صبح صبح کسی دکان پر سودا خریدنے چلے جائیں، یا کسی
کاری گر سے کوئی چیز بنوانے یا مرمت کروانے کے لئے پہلے گاہک آپ ہوں تو یاد
رکھئے، کہ آپ کی جیب (دانستہ یا نادانستہ، مجبوراً یا سہواً) خالی نہیں
ہونی چاہیے، ایسی صورت میں آپ سودا خریدنے یا کام کروانے سے محروم رہیں گے،
کیونکہ کاروباری طبقے نے اس تصور کو اپنا اصول بنا لیا ہے کہ اگر پہلے گاہک
کو ادھار دے دیا تو سارا دن ہی ادھار میں گزرے گا۔ کچھ اسی قسم کا تصور
اپنے معاشرے کے دیگر شعبوں میں بھی پایا جاتا ہے کہ پہلا دن، پہلا کام،
پہلی کوشش وغیرہ اگر کامیاب ہیں تو سمجھیں ترقی اور کامیابی کے راستے کھل
گئے، اور اگر پہلے قدم پر ناکامی نے استقبال کیا تو نحوست، مایوسی اور اسی
طرح کی دیگر چیزوں کا ذکر شروع ہوجاتا ہے۔ نئے سال کے دوسرے روز کے اخبار
سے پہلے دن کی خبریں سامنے آئیں تو ہم نے غور کرنے کی کوشش کی کہ نئے سال
میں کونسے رویے سامنے آئیں گے اور معاملات کیا رخ اختیار کریں گے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے نئے سال کے پہلے ہی روز تاجروں کے لئے مختلف
پیکیج تیار کر رکھے تھے، کالے دھن کو سفید کرنے کے عمل کو قانونی لبادہ
پہنانے کی کہانی تھی، دوسری طرف انہوں نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ٹیکس کم
کردیا جائے گا اور اس کا طریق کار بھی آسان بنایا جائے گا تاکہ کوئی بھی
ٹیکس دینے میں دشواری یا ناگواری محسوس نہ کرے۔ اس موقع پر ایک تاجر بھائی
نے وزیراعظم کی خدمات کا ا عتراف کرتے ہوئے جذباتی ہو کر ایک عدد گولڈ میڈل
کا اعلان فرما دیا، معاملہ اعلان پر ہی نہ رہا، بلکہ تاجروں کے وزیر یعنی
اسحاق ڈار صاحب نے فرمایا کہ میڈل ہے تو پیش کیا جائے، سو تاجر صاحب کہ
جنہوں نے اندر خانے کسی سے تو رابطہ کر ہی رکھا ہوگا، فوراً میڈل نکالا اور
میاں صاحب کے گلے میں ڈال دیاخالص سونے کا مذاق بھی تاجر کے لئے کسی انعام
سے کم نہ ہوگا۔ ایک اورمعروف تاجر کے لئے میاں صاحب نے آفر پیش کی کہ اگر
الیکشن وغیرہ کا موڈ بن جائے تو ہمارے ساتھ رابطہ کرنا۔اب تجارت ہر شعبے
میں داخل ہوتی جارہی ہے، کیونکہ مضبوط معاشی پوزیشن ہی کی وجہ سے سیاست میں
کامیابی کے امکانات ہیں، ورنہ موجودہ سیاست میں عام آدمی کا عمل دخل صرف
نعرے لگانے اور کسی تاجر سیاستدان کی حمایت تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
گویا سال کے پہلے روز ہی میاں نواز شریف کو ان کی مقبولیت اور محبت کا تحفہ
مل گیا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب ان کا یہ سال اسی حکمرانی سرشاری میں گزرے
گا۔
نئے سال کے پہلے ہی دن جہانگیر ترین نے قومی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے
حلف اٹھا لیا، جہاں یہ ان کے لئے خوشگوار اور تاریخی لمحات تھے وہیں حکومت
کے لئے وہ مستقل سردرد بن جائیں گے، انہوں نے اپنے پہلے ہی خطاب میں
دھاندلی وغیرہ کے بارے میں روایتی باتیں کیں، تاہم ڈھائی ارب روپے کا
معاملہ ذرا مختلف ہے، وزیراعظم نے تو الیکشن سے قبل اپنے امیدوار کو کامیاب
کروانے کے لئے اس خطیر رقم کا اعلان کیا تھا، ان کا تصور بھی نہیں تھا کہ
ان کا امیدوار ناکام ہوجائے گا۔ اب اگر حکومت اپنے وعدے کے مطابق ڈھائی ارب
روپے لودھراں کے مختلف پراجیکٹس کے لئے جاری کرنے پر مجبور بھی ہوجاتی ہے،
تو اس کے پاس یہ آپشن تو موجود ہے کہ وہ یہی رقم اپنے دوسرے ممبران کے
ذریعے استعمال کروائے، تاکہ اس کا کریڈٹ حکومت اور اس کے اپنے نمائندوں کو
مل سکے۔ ڈھائی ارب کسی بھی نمائندے کے ذریعے استعمال ہوں، لگیں گے تو
لودھراں پر، کریڈٹ لینے کے لئے جہاں حکومتی ممبران آگے آئیں گے وہاں
جہانگیر ترین بھی اسی صف میں کھڑے ہونگے۔ سال کے پہلے ہی روز سرکاری سکول
کھل گئے، مگر بچے نہیں آئے تاہم اساتذہ سکول پہنچ گئے، اس سے دو باتیں کھل
کر سامنے آتی ہیں کہ سال بھر بچے چھٹیاں تلاش کرتے رہیں گے، اور موقع پاتے
ہی مرضی کی چھٹی کریں گے۔ دوم یہ کہ اساتذہ چاہیں یا نہ چاہیں، انہیں سکول
آنا پڑے گا، اس سے حکومت کی اپنے ملازمین پر گرفت کا اندازہ بھی ہوتا ہے،
کہ اب اساتذہ بہت حد تک سکول آنے کے پابند ہو چکے ہیں۔ پاکستانی گلوکار
عدنان سمیع نے بھارت کی شہریت اختیار کرلی اور اسی تناظر میں دیکھا جائے تو
ایک اور پاکستانی گلوکار راحت علی خان کو بھارت سے ڈی پورٹ کردیا گیا، تاہم
بعد میں وہ دبئی سے دہلی پہنچے تو انہیں پروگرام میں جانے دیا گیا۔ یہ
دونوں متضاد واقعات بھی نئے سال کے ابتدائی لمحات میں بھارت میں پیش آئے،
ان دونوں واقعات سے بھارت کی پاکستان سے دشمنی کی بُو آتی ہے، اور ان میں
’’اگلا برس کیسا گزرے گا؟‘‘ کا واضح جواب موجود ہے۔ |