پروٹوکول اور بے بسی!
(Anwar Graywal, BahawalPur)
صدرِ مملکت جناب ممنوں حسین نے پشاور
کے سٹیڈیم میں تشریف لے جانا تھی، وہاں فاٹا یوتھ فیسٹول کا اختتامی
پروگرام جاری تھا۔ جب پاکستان کی سب سے اونچے عہدے پر متمکن شخصیت باہر
نکلتی ہے تو پروٹوکول دینے کے لئے آئین اور قانون حرکت میں آجاتا ہے۔ اگرچہ
صدر صاحب نے دو بجے آنا تھا، مگر قانون ان کی آمد سے گھنٹوں قبل ہی متحرک
ہوگیا اور سٹیڈیم کو جانے والے تمام راستے بلاک کردیئے گئے۔ ملک میں آبادی
بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، چند لمحے کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو ٹریفک بلاک
ہوجاتی ہے، اور اگر معاملہ منٹوں سے گھنٹوں تک چلا جائے تو ٹریفک کا کیا
حال ہوتا ہوگا۔ اس طرح ٹریفک بند کرنے کے موقع پر جو لوگ بے بسی کے عالم
میں رکے ہوتے ہیں، وہ یا تو وہاں پر موجود پولیس وغیرہ سے الجھنے لگتے ہیں،
یا ہر کمزور کی طرح چیختے چلاتے اور ’روتے‘ رہتے ہیں، مگر ان کی فریاد یا
غصہ سننے والا کوئی نہیں ہوتا، کیونکہ موقع پر موجود پولیس خود بھی بے بس
ہی ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں جب رفیق تارڑ پاکستان
کے صدر بنا دیئے گئے، اور وہ پہلے ہی روز باہر نکلے اورانہوں نے اپنے ارد
گرد سکیورٹی کا حصار دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ ’’مینوں
کِنھے مارناں ایں‘‘۔ اس قول پر ایک صحافی نے سوال داغ دیا کہ اگر ایسی بات
ہے تو آپ پروٹوکول لینے سے انکارکردیں۔ صدر مملکت نے فرمایا کہ ’’یہ آئینی
مجبوری ہے‘‘۔
پاکستان ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہے، جہاں تعلیم، صحت ،پینے کا پانی
اوردیگر بنیادی ضرورتیں بھی مناسب طریقے سے دستیاب نہیں، مگر ایک فردِ واحد
کے پروٹوکول وغیرہ پر اس قدر اخراجات اٹھتے ہیں، کہ رہے رب کا نام۔ قوم کو
وقتاً فوقتاً یہ باور کروایا جاتا ہے کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں اتنے
فیصد کمی کردی ہے، گویا حکومت سادگی کے راستے پر چل نکلی ہے، مگر ایسی کوئی
تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔ کس مد میں کتنا خرچ ہورہا ہے، اس سلسلے میں
بھی بعض اوقات اعدادوشمار سامنے آتے رہتے ہیں، ایسی خبروں کو لوگ سنتے اور
سر دُھنتے ہیں، ان کا خون کھولنے لگتا ہے، لیکن وہ کمزور اور بے بس ہیں کر
کچھ نہیں سکتے، حتیٰ کہ احتجاج وغیرہ کرنے کے لئے بھی ان کے حلق سے آواز
نہیں نکلتی۔ تاہم حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی آمدورفت وغیرہ کا ایسا
بندوبست کرے جس سے عوام کو تکلیف نہ ہو۔ مگر بات وہی آجاتی ہے، کہ جسے
تکلیف ہے اگر وہ احتجاج کے لئے اپنی آواز ہی بلند نہیں کرسکتا تو تکلیف
دینے والے کو کیا پریشانی ہے۔ اپنے ہاں مذکورہ بالا صدر ہوں یا موجودہ، ان
کی مدح سرائی اس انداز سے کی جاتی ہے کہ اس قسم کی سادہ اور نیک خصلت
شخصیات ہمیں کبھی نصیب نہیں ہونگی، وہ قوم کا درد بھی دل میں چھپائے پھرتے
ہیں اور انہیں انسانیت کی بھلائی کی بھی بہت فکر لاحق رہتی ہے، وہ آنے والے
مہمانوں کو بھی بہت تپاک سے ملتے ہیں، اور ان کی خاطر مدارات بھی کرتے ہیں۔
مگر صدارتی محل کے اخراجات کو دیکھا جائے تو اس ’حمام‘ میں پہنچ کر سب
برابر دکھائی دیتے ہیں۔
پی پی کے چیئرمین کی بہن نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ کاسٹ کردیا، اپنے گھر
سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ووٹ دینے جانے کے لئے گاڑیوں کی قطاریں آگے
پیچھے تھیں، سکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔ ابھی چندر وز قبل ہی کراچی میں بلاول
زرداری کو دیئے جانے والے پروٹوکول کی وجہ سے ایک بچی کو فوری طبی امداد نہ
دی جاسکی تھی، جس کی بنا پر وہ زندگی کی بازی ہار گئی تھی، اگرچہ میڈیا نے
پروٹوکول کی کرب ناکیوں پر خوب احتجاج کیا تھا، مگر اگلے ہی روز بلاول کے
مرحومہ بچی کے گھر جانے سے معاملہ ٹھنڈا ہوگیا، مگر پروٹوکول ختم یا کم نہ
ہوا۔ معاملہ صرف صدر یا بلاول یا بختاور تک ہی محدود نہیں، وفاق کے
حکمرانوں سے لے کر صوبوں تک اور حکمرانوں کی اولادوں تک یہ وبا عام ہے،
حمزہ شہباز کو بھی مکمل پروٹوکول دیا جاتا ہے، کس کا کیا استحقاق ہے اس کی
کسی کو پرواہ نہیں۔ یہ دراصل نشہ ہے، جو لگ جائے تو چھڑوانا مشکل ہوجاتا ہے۔
اب خیبر پختونخواہ نے پروٹوکول ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے کہ اس
پر عمل ہوتا ہے ، یا یہ اعلان صرف اعلان ہی رہے گا۔ اگر کے پی کے کی حکومت
اس قسم کے فیصلے پر عمل کروانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو اسے ایک بہت ہی
مثبت قدم قرار دیا جائے گا، اسے دوسرے صوبوں میں بھی نافذ کرنے کی بات بھی
ہونے لگے گی، اور اگر عمل نہ ہوا تو جمہوری رویوں میں ایک اور مذاق کا
اضافہ ہو جائے گا اورکمزور اور بے بس عوام اپنی روایتی بے حسی کی بنا پر
خاموشی اختیار کئے رکھیں گے۔ |
|