حکومتی کارکردگی سے عوام میں مایوسیاں بڑھ رہی ہیں
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
زمینی حقائق یہ ہیں کہ ابھی تک توانائی کے کسی معاہدے کو عملی قالب میں ڈھالنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور عوام بجلی کے ساتھ ساتھ اب گیس کی لوڈشیڈنگ کے سنگین بحران سے بھی گزر رہے ہیں جن کے گھروں کے چولہے موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی بجھا دیئے گئے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہی سوئی ناردرن گیس کی انتظامیہ کی جانب سے سوئی گیس کے گھریلو صارفین کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ صبح ساڑھے 6 سے ساڑھے آٹھ بجے کے درمیان کھانا تیار کرلیا کریں۔ یہ صورتحال گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کیلئے آنیوالی سختیوں کی بھی نشاندہی کررہی ہے جبکہ موسم سرما میں گھروں میں بجلی کے کمترین استعمال کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم نہیں ہو سکا اور عوام کو ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مہنگائی کا جن ہے کہ کنٹرول سے مکمل باہر ہو چکا ہے اور عام آدمی میں روزمرہ استعمال کی اشیاءخریدنے کی بھی سکت نہیں رہی۔ انہیں سبزی‘ دال‘ گھی‘ چینی‘ چکن‘ مٹن‘ بیف اور پیاز لہسن ہی نہیں جان بچانے والی ادویات کے نرخوں میں بھی آئے روز اضافے کا جھٹکا برداشت کرنا پڑ رہا ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ٹیکس اصلاحات کا بوجھ بھی بالواسطہ اور براہ راست نئے ٹیکسوں بشمول جی ایس ٹی کی شکل میں عام آدمی کی جانب ہی منتقل ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم نوازشریف اپنے صحت پروگرام کو فلاحی ریاست کی جانب ایک قدم قرار دینگے تو راندہ¿ درگاہ عوام کو یہ دل خوش کن اعلان اپنے ساتھ مذاق ہی نظر آئیگا۔ |
|
سال 2015ءکی تکمیل پر مسلم لیگ (ن) کے
اقتدار کے اڑھائی سال بھی مکمل ہو چکے ہیں‘ اب اسکے اقتدار کی باقی ماندہ
آئینی میعاد کا آخری سال انتخابات کی تیاریوں کا سال ہوگا اس لئے حکومت نے
موجودہ سال 2016ءکے دوران ہی عوام کے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کے حل‘
توانائی کے بحران سے نجات اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپنی فعال کارکردگی
کا مظاہرہ کرنا ہے جس کی بنیاد پر وہ آئندہ انتخابات میں دوبارہ قوم سے
مینڈیٹ لینے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ بصورت دیگر عوام اپنے بنیادی مسائل کے
حل اور سہولتوں کی فراہمی کے معاملہ میں حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہونگے
تو حکمران مسلم لیگ (ن) کو بھی سابق حکمران پیپلزپارٹی کی طرح عوام کے
ہاتھوں مسترد ہو کر گھر جانا پڑیگا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی گزشتہ
اڑھائی سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ اسے اقتدار میں لانے والے
عوام کیلئے مایوس کن ہی نظر آتی ہے۔ بے شک وزیراعظم نوازشریف نے صحت
پروگرام کے اجراءکے حوالے سے اپنے گزشتہ روز کے اعلان کو مسلم لیگ (ن) کے
منشور میں عوام سے کئے گئے وعدوں میں سے ایک اور وعدے کی تکمیل قرار دیا ہے
مگر عوام کو اس وقت روٹی روزگار‘ مہنگائی‘ ٹیکسوں کی بھرمار اور توانائی کے
بحران کی شکل میں جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے اسکے پیش نظر حکومتی
کارکردگی ہی نہیں اسکی انتظامی اتھارٹی کے حوالے سے بھی عوام میں مایوسیاں
بڑھتی نظر آرہی ہیں۔ نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین نے 2013ءکے
انتخابات کی مہم کے دوران عوامی مسائل کی بنیاد پر ہی اس وقت کی حکمران
پیپلزپارٹی کی پالیسیوں کو رگیدا اور قوم کو بجلی کی لوڈشیڈنگ اور روزافزوں
مہنگائی سے نجات دلانے کے بلند بانگ دعوے کئے جن کی بنیاد پر قوم نے انہیں
اقتدار کا مینڈیٹ دیا جبکہ آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ ابھی تک توانائی کے
کسی معاہدے کو عملی قالب میں ڈھالنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور عوام بجلی کے
ساتھ ساتھ اب گیس کی لوڈشیڈنگ کے سنگین بحران سے بھی گزر رہے ہیں جن کے
گھروں کے چولہے موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی بجھا دیئے گئے ہیں۔ ابھی گزشتہ
روز ہی سوئی ناردرن گیس کی انتظامیہ کی جانب سے سوئی گیس کے گھریلو صارفین
کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ صبح ساڑھے 6 سے ساڑھے آٹھ بجے کے درمیان کھانا
تیار کرلیا کریں۔ یہ صورتحال گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کیلئے آنیوالی
سختیوں کی بھی نشاندہی کررہی ہے جبکہ موسم سرما میں گھروں میں بجلی کے
کمترین استعمال کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم نہیں ہو سکا اور
عوام کو ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ مہنگائی کا جن ہے کہ کنٹرول سے مکمل باہر ہو چکا ہے اور عام
آدمی میں روزمرہ استعمال کی اشیاءخریدنے کی بھی سکت نہیں رہی۔ انہیں سبزی‘
دال‘ گھی‘ چینی‘ چکن‘ مٹن‘ بیف اور پیاز لہسن ہی نہیں جان بچانے والی
ادویات کے نرخوں میں بھی آئے روز اضافے کا جھٹکا برداشت کرنا پڑ رہا ہے
جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ٹیکس اصلاحات کا بوجھ بھی بالواسطہ اور
براہ راست نئے ٹیکسوں بشمول جی ایس ٹی کی شکل میں عام آدمی کی جانب ہی
منتقل ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم نوازشریف اپنے صحت پروگرام کو
فلاحی ریاست کی جانب ایک قدم قرار دینگے تو راندہ درگاہ عوام کو یہ دل خوش
کن اعلان اپنے ساتھ مذاق ہی نظر آئیگا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات
کے نرخوں میں بتدریج ہونیوالی کمی کے ثمرات سے آج تک عوام کو مستفید ہی
نہیں ہونے دیا گیا۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں پٹرول کے نرخ گزشتہ دس سال کی
کمترین سطح 37 ڈالر فی بیرل تک آچکے ہیں اور اس تناسب سے ہمارے ملک میں بھی
پٹرولم مصنوعات کے نرخ گزشتہ دس سال کے نرخوں کی سطح پر ہی آنے چاہئیں مگر
حکومت اسکے برعکس پٹرول کے گزشتہ ماہ کے نرخ برقرار رکھنے کا کریڈٹ لے رہی
ہے جسے عوام شعبدہ بازی کی سیاست سے ہی تعبیر کرینگے۔ شہریوں کی صحت‘ تعلیم‘
جان ومال کا تحفظ‘ روزگار کی فراہمی کی ریاست ذمہ دار ہے مگر جمہوری ادوار
میں ان ریاستی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو کر عملاً عوام کو راندہ درگاہ
بنادیا جاتا ہے جنہیں میرٹ پر روزگار حاصل ہوتا ہے نہ حصول تعلیم کے مواقع
ملتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی علاج معالجہ کی سہولتوں کی
آسان فراہمی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہی وہ حکومتی پالیسیاں ہیں جن کے
باعث عوام کا جمہوریت پر اعتماد کمزور ہوتا ہے اور وہ اپنے گوناں گوں مسائل
کے حل کیلئے عسکری قیادتوں کی جانب توجہ مبذول کرلیتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ
ملک اور قوم کو پھر ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کا صدمہ اٹھانا پڑے
مگر حکمرانوں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سلطانی جمہور کے ثمرات صرف
اپنے آنگنوں میں سمیٹنے کے بجائے انہیں عوام تک منتقل کریں۔ محض وعدوں اور
دعوﺅں کی سیاست نہ کریں بلکہ اپنے اعلانات کی تکمیل کے عملی اقدامات بھی
اٹھائیں۔ اگر موجودہ سال 2016ءبھی حکمرانوں کے وعدوں اور دعوﺅں کے ساتھ ہی
گزر گیا اور عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے بدستور محروم رکھا جاتا رہا تو
پھر حکمران مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل بھی نوشتہ دیوار ہے۔ |
|