کشمیر یا بہارستان؟

 جموں و کشمیر متنازع ہے یا بھارت کا اٹوٹ انگ یا پاکستان کی شہہ رگ؟اب تک اس حل طلب سوال کو لیکر چھ لاکھ لوگ اس کے نذر ہو چکے ہیں اور مستقبل میں بھی فی الحال کوئی امید نہیں ہے کہ خطے کے’’ طاقتور وڈھیرے اور جاگیر دار‘‘کبھی مل بیٹھ کے ہمارے مال و جان کے ضیاع کو لیکر فکر مندی کا مظاہرا کرتے ہو ئے اس کو ہماری آرزؤں کے عین مطابق حل کریں گے۔انسانی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں طاقتور ہونا ہی سب سے بڑی برائی ثابت ہو ئی ہے ۔ہر طاقتور انسان کے پاس مال و دولت آپ سے آپ جمع ہونا شروع ہوتا ہے ۔بلا دعوتِ عبدیت لوگ اس کی بندگی کرناشروع کردیتے ہیں ۔یہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو بھوک،روز گار اور چھت سے پریشان ہو کر اس پر جان چھڑکتے نظر آتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ وہ لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں ۔برصغیر کبھی بھی انسانوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوا۔یہاں سے انگریز بے شک چلے گئے مگر وہ اتنے ظالم نہیں تھے جتنے’’ گندمی چمڑی والے انسان‘‘ظالم ثابت ہو ئے ہیں ۔ ان کا بس چلے تو یہ انسانوں کو گردنوں سے پکڑ کر خون چوس لیں گے جبکہ معنوی طور پر ان کے جرائم خون چوسنے سے بھی زیادہ گھناؤنے ہیں ۔

دورِ حاضر میں کشمیری ہونا ایک جرم بن چکا ہے پھر اگر مذہب اسلام ہو تو معاملہ اور بھی گمبھیر رُخ اختیار کر سکتا ہے ۔بھارت اور پاکستان کے پاس کشمیر کے دو منقسم حصے ہیں دونوں میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے ۔دونوں خطوں کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے لئے خطے کے بڑے ممالک خاصے سرگرم بھی ہیں ۔جب سے چین اور بھارت کے لئے گیس کا مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا ہے تب سے صورتحال اور بھی نازک بنتی جا رہی ہے ۔کشمیری ایک عرصے سے چیخ رہے ہیں کہ ہماری جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں کے بعد اب خطے کی متکبر قوتیں آبادیاتی تناسب کی تبدیلی میں جٹ گئی ہیں مگر کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ آر، ایس، ایس کے موہن بھاگوت جب کشمیر میں دیگر بھارتی ریاستوں کے ہندؤں کو بسانے کا کھلے عام اعلان کرتا پھرتا ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ درونِ خانہ کشمیر کے مسلم اکثریتی تناسب کو برباد کرنے کے پیچھے کیا کیا ڈرامے رچائے جاتے ہوں گے ۔

ہندوستان اور پاکستان کو برا بھلا کہنے کی قدیم روایت کو ترک کر کے اگر ہم خود بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں گے تو صاف صاف نظر آئے گا کہ ہمیں کسی بھاگوت،سدرشن یا ٹھاکرے کی دشمنی کی ضرورت نہیں ہے خود کشمیری مسلمان بھی اپنے کم دشمن نہیں ہیں چونکہ ہمیں دوسروں کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کی گویا لت لگی ہے تو روایت برقرار رکھتے ہو ئے میں نے بھی پہلے دو پیراگرافس میں وہ روایت برقرار رکھی ۔اب آیئے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کشمیر جو کشمیر کم اب آہستہ آہستہ دوسرا بہار بنتا جا رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم خود کتنے ہیں ۔کیا یہ سچائی نہیں ہے کہ کشمیر کی نئی پود کو ہم نے اس نہج پر تربیت کی ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عیب تصور کرتی ہے ؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کشمیر کی نئی نسل ’’عملی اعتبار سے‘‘معذورین کی ایک ایسی جماعت بن چکی ہے کہ بازار جا کراپنے لئے روٹی لانے کو بھی شرم سمجھ لیتی ہے !کیا کھیتوں اور باغات میں کوئی کام خود کشمیری کرتا ہے ؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کشمیر کے باغات میں مارچ سے لیکر جنوری تک غیر ریاستی مزدوروں کی فوج ہر طرف گھومتی پھرتی نظر نہیں آتی ہے ؟پنیری لگانے سے سرسوں اور دھان کی فصل کاٹنے تک کبھی کوئی کشمیری نوجوان اپنے ہاتھ سے کام نہیں کرتا ہے ؟نجار،ترکھان،نائی،میکنک اور نوکر آج کل کون ہیں؟فاسٹ فوڈ اور مٹھائی کی دکانیں کون چلاتا ہے ؟ہر چھوٹا بڑا کام ہم غیروں سے کراتے ہیں ! آخر کیوں؟

کیا یہ فیشن ہے یا خود کشی؟کیا یہ بھارت کی ایجنسیاں کراتی ہیں کہ نا اہل کشمیری؟کیا دہلی میں کوئی آفس ہے جہاں سے بہاریوں کو بھرتی کرتے ہو ئے کشمیر بھیجا جاتا ہے؟یا ہم خود بھرتی تو درکنار غیر ریاستی مزدوروں کے پیر پکڑتے ہوئے انھیں گھروں میں بٹھا تے ہیں تاکہ ہمارے لاڈلوں کا لباس میلا نہ ہو جائے ۔کشمیری قوم 25برس پہلے غیر ریاستی مزدوروں اور کاریگروں کی اس قدرمحتاج کیوں نہیں تھی ؟یہ اچانک کیا ہو گیاہے کہ ہم نے اپنے عادات و اطوار تک تبدیل کر دیئے ۔ہمارے بچے گھر اور اپنے کھیت کا کام کرتے ہو ئے شرم کیوں محسوس کرتے ہیں ؟یہ عیب کیوں بن چکا ہے ؟اس کے گناہ ہونے کا فتویٰ کس بد بخت نے جاری کیا ہے ؟اس کھیل تماشے میں اگر دلی والوں کی نیت خراب ہے تو ہمارے واویلا سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم ایک نا اہل اور کم حوصلہ قوم بنتی جارہی ہے ؟ہم اپنے بچوں کو یہ کیوں نہیں سمجھا تے ہیں کہ گھر کا کام عیب نہیں عبادت ہے ،ہم انھیں یہ کیوں نہیں بتاتے ہیں کہ گھریلو کام اپنے ہاتھ سے کرنا ’’انبیاءِ کرام ؑ ‘‘کا طریقہ ہے ،ہم انہیں یہ کیوں نہیں بتاتے ہیں کہ کھیت و کھلیان اور باغات کا رکھ رکھاؤ اور کام صحابہ کبارؓ،اولیاء کرامؒ اور صالحین عظام کی روایت ہے ،ہم انہیں یہ کیوں نہیں سمجھاتے ہیں کہ اپنا کام غیرضروری طور پر مزدوروں سے کرانا اپنے آپ کو معذور کردینے کا غیر محسوس عمل ہے ،ہم انھیں یہ کیوں نہیں بتاتے ہیں اپنا کام خود نہ کرنا ایسی خود کشی ہے جس کے اثرات بڑھاپے سے قبل ہی ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں ،ہم انہیں یہ کیوں نہیں سمجھاتے ہیں کہ نرم و گرم غذائیں کھلاکر جسم کو فربہ کرنا کوئی نیکی نہیں بلکہ غیر ضروری عمل مگر بشری تقاضاہے ،اپنا کام آپ اپنے ہاتھوں انجام دینا ،والدین کی خدمت کرنا ،ہمسایوں ،یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرنا ایک عظیم صالح عمل تو ہے ہی مگراس کے علاوہ گھر میں جھاڑودینا ،بیت الخلاء صاف رکھنا،باہر کی گلیوں اور ڈرینوں میں صفائی کرنا ،کپڑے دھونا،کھاناپکانااور پرونااور گھریلو جانوروں کو پالنا ’’صالحین ‘‘کا کام ہے کوئی عیب نہیں ۔

اپنی معذور قوم کی کم ہمتی کا دوسرا پہلو بھی ملاحظ فرمایئے اور دیکھ لیجیے کہ کیوں ہمارے لوگ غیر ریاستی مزدوروں سے کام کرانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ہمارا مزدور کام پر سردیوں میں دس بجے اور گرمیوں میں نو بجے پہنچتا ہے برعکس اس کے غیرریاستی مزدور گرمیوں میں بعد نمازِ فجر اور سردیوں میں آٹھ سے لیکر ساڑھے آٹھ بجے تک کام شروع کرتاہے ۔محنت کش بہاری کام ٹھیکے پر کرتے ہو ئے رات کے آٹھ نو بجے تک کام سے کام رکھتا ہے جبکہ ہمارا کشمیری مزدور پانچ بجے گھر چلا جاتا ہے ۔بہاری جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود بلا توقف کام جاری رکھتا ہے جب کہ کشمیری مزدوروں کی کہالت ضرب المثل ہے اس لئے کہ جیسے ہم ویسے وہ ۔یہاں آ پ کی یہ منطق چلنے والی نہیں ہے کہ یہ دلی کی سازش ہے مزدوری دینے والے کو کام سے غرض ہے سازش سے نہیں ۔اس حوالے سے ضروری ہے کہ مزدوروں کی ایک ایسی تنظیم ہو جو ان پر مظالم اور حق تلفی روکنے کے ساتھ ساتھ انھیں حق ادائی کا بھی سبق دے سکے ۔

دیہاتی لوگوں کا اپنے ہاتھوں کام نہ کرنا گرچہ اب عام ہوچکا ہے مگر شہری آبادیوں میں اس نے ایک فیشن کی صورت اختیار کر لی ہے ۔سرینگر میں غیر ریاستی نوکروں کی ایک فوج نظر آتی ہے جو ’’بہادر صاحب ‘‘کی لاڈلیوں کوشاپنگ کرنے بھی ساتھ جاتے ہیں ،یہاں تک کہ اس آڑ میں شادی سے قبل دوستیاں بھی پکی ہو جاتی ہیں اس لئے کہ کشمیر میں پردے کا جنازہ نکل چکا ہے ۔اختلاط و مردو زن کی ایسی وباء کہ اﷲ کی پناہ !غیرریاستی ہی نہیں کشمیر میں ’’بھائی لوگوں‘‘کی ایک فوج پھیلی ہوئی نظر آتی ہے ۔آپ کسی بھی لڑکی سے پارک ،باغ،سڑک اور گاڑی میں گپ شپ میں محو ساتھی نوجوان کے بارے میں پوچھیے تو جواب ہوگا یہ بھائی جان ہیں۔حیرت یہ کہ بھائی جان سے ملنے کے لئے گھر میں فرصت ہی نہیں ملتی ہے لہذا پارک یا باغ ہی اچھی اور مناسب جگہ ہے آخر کیوں؟اس لئے کہ یہ بھائی جان نہیں بلکہ دین و دنیا کا دشمن شیطان ہے ۔حیرت یہ کہ اب ان بھائی جانوں کی جگہ بھی غیر ریاستی بھائی جان لے رہے ہیں ! کیا کسی قوم کو اس سے بڑھکر کسی دشمن کی ضرورت ہے ؟

کشمیر میں نکاح کے مسائل نے بھی خاصی گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔نکاح اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ عام انسان ہر دم پریشان ۔کشمیری لڑکیوں کی تربیت اور اس کے نتیجے میں گھروں میں ساسوں کی شکل میں ’’ڈائینوں‘‘کی ایک ایسی فوج تیار ہو چکی ہے کہ اﷲ کی پناہ ۔ناز و نعم میں پلے ’’بیکار مشٹنڈے‘‘نوجوان کے لئے اس کی والدہ ماجدہ ایک ایسی کلی کی تلاش میں رہتی ہے جو شکل میں مہتاب،عقل میں لقمان اوردولت میں بنت اسکندرہو۔کلی کا جرم یہ ہو کہ وہ ’’ڈائین‘‘کی جنس سے ہے جس کا جرمانہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف مشٹنڈے صاحب بہادر کے لئے قیمتی گاڑی،اچھی سی بینک بیلنس ،زمین جائیداداور گھر کے ہر فرد کی ہر من چاہی مراد پوری کرے چاہیے کہ اس کے لئے ’’بے چاری دلہن‘‘کو ماں باپ بینک میں ہی گرو کیوں نہ رکھنے پڑیں۔کشمیری آفتابوں کی بات ہی کیا جو نارمل قسم کے نوجوان یہاں رہتے ہیں ان کے لئے نکاح خاصا دشوار مسئلہ بن چکا ہے ۔ایک عام اور غریب لڑکی اپنے ’’کفو‘‘سے شادی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتی ہے نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نوجوان غیر ریاستی لڑکیوں سے شادیوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور اعلاعات کے مطابق کئی ہزار بہوئیں اب اسٹیٹ سبجکٹ سند حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ کوئی یہاں یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ ان سبھی سوالات کا تعلق قوم اور وطن پرستی سے ہے نہ کہ اسلام ؟اس لئے کہ اسلام رہن سہن،نکاح و سکونت اور کام کاج میں کسی کشمیری غیر کشمیری کا قائل نہیں ہے ۔یہ شبہ یقیناََ درست اور سو فیصد صحیح اور برحق ہے ۔مگر یہاں ہم یہ عرض کریں گے کہ جموں و کشمیرکے باشندے بحیثیت مجموعی آرام طلب ،سست اور کاہل بنتے جارہے ہیں،ہماری نئی نسل اپنے ہاتھوں کام کرنے کو عیب تصور کرنے لگی ہے ،ان کی رگ رگ میں ہزاروں کلو میٹر دور عرب شہزادوں کے سے اثرات و عادات ظاہر ہونے لگے ہیں حالانکہ خود کشمیر میں بے روزگاروں کی فوج سڑکوں پر گھومتی پھرتی نظر آتی ہے اور ان کی پوری توجہ سرکاری نوکریوں پر لگی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ سرکاری نوکریوں کی حقیقی گنجائش ختم ہو چکی ہے تو کیا وجہ ہے کہ گھر کا کام ’’بے کار صاحب‘‘اپنے ہاتھ سے کرنے کے برعکس غیر ریاستی باشندوں سے کراتے ہیں حالانکہ وہ خود اس کام کی مزدوری کے زیادہ محتاج ہے ۔ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں کل کو ہماری پوری نسل ہی بیمار ،کم ہمت اور بے حوصلہ نہ ہو جائے اور اسلام کسی بھی طور کسی بھی اپنے پیروکار کے سست ،کاہل اور کام چور بن جانے کو گوارا نہیں کرتا ہے ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93805 views writer
journalist
political analyst
.. View More