقیمتوں میں اضافے کے بعد حالات کس موڑ اختیار کرتے ہیں اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، کیونکہ سعودی عوام کو جس طرح ماضی میں مراعات حاصل تھے اور پٹرول کی قیمتوں میں سبسڈی دی جاتی تھی اس سے حکومت دستبردار ہوتی ہے تو یقینا حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

سعودی عرب کی کابینہ نے تیل کی مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں 50فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی ہے اور نئی قیمتوں کا اطلاق بھی کردیا گیا ہے ۔ سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صدارت میں وزارتی کونسل کے اجلاس میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی منظوری دے دی گئی ہے۔اس فیصلہ کے بعد ڈیزل ، بجلی ، پانی اور کیروسین کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ سعودی وزارتی کونسل کے فیصلہ کے مطابق اعلیٰ درجہ کے پٹرول کی فی لیٹر قیمت 0-60ریال سے بڑھا کر 0-90ریال یعنی پچاس فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔ لوئر گریڈ (کمتر درجہ ) پٹرول کی قیمت0-45سے بڑھاکر 0-75کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں دوسرے خلیجی ممالک کے مقابلے میں تیل کی قیمتیں سب سے کم ہیں۔ سعودی وزارت خزانہ نے جامع اقتصادی اور مالی اصلاحات کے تحت تیل کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی تھی اور اس کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔ قبل ازیں کابینہ کے اجلاس میں مالی سال 2016کے لئے840ارب ریال مالیت کا بجٹ پیش کیا گیا ہے جبکہ سال گذشتہ کا بجٹ 860ارب ریال مالیت کا تھا لیکن خرچ اس سے بھی زائد یعنی975ارب ریال ہوا۔ وزارت خزانہ نے بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لئے اخراجات اور تنخواہوں میں کمی کے علاوہ سرکاری قرضے کے انتظام کے لئے ایک یونٹ بھی قائم کیا ہے اور یہ یونٹ حکومتی قرضوں کے انتظام و انصرام کے لئے مالیاتی حکمت عملی وضع کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔البتہ سعودی وزارت تجارت کے مطابق بجٹ میں گیس کی قیمتوں میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا اس لئے گیس کی قیمتیں اگلی منظوری تک جوں کی توں برقرار رہیں گی۔اطلاعات کے مطابق یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سعودی عرب میں پٹرول کی قیمتوں میں پچاس فیصد اضافہ کے ساتھ ہی عوام پٹرول پمپس پر امڈ پڑے اوردیکھتے ہی دیکھتے گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، گاڑیوں کے ٹینکس بھروانے کے ساتھ ساتھ خالی کنستروں اور کینز میں بھی پٹرول جمع کرنے میں مصروف دیکھے گئے جبکہ بعض پیٹرول پمپس ایندھن ختم ہونے کے باعث بند کرنے پڑیں۔

سعودی عرب کے مطابق ملک کی مجموعی آمدنی کا 77فیصد تیل کی برآمد سے حاصل ہوتا ہے اور خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے 2015میں آمدنی 23فیصد کم ہوئی ہے۔مارچ 2012میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 125ڈالر فی بیرل کی انتہائی سطح پر پہنچ گئی تھی اور اب یہ قیمت محض 36ڈالر فی بیرل ہے۔بعض ماہرین کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مزید کمی ہوسکتی ہے اور شاید یہ 20ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے۔ماہرین کے مطابق اگر ایران اقتصادی پابندیوں کے اٹھائے جانے پر اپنی مجموعی پیداوار میں یومیہ ہزاروں بیرل کا اضافہ کرتاہے تو تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کے امکان ہے۔

دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے اپنے اجلاس میں تیل کی یومیہ پیداوار میں کمی کی تجویز کو مسترد کیا تھا تاکہ دوسرے ممالک بالخصوص امریکی شیل آئل کی پیداوار کو غیر منافع بخش بنانے کے لئے تیل کی زیادہ مقدار مارکیٹ میں لارہے ہیں جو تیل کی قیمتوں کو متاثر کررہا ہے۔ڈسمبر 2015کے ابتداء میں امریکہ کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن نے اندازہ پیش کیا تھا کہ شیل تیل کی پیداوار جنوری میں پھر گر جائے گی شیل تیل اس وقت امریکہ کی تیل کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اوپیک ممالک کی جانب سے یومیہ تیل پیداوار میں اضافہ کس کے اشارے پر ہورہاہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ اس سال کے ابتداء میں جو پیشن گوئیاں یا خیالات کا اظہار کیا گیا اس سلسلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسکے پیچھے امریکہ اور روس جیسی طاقتیں ہیں جو ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں یا پھر عالمِ اسلام کی معیشت کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ اس سال کے ابتداء میں ترکی میں سرمایہ کاری کے ایک بڑے ماہر عارف انور کے مطابق ایک ممکنہ مقصد روس کو معاشی طور پر کمزور کرنا ہے ۔ فرانسیسی ماہر معاشیات دومینک موئیسی کی رائے میں اس وقت روس کو عالمی افق پر سیاسی و سفارتی تنہائی کے خطرے کا سامنا ہے۔ مارچ 2014میں روس کی جانب سے یوکرین کی بندرگاہ کرائیمیا کا قبضہ اپنے ہاتھ میں لیے جانے کے بعد ہی امریکی ارب پتی جارج سورس نے کہا تھا کہ روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی سب سے موثر ترکیب اس وقت امریکہ کے پاس ہے۔سورس نے واشنگٹن کو تجویز دی تھی کہ وقت آگیا ہے کہ امریکہ اپنے ہنگامی ذخائر کو فروخت کرنا شروع کردے۔ اس وقت ابتدائی اندازہ لگایا گیا تھا کہ اگر امریکہ یومیہ پانچ لاکھ بیرل تیل بیچ دے تو اس سے فی بیرل قیمت12ڈالر کم ہوجائے گی جس کے سب روس 40ارب ڈالر کی ممکنہ آمدنی سے محروم ہوجائے گا۔

26؍ مارچ 2014کو امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ کمیٹی کی ایک سماعت میں بتایا گیا تھا کہ جوں جوں امریکہ کی داخلی پیداوار بڑھ رہی ہے امریکہ درآمدنی تیل کی ضرورت کے بغیر ہی اپنے احتیاطی ذخائر برقرار رکھ سکے گا۔ امریکہ میں اس وقت 84لاکھ بیرل یومیہ نکالا جارہا ہے اور تیل کی داخلی ضرورت پوری کرنے کے لئے صرف 25فیصد درآمدنی تیل کی ضرورت رہ جائے گی۔ 2015میں امریکہ میں داخلی تیل کی پیداوار 93لاکھ بیرل یومیہ تک بڑھائی جانے کے امکانات ظاہر کئے گئے تھے۔ اضافی ذخائر فروخت کرنے سے امریکہ کچھ مقدار برآمد بھی کرپائے گا جس کا ملکی معیشت کو اضافی فائدہ پہنچے گا خصوصاً تیل صاف کرنے والی صنعت کوتیل نکالنے کے لئے متعارف کرائی جانے والی نئی شیل(Shale)ٹیکنالوجی کے سبب اندازہ لگایا گیا ہے کہ امریکہ 2035تک اپنی تمام توانائی کی ضروریات خود پورا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ایک ایسے وقت جب امریکہ اپنے اضافی ذخائر فروخت کررہا ہے وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ سعودی عرب اپنی پیداوار میں کمی نہ کرے۔ امریکی اندازوں میں یہ امر پیش نظر تھا کہ سعودی عرب روس کو یہ پیغام دینا چاہے گا کہ شام میں جاری صورتحال پر ماسکو اپنے موقف میں لچک دکھائے۔تاہم تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے اراکین امریکہ کی اضافی پیداوار اور داخلی ذخائر میں اضافے پر خوش نہیں اور اپنے برآمدی کوٹے میں کمی نہ کرکے قیمت کو کم رکھ کر امریکی کمپنیوں پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی پیداوار اور برآمدات دونوں میں کمی لائیں۔اندازہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب اس سال اوپیک ممالک257ارب ڈالر کی متوقع آمدنی سے محروم رہ گئے ۔ تاہم ان ممالک کو یہ امید ہے کہ اگلے چند ماہ میں کئی کمپنیاں کم منافع اور زیادہ اخراجات کے سبب مزید پیداوار سے پیچھے ہٹ جائیں گی جس کے بعد قیمتوں میں دوبارہ بہتری کی توقع کی جارہی ہے۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ عالمِ اسلام کی معیشت دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر تباہ و برباد ہورہا ہے اور نہیں معلوم آنے والے دن عالمِ اسلام کے ممالک کے لئے کتنے خطرناک موڑ اختیار کرتے ہیں۰۰۰
ٌٌٌٌ***
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.