پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ.... بھارت کا پاکستان کے خلاف روایتی پروپیگنڈا

ہفتے کی صبح بھارت میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر 5 حملہ آوروں نے 3 اطراف سے اچانک حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 4 بھارتی فوجی ہلاک جب کہ 5 اہلکار زخمی ہوئے۔ سیکورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں پانچوں حملہ آوربھی مارے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آور بھارتی فوجی وردیوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے ایئر بیس میں داخل ہونے کے لیے پولیس کی گاڑی استعمال کی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز نے پٹھان کوٹ میں حملہ کرنے والوں کے ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔جن طاقتوں کو بھارت کی ترقی دیکھنے میں پریشانی ہورہی ہے، انہوں نے پٹھان کوٹ میں ایئر بیس کو اڑانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری بیان میں قاضی خلیل کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے، ہماری تمام تر ہمدردیاں بھارتی حکومت اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہیں اور بھارت کی مدد کے لیے تیار ہیں، ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ حالیہ اعلیٰ سطح رابطے کے بعد دونوں ممالک میں خیرسگالی کے تعلقات پیدا ہوئے، پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور خطے کے تمام ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

حملے کے فوری بعد بھارتی میڈیا اور وزرا نے بغیر تحقیق و ثبوت کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ہے۔ بھارت میں ہر انہونی کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنا بھارتی میڈیا کی پرانی روایت ہے۔ حسب روایت بھارتی میڈیا نے پاکستان پر حملے کا جھوٹا الزام لگاتے ہوئے تمام حدود پار کر دیں۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس کے حملہ آوروں کے خلاف آپریشن ابھی جاری تھا کہ بھارتی میڈیا پاکستان پر چڑھ دوڑا، حملہ آوروں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے نریندر مودی اور بھارت کے پاکستان سے بڑھتے تعلقات پر سوال اٹھائے جانے لگے۔ جیسے ہی پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کی خبر آئی تو بھارتی میڈیا نے بغیر تحقیق کے حملے کا الزام پاکستان پر دھرتے ہوئے جیش محمد نامی عسکریت پسند تنظیم کو ذمے دار ٹھہرایا اور کہا کہ شدت پسندوں کا تعلق پاکستان سے ہے، جبکہ بھارتی ٹی وی چینل ”ٹائمز ناﺅ“ کے رپورٹر ایک رپورٹر نے تو حملے کے لیے پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو براہ راست ذمے دار قرار دے ڈالا۔ بھارتی میڈیا نے الزام عائد کیا ہے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی ملوث ہے۔ بھارتی اخبار کے مطابق یکم جنوری کو قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے انڈین ایئر فورس،این ایس جی اور پنجاب پولیس کو ممکنہ حملے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ”زی نیوز“ نے شوشا چھوڑا کہ حملہ آوروں کا تعلق بہاولپور سے ہے اور تین روز پہلے ہی بھارت آئے تھے۔ ”این ڈی“ ٹی وی کا کہنا تھا کہ بہاولپور سے آئے دہشت گردوں کا مقصد ایئر بیس پر طیارے اور ہیلی کاپٹرز تباہ کرنا تھا، جبکہ دیگر بھارتی اردو ویوز تازہ ترین اخبار اخبارات اور چینلز نے بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں بھرپور حصہ لیا۔

پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کی تحقیقات ابھی مکمل نہیں ہوئیں اور بھارتی سیاسی رہنماﺅں نے توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے۔ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دہشت گرد حملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی سے اس معاملے کو پاکستان کے سامنے اٹھانے کا مطالبہ کردیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کانگریس کے مواصلاتی شعبے کے سربراہ رندیپ سنگھ سرجیوالا نے کہا کہ یہ المناک صورتحال ہے کہ پاکستان کے ساتھ امن کی کوشش کے درمیان اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔ بھارت میں کانگریس جماعت کے رہنما اشوانی کمار نے پاکستان پر الزام عاید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پاکستان گئے اور وہاں حکمران جماعت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، لیکن ہمیں واپسی پر کیا حاصل ہوا؟

دوسری جانب خود بھارتی میڈیا کے ایک حصے نے پٹھان کوٹ حملے کو مشکوک قرار دے دیا ہے اور حملے کا معاملہ پراسرار ہوگیا ہے۔ بھارتی پنجاب کے شہر پٹھان کوٹ کے ایئر بیس پر ہونے والے حملے کے بعد سے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پوری کوشش کی جارہی ہے کہ اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جائے جب کہ بھارتی حکومت نے بھی اپنی نااہلی چھپانے کے لیے حملہ آوروں کو سرحد پار سے امداد ملنے کا الزام لگایا ہے، تاہم بھارتی میڈیا کے ایک حصے نے مودی سرکار کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے متعدد سوالات اٹھائے ہیں، جس کی وجہ سے ایئربیس پر حملے کا معاملہ پراسرار ہوگیا ہے، جبکہ مقامی افراد نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق گزشتہ روز ہی ایئر بیس کے مرکزی دروازے کے سیکورٹی بیریئر ختم کردیے گئے تھے، جب کہ قریبی علاقے میں معمول کے مطابق رات 10 بجے بند ہونے والی دکانوں کو زبردستی 8 بجے ہی بند کرادیا گیا تھا، جس کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ ایئر بیس پر حملہ بھارت کا اپنا رچایا ڈرامہ لگتا ہے اور بھارتی حکام نے حملے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔ پاکستانی سرحد کے قریب رچائے گئے اس بھارتی ڈرامے میں حملہ آور ملٹری یونیفارم میں ملبوس اور اغوا ہونے والے ایس پی کی سرکاری گاڑی میں سوار تھے۔ سوال یہ ہے کہ حملہ آور اگر پاکستانی تھے تو ان کے لیے بھارتی سرکاری گاڑی اور فوجی یونیفارم کا اہتمام کیسے ہوا؟ این ڈی ٹی وی کا کہنا ہے کہ سیکورٹی حکام کو اس حملے کے متعلق خفیہ اطلاعات پہلے ہی مل چکی تھیں، اسی لیے ایئر بیس میں نقصان کچھ بھی نہیں ہوا اور شدت پسندوں پر بہت جلد قابو پالیا گیا، لیکن حملے سے قبل خفیہ اطلاعات کے باوجود بھی شدت پسند وہاں تک کیسے پہنچے؟ چینل کے مطابق ایک شدت پسند نے ٹیلی فون پر اس حملے سے متعلق باتیں بھی کیں تھیں تو پھر وہ داخل کیسے ہوئے، یہاں تک پہنچے کیسے ؟ اور جب پولیس سے کار چھینی گئی تھی، اسی وقت اس پر قابو کیوں نہیں پالیاگیا؟ یہ بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ حملہ پاکستان کے سرحد کے قریب ہی کیوں ہوا؟ اور ابھی حملہ آور اپنی کارروائی میں مشغول ہی تھے کہ بھارتی میڈیا نے بغیر تحقیق کے پاکستان پر الزامات لگانا شروع کردیے تھے۔

بھارتی ایئر بیس پر حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کی فضا دوبارہ ساز گار ہوئی ہے اور بھارتی وزیرِ اعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے لیے پاکستان کا مختصر دورہ کیا۔ اس دورے کے بعد نریندر مودی کو بھارت کے انتہا پسند حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ بھارت میں کئی حلقے پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری نہیں چاہتے ہیں، جس کا اظہار آئے روز پاکستان کے خلاف بیانات سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ یہ حملہ بھی اسی قسم کے بھارتی عناصر کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق شاید اس حملے کے پیچھے وہ طاقتیں ہیں جو بھارت اور پاکستان کے درمیان امن نہیں چاہتی ہیں اور یہ مودی کے لاہور دورہ کے بعد ماحول کو خراب کرنے ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کے حملوں کے بعد امن مذاکرات کو منسوخ کرنے سے شدت پسندوں کی ہی جیت ہوگی، کیونکہ وہ یہی چاہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں جب بھی مذاکرات کا آغاز ہونے لگتا ہے، اچانک بھارت میں دہشت گرد حملہ ہوتا ہے اور سب کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اس طرح کے سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ کہیں اس طرح کے حملوں کا مقصد پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تو نہیں ہے؟ دوسری جانب پنجاب میں کانگریس کے صدر امریندر سنگھ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے جسے نہیں ہونے دینا چاہیے۔

دوسری جانب بعض تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ حملے 1980 کی دہائی میں ہندوستانی حکومت کے خلاف سکھ علیحدگی پسند تحریک کے دوبارہ سرا ٹھانے کی ایک نشانی ہو سکتی ہیں۔ ہندوستان میں خالصتان تحریک 1984 میں اس وقت شروع ہوئی جب اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سکھوں کی مذہبی مقام‘ گولڈن ٹیمپل’ پر آپریشن کیا تھا، اس آپریشن کو ‘بلو اسٹار’ کا نام دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی ہندوستان کی ریاست پنجاب میں ببر خالصہ، پھندران والا ٹائیگر فورس آف خالصتان، خالصتان کمانڈو فورس، خالصتان زندہ باد فورس، دیش میش ریجمنٹ اور خالصتان لبریشن فورس سمیت کئی تنظیمیں آزاد ریاست کے لیے مسلح جدو جہد کر رہی ہیں۔ اس سے قبل ہندوستان کے علاقے گورداس پور کے سرحدی علاقے میں حملے میں بھی سکھوں کی خالصہ تحریک کے دوبارہ سر اٹھنے کی رپورٹس بھی موجود ہیں۔ بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ نے حکومت کو دنیا بھر میں سکھ عسکریت پسندوں کے دوبارہ منظم ہونے کے حوالے سے خبردار کیا تھا، جبکہ پنجاب اور کشمیر کی علیحدگی پسند تحریکوں کے درمیان روابط کے حوالے سے بھی خفیہ اطلاعات فراہم کی گئی تھی۔مبصرین کے مطابق بھارت کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرنے کی بجائے خود بھارت میں حملے کے ذمہ داروں کو تلاش کرنا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 644775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.