مودی۔ نواز ملاقات٬ نئی سیاسی صف بندی کی آہٹ

پچھلے دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک پاکستان کا دورہ کرکے ساری دنیا کو محو حیرت کردیا افغانستان کی پارلیمانی عمارت کا افتتاح کرنے کے بعد بنا کسی پیشگی اعلان کے وہ اچانک لاہور میں وہاں کے وزیر اعظم نواز شریف کو ان کی یوم پیدائش کی مبارکباد دینے اور ان کی نواسی کی تقریب نکاح میں شرکت کیلئے جا پہنچے اور تقریباً دو گھنٹہ لاہور میں گذارے ۔ساری دنیا میں مختلف انداز سے اس اچانک دورے پر تبصرے کئے گئے زیادہ تر سیاسی حلقوں نے اس دورے کا خیر مقدم بھی کیا لیکن اس پر بھی تبصرے ہوتے رہے اور ابھی تک جاری ہے کہ یہ دورہ اچانک تھا یا پہلے سے طے شدہ تھا ، جس طرح پاکستان میں شادی کی تقریب میں ہندوستانی وزیراعظم کی جانب سے تحفہ تحائف دیئے گئے اور وداعی کی تقریب میں نواز شریف نے راجستھان کی مخصوص کلاہدار پگڑی پہنی جو نریندر مودی نے ایک روز قبل ان کو تحفے میں دی تھی اس سے تو یہی اندازہ ہو تا ہے کہ پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا علاوہ ازیں پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے اپنے حالیہ تجزیہ میں اس تعلق سے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں موجود ہندوستانی ہائی کمیشن کے ایک سفارت کار نے پچیس دسمبر کو پاکستانی صحافیوں اور دیگر دانشوروں کو لنچ پر مدعو کیا ہوا تھا اور 22دسمبر کو فون کرکے سب سے دوبارہ شرکت کی تصدیق بھی کی تھی لیکن اگلے ہی دن اچانک سب کو فون کرکے ذاتی مصروفیت کے نام پر اس لنچ کو کینسل کر دیا گیا اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ ہائی کمیشن کو وزیر اعظم کی پروگرام کی پیشگی اطلاع تھی نیز لاہور کے علامہ اقبال ہوائی اڈے پر سیکورٹی کے انتظامات بھی قبل از وقت کر لیے گئے تھے یہ تمام باتیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ دونوں وزیر اعظم کی یہ مختصر سی ملاقات اچانک نہیں تھی بلکہ اندرون خانہ پیشگی سفارت کاری کا نتیجہ تھی جسے خفیہ رکھا گیا ۔ اس ملاقات سے قبل دونوں ممالک کے سلامتی مشیروں کی بھی ایک خفیہ ملاقات بینکاک میں گذشتہ ماہ منعقد ہو چکی ہے ۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ سب کچھ اچانک کے نام پر صیغہ راز میں رکھ ہی کیوں کیا جارہا ہے ۔ ابھی جولائی کے مہینے میں ہی دونوں ممالک کے سلامتی مشیروں کی ملاقات پر جو واویلا مچا تھا اور جس قسم کے کشیدہ حالات پیدا ہو ئے تھے اس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ ابھی لمبے عرصے تک تعلقات میں بہتری کے کوئی آثار نہیں ہے لیکن تین ہی مہینے کے بعد وطن سے بہت دور بینکاک جیسے مقام پر ہوئی سفارت کاری حیران کن ثابت ہو رہی ہے ۔ اور یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ وہ کون سیحالات ہیں جو دونوں ملکوں کو خفیہ گفت و شنید کیلئے مجبور کر رہی ہیں اور اپنے وطن کی مٹی سے دور غیر ملک میں رابطہ کاری کرنی پڑ رہی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوفا معاہدہ کے تحت جو لائی میں ہونے والی سلامتی مشیروں کی ملاقات انجانے میں میڈیا کی بھینٹ چڑھ گئیں اور دونوں ملکوں کے غیر ذمہ دار میڈیا نے اپنے بے لگام تبصروں اور بے تحقیق خبروں کے ذریعے ماحول کو پرا گندہ کردیا شاید دونوں ملکوں کی سرکاریں اسے قابو کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ جس کے نتیجہ میں درون ِ خانہ ڈپلومیسی کا دور چلا اور میڈیا کو اس سے دور رکھا گیا تاکہ پرسکون ماحول میں بات چیت ہو سکے ۔ ایک دوسری خبر یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کی سرکاروں پر حالات کو استو ار کرنے کیلئے امریکی دباؤ بھی خاصہ کارآمد ثابت ہو رہا ہے ،ایک معروف پاکستانی صحافیہ نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے اور یہ قرین قیاس بھی ہے کہ اتنے کشیدہ حالات اتنی تیزی سے یو ٹرن لے رہے ہیں تو اس پردۂ زنگاری میں کوئی معشوق تو ضـرور ہوگا۔ کہا یہ بھی گیا کہ ہندوستان کے ایک صنعت کار نوین جندل کے چھوٹے بھائی سجن جندل جو فولاد کے بیوپاری ہیں نے اس ملاقات کے لیے اصرار کیا تھا بحر حال وجہ کچھ بھی ہو ملاقات اچانک ہو یاطے شدہ ان سب سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک قربت کی جانب پیش رفت کر رہے ہیں ۔جو قابل ستائش ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے حالات کی استواری بدلے ہوئے عالمی منظرنامے میں بہت اہم ہے جب سے مغربی ایشیا میں روس کے اثرات بڑھنے شروع ہو ئے ہیں اور اس کے ساتھ پوری دنیا میں روس نے ایک بار پھر عالمی طاقت کی حیثیت سے سر ابھارنا شروع کر رہا ہے تب سے ہی بر صغیر میں سیاسی سر گرمیاں بھی تیز ہو گئیں ہیں اور حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ سوال کافی اہم ہے کہ بر صغیر میں قیام امن سے امریکہ کے کون سے مفادات جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ بات سمجھی جانی چاہیے کہ ان حالات کو لگاتار خراب رکھنے میں بھی امریکی اور روسی مفادات ہی ذمہ دار تھے سقوط روس کے بعد امریکہ کے قیاد ت میں یک قطبی دنیا کو بر صغیر کے حالات سے کچھ زیادہ سرو کار نہیں رہا تھا ۔ سوائے اس کے کہ کشمیر تنازع کو جاری رکھ کر امریکہ کشمیر کی پہاڑیوں پر عسکری اہمیت کی پوزیشن کو قابو میں رکھنا چاہتاتھا جس سے وہ چین ،روس اور مغربی ایشیا ء کے مسلم ممالک پر کنٹرول رکھ سکے ۔ لیکن دو قطبی دنیا میں یہ منصوبہ آسانی سے قابل عمل نہیں ہوسکتا خصوصاً جب کہ مغربی ایشیاء کے موجودہ سنگین حالات میں امریکہ کے پرانے حلیف عربی ممالک بھی اس کی جانب سے مشکو ک نظر آرہے ہوں اور روس سے اپنے تعلقات بہتر بنا رہے ہوں ۔ دوسری جانب روس، چین اور پاکستان کی بڑھتی قربتیں بھی اس امریکی منصوبے کی راہ میں حائل ہو رہی ہوں ایسے میں بر صغیر میں ایک مضبوط صنعتی اور اقتصادی ژون کا قیام خطے کی سیاست کو متوازن کرنے میں ایک اہم رول ادا کر سکتاہے ۔ واضح رہے کہ آزادی سے بہت قبل پنڈت دین دیال اپادھیائے اور رام منوہر لوہیا اس خیال کے حامی رہے ہیں کہ افغانستان غیر منقسم ہندوستان میانمار وغیرہ کو ملاکر ایک جنوب ایشیائی کنفیڈریشن قائم کی جانی چاہیے ۔ جسے اس وقت کے وزیر خارجہ جو اہر لال نہروہمیشہ نظر انداز کرتے رہے اس کے بعد کی کانگریس سرکاروں نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ یہ تمام سرکاریں ہمیشہ روس کی حلیف رہی ہیں اور خطہ میں اس قسم کا کوئی نیا تجارتی اشتراک روس اور چین دونوں کے مفادات کے خلاف ہوتا اسی لیے اس کنفیڈریشن کو نظر انداز کر کے سارک قائم کیاگیا جو کبھی مؤثر نہیں ہو سکا ،یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بر صغیر میں کوئی بھی الحاق یا وفاق اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ خطہ کے یہ دونوں بڑے ممالک ہندو پاک آپس میں ایک دوسرے کے قریب نہ آئے۔ کیونکہ جنوب ایشیاء کی اصل طاقت انہیں ممالک کے ہاتھوں میں ہے ہندو پاک کے کشیدہ تعلقات خطے کے دوسرے چھوٹے ممالک کو مشکوک اور خوف زدہ رکھتے ہیں اس لیے اشتراک عمل بھی بھر پورنہیں ہو پاتا جس دن دونوں ممالک آپس میں ہمسائیگی کی بنیا دپر دوستانہ تعلقات قائم کر کے آپسی اشتراک عمل کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہوجائیں گے اس دن یہ پورا خطہ ایک صنعتی انقلاب سے دوچار ہو جائے گا ۔ دونوں ممالک کے راہ میں کشمیر ایک بڑا سوال ہے ۔ جب تک اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آتا تب تک دونوں ملکوں کی استواری عارضی ہی رہے گی ۔ داؤد ابراہیم ،حافظ سعید ،سرحد پار دہشت گردی یہ سب وہ معاملات ہیں جو تعلقات کو بگاڑنے کیلئے بہانے کی حیثیت رکھتے ہیں تعلقات سدھارنے کی خواہش اگر شدید ہو تو ان معاملات پر دونوں ممالک سمجھوتہ کر سکتے ہیں لیکن کشمیر اس سے مختلف ایک معاملہ ہے کیونکہ اس میں کشمیر ی عوام بھی ایک پارٹی ہے ۔ اس لیے خطے میں پائدار امن اور مستقل دوستی کشمیریوں کے حق کشمیریت کے سوال کا جواب دیئے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی ۔ حریت کانفرنس نے بھی نریندر مودی کے اس ہنگامی دورے کی تائید کی ہے جس سے لگ رہا ہے کہ کشمیریت کا اونٹ بھی اب کسی کروٹ بیٹھنے کو بے قرار ہے ۔حال ہی میں ہندوستان میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن میں ایک لیکچر کا انعقاد ہو اتھا جس میں سدھیندر کلکرنی جو اٹل بہاری واجپئی کے معتمد خاص رہے ہیں وہ خصوصی مقرر تھے کلکرنی صاحب ہندو پاک کے مابین بہتر رشتوں کے نہ صرف خواہشمند رہے ہیں بلکہ اس جانب عملی اقدامات بھی کرتے رہے ہیں اور اسکی پاداش میں ہندوستان کی سخت گیر عناصر کی ریشہ دوانیوں کے شکار بھی رہے ہیں انہوں نے اپنے پر مغز لیکچر میں بھی اس کنفیڈریشن کے قیام کی پر زور وکالت کرتے ہوئے ہندو پاک تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ اس سے قبل انہوں نے ممبئی میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ قصوری صاحب کی کتاب کا اجرا بھی کروایا تھا جو تقریباً اسی موضوع پر لکھی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ اچانک نہیں ہوگیا بلکہ ایک بتدریج اپنائی جانے والی حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ یہ سب کچھ اتنے جلدی میں اور اتنے خاموشی سے کئے جانے کے پیچھے سب سے بڑا سبب یہ ہی نظر آتا ہے کہ مغربی طاقتیں جنوب ایشیاء میں روس اور چین کے علاوہ طاقت کا ایک تیسرا منبع بھی تیار کرنا چاہتی ہیں جو ظاہر تو خود مختار ہو لیکن در حقیقت وہ مغربی مفادات کے زیر اثر ہو ۔ واضح رہے کہ اسی خطے میں موجود میانمار میں 25سال کے بعد ایک آزاد اور شفاف جمہوری انتخابات اور ان انتخابات میں یوروپی یونین کی پرودہ آنگ سانگ سوچی کا دو تہائی سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو خطے میں سیاست کی ایک نئی مساوات کی جانب اشارہ کرتاہے ۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ میانمار کا پورا قضیہ صرف یوروپی یونین کا رہین منت رہا ہے ۔ ایسے میں افغانستان ،پاکستان ، ہندوستان،میانمار اگر ایک ساؤتھ جنوب مشرق ایشیائی وفاق بنانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو یہ وفاق ہر قسم کے قدرتی وسائل اور ذرائع نقل وحمل سے مالا مال بھی ہوگاور افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہ ہوگی ۔ یقینا یہ وفاق چین اور روس کے مشترکہ وسائل سے زیادہ بڑا اور مؤثر ہوگا ایسے میں اگر جنوب ایشائی وفاق میں سینٹرل ایشیاء کے وہ چھوٹے چھوٹے ممالک جو گیس کی دولت سے مالا مال ہے وہ بھی شریک ہوگئے تو یہ وفاق ناقابل تسخیر ہوسکتا ہے ۔ بس اس کے لیے ہندوستان پاکستان کا ایک دوسرے کے قریب ہونا لازمی شرط ہے اور اس جانب اب پیش رفت کی جارہی ہے ۔ تعلقات کے استواری کیلئے امریکی دباؤ کی بڑی وجہ یہی محسوس ہو تی ہے ادھر دونوں ممالک کے حـزب اختلاف نے بھی زیادہ تر اس کوشش کی حمایت ہی کی ہے ۔جہاں ہندوستان میں کانگریس کا اختلاف برائے اختلاف سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور کوئی اصولی موقف اس میں نہیں ہے اسی طرح پاکستان میں بھی جماعت اسلامی کا اختلاف کوئی زیادہ مؤثر نہیں ہے۔ اسی لیے ہر دوجانب کہ سیاسی سماجی ثقافتی تجارتی اور اقتصادی حلقوں کی حمایت اس کا وش کو حاصل ہے۔ ہندوستان میں آر ایس ایس نے بھی اس دورے کا خیر مقدم ہی کیا ہے حتیٰ کہ اس کے سابقہ ترجمان رام مادھوکو تو اس دورے کے ساتھ ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کو ایک کرکے اکھنڈ بھارت بنانے کا خواب بھی دکھا ئی دے گیا حالانکہ یہ محض خواب ہے جس کی تعبیر ایک کنفیڈریشن تو ہوسکتاہے ان ممالک کی یکجائی نہیں ،بہرحال ان ممالک کے عوام یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے صبح کا ناشتہ کابل میں ظہرانہ لاہور میں اور عشائیہ دلی میں کیا اسی طرح عوام بھی سرحدی مخمصوں سے دور اپنے اعزاواقارب کے شادی بیاہ اور دکھ سکھ میں اسی آسانی کے ساتھ شریک ہوسکیں ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیاہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہونچ جائے۔

Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24451 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More