یوم حق خودارادیت
(Raja Majid Javed Ali Bhatti, )
˜5جنوری یوم حق خودارادیت کا تاریخ ساز دن
کشمیری عوام اور قیادت کو عزم اور استقامت کے ساتھ اپنی منصفانہ جدوجہد
جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ دونوں اطراف کے کشمیری عوام پانچ جنوری
کو یوم حق خودارادیت مناتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے 5 جنوری 1949 کی قرارداد
منظور کی تھی جس میں پاکستان اور بھارت کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اس
کا بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے بین
الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے حق خودرادیت دیا جائے گا۔ اس
سلسلے میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان میں حق خودارادیت کے
موضوع پر سیمینار، جلسے، جلوس اور مظاہرے ہوں گے۔اس دن کومنانے کا مقصد
اقوام متحدہ کو قراردادوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرانا ہے،جن کے ذریعے
کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 5 جنوری 1949 کو منظور
کی جانے والی قرارداد میں کشمیریوں کا یہ حق تسلیم کیا گیا تھاکہ وہ آزاد
طریقے سے ووٹ کے ذریعے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ اپنا مقدر
وابستہ کر سکتے ہیں۔ اس قرارداد کو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی حمایت
حاصل تھی۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت اور مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے پاک
بھارت مذاکرات کے بعد بھارت کی کہہ مکرنیوں کی ایک طویل اور سیاہ تاریخ ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت ریاست جموں و کشمیر کا 84ہزار میل علاقہ انتظامی
مقاصد کے لئے تین حصوں میں صوبہ کشمیر، صوبہ جموں اور قبائلی اضلاع (لداخ
اور گلگت) میں منقسم تھا اور 1941ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی
چالیس لاکھ تھی جس میں مسلمانوں کا تناسب 77.11فیصد تھا۔ ریاست کے ہر صوبہ
میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جموں میں ان کی آبادی سب سے کم تھی لیکن وہاں
بھی ساٹھ فیصد تھے اور وادی کشمیر میں 93فیصد تھے۔ جغرافیائی طور پر کشمیر
پاکستان سے ملحق ہے اور دونوں کے مابین 902میل لمبی سرحد مشترک ہے جبکہ
بھارت کے ساتھ کشمیر کی صرف 317میل سرحد مشترک ہے۔ وہ بھی ریڈکلف ایوارڈ کے
ذریعے گورداسپور اور بٹالہ کے مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو ملنے سے بنی۔
اس کے رسل و رسائل کا سارا فطری نظام (سڑکیں، دریا، ریلیں) پاکستان سے
مشترک ہے۔وہ تمام دریا جو پاکستان کی معیشت کے لئے اہم ہیں ان کے منبع
ریاست میں ہی ہیں۔ جنگی نقطہ نظر سے کشمیر کی پوزیشن ایسی ہے کہ اگر کشمیر
انڈین یونین میں شامل ہو جائے تو پاکستان کلی طور پر گھر کر رہ جائے گا۔
مختصر جغرافیائی طور پر کشمیر پاکستان کا جزو لانیفک ہے۔ اقتصادی طور پر
پاکستان اور کشمیر کا باہمی انحصار ہے، ثقافتی طور پر وہ ایک دوسرے سے
مربوط ہیں اور دفاع کے لئے وہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔
برصغیر کی تقسیم ہندو اور مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقوں کی بنیاد پر ہوئی
تھی۔ اسی اصول کی بناء پر شاہی ریاستوں کو پاکستان اور بھارت میں سے کسی
ایک میں شامل ہونا چاہئے۔ وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے
کہا تھا ’’کہ عمومی طور پر جغرافیائی محل وقوع اور فرقوں کے مفادات وغیرہ
عناصر ہوں گے جن پر توجہ کی جائے گی۔‘‘ 25جولائی 1947ء کو انہوں نے والیان
ریاست سے کہا ’’جس طرح آپ اپنی رعایا کی خوشحالی کی ذمہ داری سے روگردانی
نہیں کرسکتے‘‘۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ پاکستان یا بھارت سے ریاستوں کا
الحاق ان کی کسی مملکت سے جغرافیائی قربت اور آبادی کی خواہش و خوشنودی کے
مطابق ہوگا۔ اصول تقسیم اور ان حقائق کی رو سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بن
جانا چاہئے تھا اور اسی چیز کا مطالبہ وہاں کی آبادی کررہی تھی۔ مسلم
کانفرنس نے 19جولائی 1947ء کو پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی۔
قرارداد کے الفاظ میں کہا گیاتھا۔ ’’مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن اس نتیجے پر
پہنچا ہے کہ جغرافیائی حالات، مجموعی آبادی کی اسی فیصد مسلم اکثریت، پنجاب
کے اہم دریاؤں کے ریاست سے نکلنے، لسانی، ثقافتی، نسلی اور معاشی تعلقات
اور ریاست کی سرحدوں کا پاکستان کی سرحدوں سے اشتراک یہ سب حقائق اس امر کو
ضروری قرار دیتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔
وسط اگست میں نیشنل کانفرنس کی جنگی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کل
تیرہ ممبر حاضر تھے اور ان میں سے آٹھ نے پاکستان سے الحاق کرنے کے حق میں
ووٹ دیئے لیکن آخری فیصلہ شیخ عبداﷲ سے گفت و شنید تک ملتوی کردیا گیا جو
اس وقت جیل میں تھے۔ 15اگست کو ساری ریاست میں یوم پاکستان منایا گیا۔
پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے اور مسلم کانفرنس کے موقف پاکستان سے الحاق کی
حمایت میں قراردادیں منظور کی گئیں۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت جموں و کشمیر میں ڈوگرہ خاندان کی موروثی بادشاہت
تھی اور گلاب سنگھ کا نسلی وارث سرہری سنگھ ریاست کشمیر کا حکمران تھا۔ وہ
ایک کشمکش میں مبتلا ہو گیا کیونکہ وہ خود تو بھارت کے ساتھ الحاق کرنا
چاہتا تھا لیکن اس کی رعایا نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں سرگرمی کا
مظاہرہ کیا۔ مہاراجہ نے وقت ٹالنے اور مسلم رعایا کے اندیشوں کو بہلائے
رکھنے کے لئے دونوں حکومتوں سے سلسلہ جنبانی شروع کردی اور ان سے درخواست
کی کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ سٹینڈ سٹل معاہدہ کرلیں جس پر پندرہ
اگست سے عملدرآمد ہو۔ حکومت پاکستان بخوشی رضامند ہوگئی مگر بھارت نے ایسا
نہ کیا کیونکہ وہ تو الحاق کے لئے کوشاں تھا۔ اس دوران کانگریسی لیڈروں نے
بڑی عجلت سے کشمیر کے دورے کیے اور بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے
انتظامات کروائے۔ گاندھی نے اگست کے پہلے ہفتہ میں کشمیر کا تین روزہ دورہ
کیا جس کے نتیجے میں ایک ہفتہ کے اندر مسٹر کاک کی بجائے بھارت کے حامی
جنرل جنک سنگھ کو کشمیر کا وزیراعظم بنا دیا گیا اور مہاراجہ ہری سنگھ نے
ان سے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ مناسب وقت پر ریاست کے بھارت کے ساتھ
گورداسپور کے راستے سڑک اور رسل و رسائل کے دیگر رابطے بہتر ہوتے ہی الحاق
کر لے گا اور عین اسی موقع پر ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان ہوا اور بھارت کو
کشمیر تک رسائی حاصل ہو گئی۔
معاہدہ قائمہ کے تحت جو انتظامات ریاست اور سبکدوش برطانوی حکومت کے مابین
تھے انہیں ریاست اور حکومت پاکستان کے مابین جاری رہنا تھا۔ پاکستان یہ
سمجھتا رہا کہ یہ مکمل الحاق کی طرف پہلا قدم ہے جبکہ مہاراجہ کسی اور ہی
سازش میں مصروف تھا۔ مہاراجہ تو وقت حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا وہ ہندو
تھا اور مسلمانوں سے نفرت کرتا تھا اور ریاست کا بھارت سے الحاق چاہتا تھا
لیکن رعایا کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے کے لئے اس نے زمین ہموار کرنا تھی
اور حفاظت کی راہیں پیدا کرنا تھیں۔ پاکستان کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کرنے
کے بعد مہاراجہ نے جو پہلا قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ بھارت کی انتہا پسند
مسلم دشمن تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ اور جن سنگھ وغیرہ کے مسلح افراد
بھاری تعداد میں جو اندازاً اڑھائی لاکھ سے اوپر تھے کو ریاست میں داخل
کرنا شروع کردیا اور انہوں نے ریاستی افواج جن کا سربراہ خود مہاراجہ تھا
سے مل کر مسلمان آبادی کا بڑی بے رحمی سے نام و نشان مٹنانے کا سلسلہ شروع
کردیا۔ مہاراجہ کا خیال تھا کہ قتل و غارت سے وہ مسلمانوں کو مکمل طور پر
ختم نہ بھی کرسکا تو ان کی اکثریت کا زور توڑنے میں کامیاب ہو جائیگا۔ اس
صورت میں وہ بھارت سے الحاق کریگا تو مسلمانوں کی طرف سے کسی مخالفت کا
امکان باقی نہ رہے گا۔
چنانچہ لندن ٹائمزکے نامہ نگار خصوصی کے مطابق ایک منظم سازش کے تحت
مہاراجہ کی سرگردگی میں ڈوگرہ نوجوانوں کے ہاتھوں جن کی امداد ہندو اور سکھ
کررہے تھے ریاست کے 2 لاکھ 37ہزار افراد قتل کروا دیئے گئے اور ایک رپورٹ
کے مطابق جولائی سے اکتوبر 1947ء تک ریاست کے پانچ لاکھ افراد ملیامیٹ کر
دیئے گئے جن میں سے دو لاکھ قتل کیے گئے اور تین لاکھ کو بھگا دیا گیا۔ اس
ظلم اور حالات کے اس تغیر سے مہاراجہ کے ناپاک عزائم اب کھل کر سامنے آ گئے
تھے۔ کشمیری مسلمانوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ان کی قسمت کا سودا کیا جا رہا
ہے۔ پونچھ میں جہاں ہزاروں مسلمان فوجی پنشنر آباد تھے نے مہاراجہ اور اس
کی حکومت کے خلاف ایک عام مسلح بغاوت شروع کردی۔ ان لوگوں کی جہلم اور
راولپنڈی کے لوگوں سے قرابتیں تھیں چنانچہ انہوں نے اپنی عورتوں اور بچوں
کو ان اعزواقربا کے پاس بھیج دیا اور جیسے بھی ہتھیار (نیزے، بھالے
دقیانوسی بندوقیں) انہیں حاصل ہوئے وہ لے کر سامنے آ گئے۔ بعد میں ان کی
مدد دو طاقت ور عناصر نے کی۔ پہلا عنصر تو وہ مسلمان فوجی افسر تھے جو
مہاراجہ کی سرحد پر رہنے والی قبائلی پٹھان تھے جن کے کشمیری عوام سے گہرے
خاندانی اور جذباتی رشتے تھے۔
اکتوبر 1947ء میں سردار پٹیل نے اپنے ایک خاص آدمی مہرچند مہاجن کو جنک
سنگھ کی کشمیر کا وزیر اعظم بنوا دیا اور اسے یقین دلایا کہ ضرورت پڑنے پر
اس کی مدد کی جائیگی۔ اس دوران بھارتی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ کشمیر میں
انتخاب ہوں اور شیخ عبداﷲ اور اس کے آدمی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے
بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں لیکن قبائلیوں کے حملے نے ان کے اس
منصوبے کو خاک میں ملا دیا۔ پونچھ کے مجاہدین مہاراجہ کی فوج کو شکست دینے
میں کامیاب ہو گئے۔ قبائلی کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے صرف 35میل دور
رہ گئے۔ 24اکتوبر کو حریت پسندوں نے جتنا علاقہ آزاد کرا لیا تھا اس پر
آزاد جموں و کشمیر حکومت قائم کرلی۔ 25اکتوبر کو مہاراجہ ہواس باختہ ہو کر
وی پی مینن کے مشورہ سے سری نگر سے بھاگا اور جموں میں پناہ گزین ہوا اور
بھارت سے فوری مدد کی درخواست کی اور بھارت کی خواہش کے پیش نظر شیخ عبداﷲ
کو اپنی حکومت میں شامل کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ ماؤنٹ بیٹن کے مشورہ سے حکومت
بھارت نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارتی فوج صرف اس صورت کشمیر بھیجی جاسکتی ہے کہ
مہاراجہ پہلے بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا اعلان کرے۔ ساتھ ہی وی پی
مینن کو مہاراجہ سے دستاویزی الحاق حاصل کرنے کے لئے جموں بھیجا گیا۔
مہاراجہ نے 26اکتوبر کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے اور 27اکتوبر کو
بھارت نے مہاراجہ کا الحاق قبول کرلیا اور اس کارروائی سے کئی گھنٹے پہلے
بھارتی حکومت اپنی فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے روانہ کرچکی تھی کیونکہ 27
اکتوبر کی صبح نو بجے بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتر رہے
تھے۔ ساتھ ہی کشمیر کو بھارت سے ملانے والی واحد سڑک سے سول اور ملٹری
ٹرانسپورٹ کے ذریعے دوسری افواج کو فوری طور پر پہنچنے کا حکم دیدیا گیا۔
یہ وہی سڑک ہے جو ریڈ کلف نے غالباً اکثریتی مسلم علاقہ گورداسپور بھارت کے
حوالے کرکے اسے مہیا کی۔ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو الحاق کی منظوری کا جو
مراسلہ 27اکتوبر کو بھیجا تھا اس میں یہ تجویز تھا کہ اس پالیسی کے مطابق
کہ جہاں کہیں الحاق کا سوال متنازع ہو، الحاق کا مسئلہ ریاست کے عوام ہی کی
مرضی کے مطابق طے ہو، میری حکومت کی یہ خواہش ہے کہ کشمیر میں جونہی قانون
و امن بحال ہو جائیں اور اس کی سرزمین حملہ آوروں سے خالی ہو جائے تو پھر
ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی مرضی سے طے کیا جائے گا۔ مہاتما گاندھی نے
29اکتوبر کو اپنی پرارتھنا والی تقریر میں کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے
ہوئے کہا کہ جب مہاراجہ نے اپنی مصیبت کی گھبرا کر انڈین یونین سے الحاق کی
درخواست کی تو گورنر جنرل اس تجویز کو رد ہی نہیں کرسکتے تھے چنانچہ کشمیر
میں اس سمجھوتے کی بنا پر فوجیں بھیجی گئیں کہ یہ الحاق کشمیر ایک غیر
جانبدار استصواب رائے کے ساتھ مشروط ہے۔
30اکتوبر کو وزیر اعظم بھارت پنڈت نہرو نے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان
کو ایک تار میں کہا کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات
اور ان کی رائے کے مطابق ہوگا۔ ہماری یہ یقین دہانی کہ جونہی امن قائم ہوگا
ہم اپنی فوجیں کشمیر سے ہٹا لیں گے۔ صرف آپ کی حکومت سے ہی نہیں بلکہ
کشمیری عوام اور پوری دنیا سے ہمارا عہد ہے۔
حکومت پاکستان نے اس الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ قائد اعظم نے
فرمایا کہ یہ اقدام فریب اور تشدد پر مبنی ہے۔ کشمیر کے الحاق کے متعلق
لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی اس الحاق کو تسلیم نہیں کریگا۔
یہ الحاق دھوکہ ہے کیونکہ اسے حاصل کرنے کے لئے جان بوجھ کر ایسے حالات
پیدا کیے گئے جن کا مقصد الحاق کے ڈھونگ کا جواز پیدا کرنا تھا۔ یہ سودا
تشدد پر اس لئے مبنی تھا کہ اس کی وجہ سے مہاراجہ اور اس کی حکومت کے مسلم
کشی کے منصوبے کو تقویت حاصل ہوئی۔ یہ سب کچھ ریاست کے باشندوں کی غالب
اکثریت کی مرضی کے صریحاً خلاف تھا اس لئے اخلاقی، آئینی، ثقافتی، مذہبی یا
کسی اعتبار سے اسے قابل اعتماد نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ الحاق تقسیم کے
بنیادی اصولوں کے خلاف تھا اور پاکستان نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات بھی
بتا دی کہ مہاراجہ کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کا کوئی قانونی حق نہ
تھا کیونکہ جب الحاق پیش کیا گیا تو مہاراجہ فرار ہوچکا تھا اور عوامی
بغاوت کے باعث ریاست کے کافی بڑے حصے سے محروم ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ
مہاراجہ کا الحاق قبول کرنا بھارت کے لئے ایک ایسا فعل تھا جو اس کے گزشتہ
طرز عمل(جونا گڑھ) کی نفی کرتا ہے۔
قائد اعظم نے بھارتی حملے کا سنا تو انہوں نے پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل
گریسی کو حکم دیا کہ وہ بھی پاک افواج کو کشمیر بھیج دے تاکہ مجاہدین کی
مدد کریں۔ جنرل گریسی نے اس بنا پر قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا
کہ وہ سپریم کمانڈر آکنلک کی اجازت کے بغیر اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھا
سکتا۔ جنرل گریسی اور اکنلک کے مشورہ پر قائد اعظم نے اپنا حکم واپس لے لیا
اور طے ہوا کہ لاہور میں ایک کانفرنس منعقد کی جائے جس میں بھارت کی طرف سے
ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت نہرو اور پاکستان اور کی طرف سے قائد اعظم اور لیاقت
علی خان شریک ہوں اور اس کانفرنس میں اس مسئلہ کا حل کی راہ نکالی جائے۔
نہرو بیماری کا بہانہ بنا کر کانفرنس میں نہ آئے البتہ قائد اعظم نے یکم
نومبر کو ماؤنٹ بیٹن سے کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی کہ بھارتی فوجیں اور
قبائلی باشندے ریاست سے فوراً واپس جائیں اور اس کے بعد دونوں ملکوں کے
گورنر جنرل اپنی نگرانی میں استصواب کا انتظام کریں جس کا 21نومبر کو بھارت
نے یہ جواب دیا کہ جب ریاست میں امن و امان قائم ہو جائیگا تو ہم اس بات کے
لئے تیار ہونگے کہ کسی بین الاقوامی ادارے مثلاً اقوام متحدہ کے زیر انتظام
استصواب کرایا جائے۔ اس دوران کشمیر میں لڑائی جاری رہی۔ آزاد کشمیر کی
افواج اور رضاکاروں نے بھارتی افواج کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا اور ان کی
پیش قدمی کو روک دیا لیکن جب مئی 1948ء میں لڑائی پاکستان کی سرحدوں تک
پہنچ گئی تو حکومت پاکستان کو بعض دفاعی مورچے سنبھالنے کے لئے کچھ فوج
ریاست میں بھیجنا پڑی۔
ادھر بھارت نے جب یہ دیکھا کہ مجاہدین آزادی کشمیر کو شکست نہیں دے سکتا تو
یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں پیش کردیا اور یہ
شکایت کی کہ ریاست کشمیر مملکت بھارت سے الحاق کرچکی ہے لیکن قبائلی اور
دوسرے لوگ کشمیر پر حملہ کررہے ہیں اور پاکستان اس حملہ میں ان کی مدد
کررہا ہے۔ بھارت نے درخواست میں کہا کہ سلامتی کونسل پاکستان سے کہے کہ وہ
قبائلیوں اور اپنے شہریوں کو ریاست میں داخل ہونے سے روکے اور انہیں کوئی
مادی امداد دینے سے باز رہے۔ بھارت نے یہ ذمہ لیا کہ قانون و امن بحال ہو
جانے پر وہ عوام کی مرضی معلوم کرنے کی خاطر ریاست میں رائے شماری کرائیگا۔
پاکستان نے 15جنوری 1948ء کو اپنے جواب میں سلامتی کونسل سے کہا کہ بھارت
کے ساتھ مہاراجہ کا الحاق فراڈ اور تشدد پر مبنی ہے اور اس کی کوئی قانونی
حیثیت نہیں۔ پاکستان نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ اس کے لئے اپنے تمام
شہریوں کو روکنا ممکن نہیں اور اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ وہ قبائلیوں
کو اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے سرحد پار آنے سے روک سکے۔ مگر
پاکستان نے ان کو کوئی مادی مدد نہیں دی۔ اگرچہ اس کی اخلاقی ہمدردیاں تمام
تر مجاہدین آزادی کے ساتھ ہیں۔ پاکستان نے یہ بھی کہا کہ اس مسئلہ کا واحد
حل یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں جن میں منصفانہ اور بے لاگ رائے
شماری ہوسکے تاکہ یہ دریافت کیا جاسکے کہ ریاست جموں و کشمیر کس مستعمرہ سے
الحاق کرے۔
بھارت کی طرف سے سلامتی کونسل میں سرگوپال آئنگر پیش ہوئے ان کے وفد میں
کشمیری رہنماء شیخ عبداﷲ بھی تھے جب کہ پاکستانی وفد کی قیادت چوہدری ظفر
اﷲ نے کی۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے نمائندوں کے بیانات سننے کے بعد 17
جنوری 1948ء کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں دونوں حکومتوں
سے کہا گیا تھا کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے صورتحال سنگین ہو
جائے۔ 21جنوری 1948ء کو ایک اور قرارداد منظور کی گئی جس کی رو سے ایک
کمیشن مقرر کیا گیا اس کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ جائے متنازعہ پر جاکر
حالات کی تحقیق کرے اور طرفین میں پُرامن تصفیہ کرانے کی خاطر ثالثی کے
فرائض انجام دے۔ اقوام متحدہ کا کمیشن برائے بھارت اور پاکستان طویل گفت و
شنید کے بعد 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949ء کی قرارداد کے بارے میں پاکستان
و بھارت کی حکومتوں کی منظوری اور سلامتی کونسل کی تصدیق حاصل کرنے میں
کامیاب ہو گیا۔ ان قراردادوں کی رو سے فریقین میں جنگ بندی، جنگ بندی لائن
کا تعین، ریاست سے فوجوں کا انخلاء نیز ریاست کے بھارت یا پاکستان سے الحاق
کے لئے اقوام متحدہ کے تحت آزاد اور بے لاگ استصواب منعقد ہونا طے پایا۔
پہلی قرارداد پر عملدرآمد کرتے ہوئے یکم جنوری 1949ء کو جنگ بند ہو گئی۔
27جولائی 1949ء کو حد جنگ بندی مقرر ہوئی اور اقوام متحدہ کے مبصرین پچاس
میل لمبی سرحد پر تعینات ہوئے لیکن یہ کمیشن ریاست سے فوجیں ہٹانے کی شرطیں
طے کرانے میں متعلقہ فریقین سے کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہا اور فوجیں
ہٹنے کے بعد ہی رائے شماری ہوسکتی تھی۔ سلامتی کونسل نے اس مقصد کے لئے کئی
ثالث مقرر کیے۔ ثالثی کی ہر تجویز پاکستان نے قبول کی جبکہ بھارت نے مسترد
کردی اور اس نے ایک ساتھ بھارتی اور پاکستانی فوجیں ہٹانے سے انکار کردیا۔
بھارت کا کسی صورت یا طریق سے ایسے انخلاء پر متفق ہونے سے انکار جس سے
آزاد اور بے لاگ رائے شماری ممکن ہو، ابتداء میں یو این سی آئی پی کی
13اگست 1948ء اور جنوری 1949ء کی قراردادوں کی تشریح کا معاملہ ہوتا تھا۔
بھارت سرکار نے جو نیا رویہ اختیار کیا اس کا لب لباب یہ تھا۔
بھارتی فوج کے بڑے حصے اور پاکستان کے فوجی دستوں کو ہٹا لینے کے کام کے
مرحلوں کو ایک ساتھ سرانجام دینا طے نہیں ہوا تھا۔ بھارتی فوج کے ایک بڑے
حصے کا انخلاء اس شرط پر مبنی تھا کہ آزاد کشمیر کی فوج کو غیر مسلح کرکے
توڑ دیا جائے۔ بھارت سرکاری کو شمالی علاقوں کے منتخب مقامات پر فوجی
چوکیاں قائم کرنے کی اجازت دی جائے اور ان علاقوں کا نظم و نسق دوبارہ
مہاراجہ کے ہاتھوں میں سونپ دیا جائے۔
اس کے بعد بھارتی حکومت اپنے مطالبات بڑھاتی چلی گئی یہ مطالبات صریحاً
متفقہ طور پر منظور کردہ قراردادوں کی شرائط کے خلاف تھے۔ جب کمیشن مصالحت
کرانے میں ناکام رہا تو اس نے فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ متنازعہ امور کے
تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ایڈمرل چسٹرٹمٹز کو ثالث بنالیں۔
صدر ٹرومین اور وزیر اعظم ایٹلی نے بھارت اور پاکستان کے وزیر اعظم سے ذاتی
اپیل کی کہ وہ تجویز کو منظور کرلیں۔ حکومت پاکستان نے اس تجویز کو مان لیا
مگر بھارت نے اسے مسترد کردیا۔ 1950ء میں اس مسئلہ کے حل کے لئے سلامتی
کونسل کے صدر جنرل میکناٹن آف کینڈا نے کوشش کی۔ مئی 1950ء میں آسٹریا کے
سراون ڈکسن اس تنازع کا بہ عجلت اور دیرپا حل کرنے کے لئے مقرر ہوئے۔ سراون
ڈکسن نے سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’بالآخر مجھے یقین ہو گیا
ہے کہ فوجی انخلاء کی کسی بھی شکل پر بھارت کی رضا کا حصول ناممکن ہے جس سے
کشمیر میں غیر جانبدارانہ منصفانہ استصواب کرایا جاسکے۔‘‘ جون 1951ء سے
فروری 1953ء تک امریکہ کے ڈاکٹر فرانک گراہم نے فوجی انخلاء اور رائے شماری
کے لئے متعدد تجاویز پیش کیں لیکن یہ کوششیں بھی ناکام رہیں اس کے بعد
1957ء میں سلامتی کونسل نے سویڈن کے نمائندہ مسٹر گنارجارنگ کو مسئلہ کشمیر
کے تصفیہ کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان اور بھارت بھیجا۔ مسٹر
جارنگ نے متنازع معاملات کو ثالثی کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی جسے
پاکستان نے منظور اور بھارت نے رد کردیا۔ اس مشن کی ناکامی کے بعد سلامتی
کونسل نے فرانک پی گراہم کو دوبارہ کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کو 13اگست
1948ء اور جنوری 1949ء کی قراردادوں کے مطابق اس تنازع کا فیصلہ کرنے پر
تیار کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے 12جنوری 1958ء تا 15جنوری 1958ء پاکستان
اور بھارت کا دورہ کیا۔ انہوں نے اس قضیہ کو طے کرنے کی خاطر اپنی رپورٹ
میں پانچ تجاویز پیش کیں جس میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ پاکستانی جانب کے
کشمیر کے علاقہ میں اقوام متحدہ کی فوج متعین کی جائے۔ پاکستان نے ان تمام
تجاویز سے اتفاق کیا جبکہ بھارت نے مسترد کردیں۔ مختصراً بھارت نے کشمیر سے
اپنی فوجیں نکالنے سے صاف انکار کردیا اور اس شرط پر اصرار کیا کہ رائے
شماری سے قبل پاکستان کی جارحیت کا انحلاء ہو جسے پاکستان نے قبول نہ کیا
کیونکہ پاکستان کا مطالبہ تھا کہ ایک آزاد غیر جانبدار استصواب کے لئے
دونوں ملکوں کی فوجوں کا بیک وقت انخلا ہو اور اس کے ساتھ ہی وقتی طور پر
اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنی کوششیں بند کردیں۔
اس دوران بھارت نے رائے شماری سے پہلو تہی کے لئے 1956ء میں مقبوضہ کشمیر
میں کنٹرول انتخابات کے ذریعے ایک دستور ساز اسمبلی کا انتخاب کروایا۔
اسمبلی کی 75سیٹوں کے لئے 75ہی امیدوار تھے اور یہ بھارت کی حامی حکمران
پارٹی نیشنل کانفرنس کے نامزد کردہ تھے۔ 17نومبر 1956ء کو اسمبلی نے بھارت
سے ریاست کے الحاق کی توثیق کردی تو اس کے بعد بھارت نے یہ موقف اختیار
کرلیا کہ اب استصواب کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ ریاستی عوام نے اپنے
نمائندوں کے ذریعے فیصلہ دیدیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے اس دعوے کو تسلیم
کرنے سے انکار کردیا کیونکہ انتخابات میں الحاق کا سوال ہی نہیں اٹھایا گیا
تھا تو یہ رائے شماری کا بدل کیسے بن سکتے تھے اور بھارتی فوجوں کی سنگینوں
یا قبضہ کے دوران کشمیری عوام اپنی مرضی کا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔
24جنوری 1957ء کو سلامتی کونسل نے دس میں سے نو ووٹوں(روس نے ووٹ نہ دیا
تھا) سے اپنی پہلی قراردادوں کی تصدیق کردی کہ جموں و کشمیر کے باشندوں کو
یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق بھارت یا پاکستان جس سے چاہیں
الحاق کرلیں ۔ اس اجلاس نے دونوں اطراف کو کشمیر میں استصواب رائے کی خاطر
اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے کمیشن کی کئی ایک پہلی قراردادوں کی
یاد دہانی کرائی اور یہ فیصلہ کیا کہ سری نگر میں بیٹھی ہوئی کسی اسمبلی کو
یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کوئی قانون منظور کرکے کشمیر کا الحاق بھارت سے
کردے۔ اس سے قبل 1954ء میں جب پاکستان نے مغربی معاہدوں میں شرکت اختیار کی
تو رائے شماری سے بچنے کے لئے بھارت نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان
نے امریکی فوجی امداد قبول کرکے پوری صورتحال کو تبدیل کردیا ہے کیونکہ
امریکہ کی فوجی امداد اور پاکستان کے دفاعی معاہدوں میں شرکت نے کشمیر میں
رائے شماری کی بنیادوں کو ہی ختم کرکے رکھ دیا ہے اور اب بھارت کشمیر میں
رائے شماری کا پابند نہیں رہا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کشمیریوں کا حق
خودارادیت پاکستان کی ایک خاص خارجہ پالیسی جسے نئی دہلی کی منظوری حاصل ہو
پر مبنی ہے۔ بقول شیخ عبداﷲ یہ عجیب منطق تھی۔ کشمیریوں نے کوئی گناہ نہیں
کیا تھا لیکن انہیں دوسروں کے گناہوں کی سزا دی جا رہی تھی۔
پاکستان کے سیٹووسنٹو میں شامل ہونے سے روس بھی سخت براہم ہوا لہٰذا اس نے
مسئلہ کشمیر پر 1955ء میں بھارت کی حمایت شروع کردی اور روس کی کمیونسٹ
پارٹی کے سیکرٹری جنرل خروشیف نے دس دسمبر کو سرینگر میں تقریر کرتے ہوئے
کہا کہ کشمیر جمہوریہ بھارت کی ریاستوں میں سے ایک ہے اور اس کا فیصلہ
کشمیری عوام کرچکے ہیں۔
14فروری 1957ء کو سلامتی کونسل کا دوبارہ اجلاس ہوا جس میں آسٹریلیا ،
کیوبا، برطانیہ اور امریکہ کی تیار کردہ ایک قرارداد پیش کی گئی ۔ قرارداد
کی رو سے کونسل کے صدر کودونوں حکومتوں سے مل کر تنازع کشمیر کے تصفیہ کی
کوشش کرنی تھی اور پاکستان کی اس تجویز کا معائنہ کرنا تھا کہ استصواب رائے
سے پہلے ریاستی فوج کو کشمیر سے نکال کر اس کی جگہ اقوام متحدہ کی فوج
متعین کی جائے لیکن روس نے ان چار ممالک کی یہ قرارداد ویٹو کردی۔ 18فروری
1957ء کو سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے روسی نمائندے سبولوو Sobolov نے
اپنے بیان میں کہا کہ مسئلہ کشمیر درحقیقت پہلے سے ہی خود کشمیری عوام کی
مرضی سے حل ہوچکا ہے جو اپنے علاقے کو جمہوریہ بھارت کا ایک لازمی حصہ
سمجھتے ہیں۔ اس نے صرف اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ کشمیر میں
رائے شماری سے مقامی تصادم ہوگا جس سے عالمی امن تباہ ہو گا۔ اس نے مزید
کہا کہ پاکستان کی کشمیر میں اقوام متحدہ کی فوج کے استعمال کی قرارداد
روسی نقطہ نظر سے اقوام متحدہ کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ یو این او کی
فوجی صرف جارحیت کو ختم کرنے کے لئے اور امن و امان قائم کرنے کے لئے
استعمال کی جاتی ہے۔ یہ کشمیری عوام کے قومی جذبہ کی توہین ہوگی۔ ان ترامیم
کے منظور نہ ہونے کی صورت میں روسی وفد ہر اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیگا جو
کشمیر کی صحیح صورتحال کے مطابق نہ ہو جو کشمیری عوام کے مفاد کے مطابق نہ
ہو اور جو اقوام متحدہ کے اصولوں کے خلاف ہو۔
اس دوران رائے شماری سے انکار کرنے کی توجیہ کے طور پر بھارت کی طرف سے یہ
دلیل بھی پیش کی جاتی رہی کہ بھارت ایک سیکولر سٹیٹ ہے۔ رائے شماری سے
مذہبی جذبات مشتعل ہو جائیں گے اور اگر کشمیر پاکستان سے مل جائے تو بھارت
میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو جائیں گے اور اس طرح بھارت کا سیکولر ازم
کا تصور مجروح ہوگا اور چار کروڑ بھارتی مسلمانوں کی زندگی خطرے میں پڑ
جائیگی۔ اس دلیل کے مطابق گویا مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی
مسلمانوں کے تحفظ کے لئے بھارت نے ضمانت کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اس سے بھی
بھارت کا اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے لئے حق خودارادیت کے
مطالبہ سے باز رہے۔ بھارت سیکولر ازم کی مضبوطی کے لئے کشمیر پر دعویٰ کرتا
ہے تو پاکستان بھی کشمیر پر اپنے موقف کی بنیادتقسیم ہند کے اصولی فارمولے
پر رکھتا ہے جو دو قومی نظریہ تسلیم کرکے وضع کیا گیا تھا۔ لہٰذا دونوں
ملکوں کے نظریاتی اختلاف نے بھی مسئلہ کشمیر کو متاثر کیا ہے۔
مئی 1963ء میں دونوں ملکوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے براہ راست مذاکرات
کے کئی دوور بھی بے نتیجہ رہے۔ فروری 1964ء سے مئی 1965ء کے دوران مسئلہ
کشمیر پر پاکستان کی استدعا پر پھر سلامتی کونسل میں زیر بحث آیا لیکن اب
بڑی طاقتوں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اب روس اور امریکہ میں سے کسی کو بھی
یہ منظور نہ تھا کہ پاکستان زچ ہوکر چین کی آغوش میں چلا جائے اور دوسری
طرف وہ بھارت کی ناراضگی بھی مول لینے پر تیار نہ تھے چنانچہ دونوں ملکوں
کو یہ مشورہ دیا گیا کہ جہاں تک بھی ممکن ہو وہ یہ مسئلہ خود دو طرفہ
مذاکرات کی بناء پر حل کرنے کی کوشش کریں لیکن دوسری طرف یکم جولائی 1965ء
میں بھارت نے یہ واضح اعلان کردیا کہ کشمیر بھارت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ
ایک طے شدہ حقیقت ہے جو بحث اور بات چیت کا موضوع نہیں بن سکتی اور حق
خودارادی کی بات بے معنی اور غیر متعلقہ ہے۔ جب اقوام متحدہ اور اس کے باہر
مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو ستمبر 1965ء میں
دونوں ملکوں میں مسئلہ کشمیر پر جنگ چھڑ گئی سلامتی کونسل اور عالمی طاقتوں
کی سفارتی کوشش سے 23ستمبر کو جنگ بند ہوئی۔ روسی حکومت نے دونوں ملکوں کے
سربراہوں کو تاشقند بلایا وہاں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا اور 10جنوری 1966ء
کو دونوں ملکوں میں معاہدہ تاشقند طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک نے دوبارہ
اپنی افواج کو پہلی جنگ بندی لائن پر بلا لیا لیکن اعلان تاشقند کے بعد
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ عملی طور پر بڑی طاقتوں کی
سیاست نے اس مسئلہ کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان کی
علیحدگی نے اگرچہ اس خطہ میں طاقت کا توازن بدل دیا لیکن مسئلہ کشمیر پر
پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی وہ باشندگان کشمیر کے لئے حق
خودارادیت کے مطالبہ پر بدستور قائم ہے۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ مشرقی پاکستان سے شروع ہوئی لیکن ختم مغربی پاکستان
میں ہوئی تھی ۔ مشرقی محاذ پر اگرچہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے تھے
لیکن مغربی محاذ پر 17دسمبر کو باہمی طور پر جنگ بندی عمل میں آئی۔ اس جنگ
میں بھارت نے جموں و کشمیر میں 1948ء کی جنگ بندی لائن سے پاکستان کی طرف
340.88مربع میل علاقے پر قبضہ کرلیا جس میں کرگل اور وادی لیپا کے اہم
علاقے شامل ہیں جبکہ پاکستان نے بھارتی کشمیر میں چھمب سیکٹر کے 58.38مربع
میل علاقے قبضہ کرلیا۔ اس طرح دونوں اطراف سے افواج کی پیش قدمی عسکری
اہمیت کے علاقوں تک محدود رہی۔
جنگ کے فوراً بعد بھارت نے یہ تاثر دینا شروع کردیا کہ ریاست جموں و کشمیر
میں پرانی جنگ بندی لائن ختم ہوچکی ہے اور اب سترہ دسمبر کی پوزیشن کو ہی
مستقل تسلیم کیا جائے۔ 21دسمبر کو بھارتی وزیر خارجہ سردار سون سنگھ نے
سلامتی کونسل کو بتایا کہ بھارت کشمیر میں جنگ بندی لائن کی ترمیم و اصلاح
پر اصرار کریگا تاکہ یہ مضبوط، معقول اور باقی رہنے والی بن جائے اور
31دسمبر کو اندرا گاندھی نے اس مطالبہ کی تصدیق کردی کہ معاملات کے تصفیہ
کے لئے کشمیر کی پرانی جنگ بندی لائن کی درستی ضروری ہے۔ دو فروری 1972ء کو
بھارتی وزیر دفاع جگ جیون رام نے کہا کہ پاکستان سے امن مذاکرات میں کشمیر
کی جنگ بندی لائن کو ردوبدل کرکے بین الاقوامی سرحد بنانا ہوگا۔ انہوں نے
یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے مبصر اب غیر ضروری ہیں۔ ان کی اب کوئی ذمہ
داری نہیں رہی کیونکہ لڑائی سے پرانی جنگ بندی لائن مکمل طور پر ختم ہو گئی
ہے۔ اس کے بعد 9مئی کو وزارت دفاع کے وزیر مملکت وی سی شکلا نے راجیہ سبھا
میں کہا کہ 1949ء کی جنگ بندی لائن چونکہ اب نہیں رہی اس لئے اقوام متحدہ
کا گروپ جو لائن کی نگرانی کررہا ہے اب اسے مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ اس کے
بعد بھارتی وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ نے زور دیا کہ جنگ بندی لائن چونکہ
بدل چکی ہے اس لئے اقوام متحدہ کے مبصرین کوئی مفید خدمت سرانجام نہیں دے
سکتے اور قانونی طور پر وہ اب کسی نئے معاہدہ کے تحت ہی کوئی کام کرسکتے
ہیں۔ |
|