مشترکہ اسلامی فوج اور اہداف

™دولت اسلامیہ کے بارے میں اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ وہ اسلامی لبادے میں اسلام کے خلاف برسروپیکار ہے۔ غالباَ سعوددی عرب کی جانب سے اسلامک اسٹیٹ کا ہی خوف ہے کہ وہ اب سنجیدگی کے ساتھ 34اسلامی ممالک کی مسلح فوج بنانے کی حکمت عملی تیار کر رہا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق مصر، قطر اور عرب امارات کے علاوہ ترکی ، ملایشیا ، پاکستان اور کئی افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس اتحاد میں میں سعودی عرب نے اپنی روایتی حریف ایران ، عراق اور شام کو شامل نہیں کیا ہے اس کا مطلب امریکہ کی جانب سے اس خیر مقدمی بیان سے لیا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اب ایک سنی ممالک پر مشتمل فوج تشکیل دے رہا ہے۔جو اپنیمختلف مفادات کے تحت خفیہ معلومات کا تبادلہ کریں گے وہاں حوثی باغیوں کے خلاف کاروائی بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ امریکہ کی جانب سے خیر مقدمی بیان نے کان کھڑے کردیئے ہیں کیونکہ جہاں امریکہ کا اپنا ذاتی مفاد نہ ہو وہاں وہ خیر مقد م کرنے سے اجتناب ہی برتتا ہے۔سعودی عرب اِس فوج کی کمان کر رہا ہے لیکن واحد ایٹمی طاقت پاکستان میں اس کا کیا رول ہوگا اس سے فی الحال پاکستان وزرات خارجہ نے لاعلم رکھا ہوا ہے۔ اسلامی دنیا اور یہود ونصای اور ہنود کے درمیان کیا کسی نئی تیسری جنگ کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ شام میں جس طرح روس، بشار الاسد کی مدد کررہا ہے ، یارن نے اپنی افواج کوشام سے بلانے سے یکسر انکار کردیا ہے ۔افغانستان میں طالبان غالب ہو رہے ہیں ان کی کمک کیلئے مزید غیر ملکی افواج ہلمند پہنچی۔ پاکستان اپنی خارجہ پالسیوں پر نظر ثانی کرتا جا رہا ہے ۔سعودی حکام نے اسلامک اسٹیٹکو بنیاد بنا کر پاکستان کا نام بھی اس اتحاد مسلم سنی افواج میں شامل تو کردیا ہے کہ لیکن وزرات خارجہ نے کسی قسم کا ایسا کوئی ردعمل نہیں دیا کہ ہم اس بات کو سمجھ سکیں کہ کیا اسلامی ممالک کی اس فوج کا تعلق صر ف حوثی قبائل اور سعودی عرب کے تحفظ تک رہے گا یا پھر کشمیر ، فلسطین، بھارت، رویہنگیا ، افریقہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم پر کوئی عسکری طاقت بھی دیکھا سکتا ہے یا پھر اسلامی کونسل کی طرح ایک غیر فعال مجلس بنا کر ایسی قرادادیں ہی پاس کرسکتا ہے جیسے وہ خود لاگو بھی نہیں کرسکتا، یقینی طور پر اس حکمت عملی میں ٹارگٹ محدود ہی ہونگے ، کیونکہ اسلامی ممالک میں دولت تو بہت ہے لیکن عسکری قوت نہیں ہے۔

جب امریکہ یہ کہتا ہے کہ یہ اسلامی 34ممالک کا اتحاد اس کی حکمت عملی کے عین مطابق ہے تو اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ دال میں کالا ضرور ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے۔ عسکری امور نظر رکھنے والے ویب پورٹل ؍گلوبل فائر پاور؍ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا دفاعی اعتبار سے دنیا کا دوسرا طاقتور ترین ملک ہے اور اس کا شمار بہترین پیشہ وارنہ افواج میں کیا جاتا ہے۔ مصر ، دفاعی اعتبار سے دنیا کی13ویں اور عرب دنیا کی پہلی بہترین فوج کا درجہ رکھتی ہے۔سعودی عرب دوسری پوری دنیا کی 25بڑی فوج رکھتا ہے۔، شام عرب ممالک کی مسلح افواج میں تیسرے اورعالمی سطح پر 26ویں نمبر ہے ۔الجزائر عرب ممالک میں چوتھے اور عالمی سطح پر31نمبر پر ہے۔متحدہ عرب امارات عرب دنیا کی پانچویں بڑی فوج اور عالمی سطح پر42ویں دفاعی طاقت سمجھا جاتا ہے۔یمن داخلی سوش کی باوجود عرب ممالک میں چھٹے نمبر پر اور عالمی سطح پر 45واں درجہ رکھتا ہے۔اردن ساتویں عرب ممالک اور عراق دنیا کی پانچویں اور عرب ممالک کی پہلی دفاعی طاقت تھا لیکن اب یہ عرب ممالک کی آٹھویں اور دنیا کی 68ویں فوجی طاقت پر آگیا ہے۔سلطنت آف عمان عرب دنیا کی نویں طاقت اور عالمی سطح پر اسے 56واں درجہ حاصل ہے۔کویت عرب ممالک میں دسویں دفاعی طاقت اور عالمی فوجی طاقت کے74ویں نمبر پر ہے۔جبکہ پاکستان دنیا کی طاقت ور ترین افواج میں گیارہ واں نمبر پر ایٹمی طاقت کے ساتھ ہے ، ترکی دنیا کی چوتھی بڑی طاقت ور فوج کا درجہ رکھتا ہے۔ترکی اور روس کے درمیان روز بہ روز ہونے وانے والے کشیدہ تعلقات اور امریکی روس کی سرد جنگ کے ساتھ چین ایک نئی طاقت کے ساتھ دنیا میں امریکہ کو مکمل طور پر چیلنج کررہا ہے ، بھارت انسانی تعداد اور ہتھیاروں میں دنیا میں چوتھی پوزیشن پر موجود ہے لیکن جنگو ں میں ایسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 71 ء کے تحت مشرقی پاکستان کو الگ کیا اور اب سازش کے تحت افغانستان اور پاکستان کے اندرونی معاملات کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح طلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور بھارت کا انتہا پسندانہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے اس کے بعد34مسلح اسلامی ممالک کے کردار کو او آئی سی ( اسلامی تعاون تنظیم )کی طرح غیر فعال ہی رکھا جائے گا یا پھر دائرہ اختیار سر زمین حجاز کے تحفظ تک ہی محدود رہے گا ۔ جس طرح اعلی عدلیہ نے پوچھا کہ ا و آئی سی اپنی مرضی سے اجلاس بھی بلا سکتی ہے۔ جس پر مضحکہ خیز اثبات میں جواب دیا گیا ۔

یورپ اسلامک اسٹیٹ سے عرب کی اسلامی افواج کو لڑا کر اپنا اسلحہ فروخت کرنے کی نئی فیکٹریاں اسلحہ بنانے میں مزید مصروف ہوجائیں گی ، مغرمالیاتی بحران سے باہر آجائیگا ۔ جس کا جواب ایک عام انسان کو بھی دینا بہت مشکل نہیں ہوگا کہ امریکہ اس بار ایک نئیحکمت عملی کے ساتھ سنی و شیعہ کی تفریق کے ساتھ ایک نئے جہاد کی آبیاری کرنا چاہتا ہے۔ دنیا میں مہلک جنگوں کی جانب گامزن ہے اور اس کاسہرا یورپ کے سر باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ پہلے القاعدہ روس کے خلاف جہاد کے نام پر بنائی ، پھر اس کے بطن سے طالبان نکلے تو اب ٹیسٹ بی بی اسلامک اسٹیٹ کی سرپرستی G20ممالک کر رہے ہیں ۔ جن سے مقابلہ وہ خود نہیں کرسکتے اس لئے امریکہ اب سعودی عرب کو دنیا کی طاقت ور ترین مسلم ممالک کو کمزور کرنے کیلئے جنگ کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلامی افواج کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کراسکتی، فلسطین کی آزادی کیلئے کردار ادا نہیں کرسکتی ، ترکی ے ساتھ ہم رکاب نہیں ہوسکتی ، عراق اور ایران کو گلے نہیں لگا سکتی ، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو نہیں روک سکتی، افریقہ میں مسلم امہ پر ظلم کے پہاڑ پر اپنا ڈھال نہیں رکھ سکتی، روہینگیا کے مسلمانوں کی داد رسی نہیں کرسکتی ، برطانیہ میں مسلمانوں پر300فیصد اضافے حملوں کو نہیں روک سکتی ، امریکہ کو مسلم ممالک کے خلاف جارحیت کے لئے حلیہ سازی کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی ۔افغانستان کو غیر ملکی تسلط سے آزاد نہیں کراسکتی ۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کیلئے پہلے انسانی جانیں درکار ہیں ۔ یمن ، شام اورعراق میں ایران سے پہلے لڑنا ہوگا ۔

غرض یہ ہے کہ ان34،،ممالک کے ایجنڈے کو پہلے سامنے لانا ہوگا ۔ ایک خلافت کا قیام عمل میں لانا ہوگا ۔ تمام مسلم ممالک کو خلافت راشدہ کے دور کے نظام کو اپنانا ہوگا ۔ صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کو پیدا کرنا ہوگا ۔ سونے سے بنے لباس پہن کر سوکھے روٹی کے ٹکڑے کھائینہیں جاسکتے۔ عرب ممالک کو پہلے تمام اسلامی ممالک کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوگا اپنا سکہ رائج کرنا ہوگا ، ڈالر ، پونڈ اور یورو سے جان چھڑانی ہوگی۔غریب مسلم ممالک کے عوام کے ننگے جسم کے بھوکے چپکے پیٹوں کو غذا فراہم کرنا ہوگی ۔ ایک توانا قوم ہی طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ عرب ممالک کو اپنے اثاثے تعلیم کے لئے وقف کرنا ہونگے، منافقت چھوڑنا ہوگی۔جنگی ساز و سامان کے لئے غیروں پر تکیہ ختم کرنا ہوگا ۔ تفرقہ سازی فیکڑیوں کو کھاد فراہم کرنے سے اجتناب برتتے ہوئے سب سے پہلے امت واحدہ کا تصورپیدا کرنا ہوگا ۔ اس کے بعد سفارت میں اپنی قابلیت ثابت کرنا ہوگی۔

ہر مسئلے کا حل جنگ نہیں ہے اس تصور کو یورپ سے ختم کرانا ہوگا اور اس کے لئے انھیں اپنا تیل کا ہتھیار استعمال کرنا ہوگا ، کرایئے کے فوجی ہیں مسلم مجاہدین چاہیں جن کا شیوہ تنخواہ نہیں بلکہ مسلم امہ کے خلاف ہونے والے ظلم کو روکنا ہے۔یہ سب کچھ انہونی سا لگتا ہے۔ناقابل یقین سے لگتا ہے اس ئے تو مغرب جدید تعلیم اور جنگ میں کامیاب اور مسلم ممالک عیاشی میں۔ پاکستان تمام اسلامی ممالک کا سپہ سالار بن گا تو بیل مینڈھے چڑھے گی کیونکہ پاکستان کے پاس ہی منہ کروانے والی کروی گولی ہے۔ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا تو ہونے دیجئے ، پھر دیکھئے کہ اسلامی سربراہان کانفرنس کی طرح پاکستان ہی مسلح مسلم افواج کی بنیاد رکھے گا۔یہ کوئی دیوانہ ہی ہوگا کیونکہ اس کو علم ہوگا کہ ایسے پھانسی پر چڑھنا ہوگا ، عرب ممالک کو تیل کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا ، مغرب کی غلامی سے نکلنا ہوگا ۔ امریکی پالسییوں کو ختم کرنا ہوگا اور پاکستان جیسے ایٹمی ملک جس کی دھاک ساری دنیا میں بیٹھی ہے اس کی کمر مضبوط بنانا ہوگی۔ فرقوں اور مسالک کی جنگ سے تو پہلے باہر نکل آیئے پھر کچھ کرنے کے قابل ہونگے۔ مسلم ممالک کی فوج ضرور مسلم امہ کیلئے ضروری ہے لیکن اس کی ترجیحات کا تعین اور امت مسلمہ کو آگاہی بھی ضروری ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744391 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.