ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کنٹرول
لائن کو ’’سرحدی کشمیر لائن‘‘ میں تبدیل کیا جانا وقت کی اہم ضرورت
ہے،دونوں ملکوں کے سربراہوں کو اپنے اپنے طور پر’’سرحدی کشمیرلائن‘‘ کا
اعلان کرنا چاہئے ، کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام کی درینہ خواہش رہی
ہے کہ صوبہ کشمیر کی خوشحالی کیلئے یہاں پائیدار امن قائم ہویہ امن سرحدی
کشمیر لائن کے قیام سے ہی ممکن ہے،امن کی عدم دستیابی کی وجہ سے گذشتہ 62
سالوں سے باہمی انتشار نے دونوں ملکوں کی ترقی کو بہت زیادہ متاثر
کیاہے،دونوں ملکوں کے عوام گمراہیت کی دلد ل میں الجھے جارہے ہیں، دونوں
ملکوں کے سیاست داں ، عوام کو اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کررہے ہیں،
کچھ شدت پسند لوگ جن کا تعلق ابو جہل کے خاندان سے ہے، ان کی ایک الگ منطق
ہے، یہ لوگ جھگڑے اور فساد میں یقین رکھتے ہیں، یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے،
یہ لوگ امن کے دشمن ہیں،یہ لوگ اپنی گمراہیت بھری تحریک سے ایک لاکھ سے
زائد کشمیر یوں کو ناگہانی موت کے منہ میں دھکیل چکے ہیں، ان لوگوں کے
ہاتھوں میں ایک خطرناک امریکی خنجر ہے ، جس کو رائے شماری کا امریکی خنجر
کہا جاتا ہے، اس خنجرکا ملکوں کو توڑنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے
استعمال سے ملک کمزور ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے قتل و غارت گیری ، خون ریزی،
لوٹ مار، بدامنی کو فروغ ملتا ہے، رائے شماری امریکی خنجر جہاں چلتا ہے
وہاں تباہی و بربادی لاتا ہے، بڑے بڑے ملکوں کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں
تبدیل کردیتا ہے، رائے شماری کا یہ خنجر امریکہ کی مفاد پرستی کا حصہ ہے،
اقوام متحدہ بھی اسی کے نقش قدم پر چلتا ہے، اس بات سے سب اچھی طرح آشنا
ہیں، کہ ماضی کے مضبوط ہندستان کو کئی حصوں میں تقیسم کردیا گیا ہے،حریت کے
نام پر کچھ دلال کشمیری عوام سے ان کی کشادہ آزادی چھین کر ان کو پنجرہ
نماآزادی کا جھانسہ میں الجھا کر اپنا سیاسی کھیل کھیلتے ہیں، یہ لوگ
کشمیری عوام کی طاقت کو کچلنے کیلئے ان کو حدود بندی کی چار دیواریوں میں
مقید کرانے کیلئے کام ہوتا ہے، ان حریت کے دلالوں کی مدد سے امریکہ و اقوام
متحدہ عرصہ دراز سے ثالثی بننے کیلئے ہر وقت بے چین وبے قرار رہتے ہیں،وہ
مسئلہ کا حل نہیں چاہتے بلکہ وہ اس مسئلہ کے ذریعہ اس خطہ کے عوام کو کمزور
کرنا چاہتے ہیں، دلالوں کو چھوڑ کر ہر مکتب ِفکر کے لوگ چاہئے وہ مذہبی ہوں
یا سماجی، ادبی فکر کے لوگ ہوں یا سیاسی ، کہ اس خطہ میں پائیدار امن ہی
چاہتے ہیں، اس خطہ کی سیاسی قیادت بھی شملہ سمجھوتہ کے تحت یہ فیصلہ کرچکی
ہے، کہ باہمی مسائل کو خوش اصوبی سے از خود ہی حل کریں گے،مگر یہاں دھشت
گردی وہ لوگ پھیلارہے ہیں، جو ثالثی کے ایجنٹ ہیں، جن کو’ لقمہ حرام ‘کی
تلاش ہے، وہ امن کو بدامنی میں تبدیل کرناچاہتے ہیں،جن کو انسانیت کے قتل
عام پر مزہ آتا ہے،یہ لوگ یہاں کے مسلمانوں کا ایک بار پھرقتل عام چاہتے
ہیں،یہ ایسا قتل عام چاہتے ہیں جیسا کہ 1947میں تقسیم کے وقت ہوا تھا،
اسلئے کشمیری عوام اب ان پر اپنا اعتماد نہیں رکھتے ، یہ خطہ امن پسندوں کا
ہے اور یہ مسئلہ دوبھائیوں کے درمیان ہے، اس مسئلہ کاحل کنٹرول لائن کو ’’
سرحدی کشمیر لائن ‘‘میں تبدیل کرنے سے ہی ممکن ہوگا،جو دلال بدامنی کے فروغ
میں شامل ہیں، ان لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سرحدی کشمیر لائن کے
اِدھر رہنا چاہتے ہیں یا اُدھر رہنا چاہتے ہیں،تاکہ ان کے برغلانے کی تحریک
بند ہوسکے، جس سے اس خطہ کے عوام بلا تفریق مذہب و ملت بہ عزت طور پر اپنی
زندگی گزار سکیں،
فی الوقت ہندوپاک کے درمیان اس خطہ کے دشمنوں نے اپنے مفاد کی خاطر ہندوپاک
کے عوام کو کچلنے کی جو کنٹرول لائن بنارکھی ہے اس کو ردّ کرتے ہوئے اس کو
سرحدی کشمیر لائن میں تبدیل کردینا وقت ہی اہم ضرورت ہے،، تاکہ حریت والوں
کی خود ساختہ غیر اصولی دوکانیں بند ہوجائیں، جس سے اس خطہ میں جو مسائل
مکاروں و دغابازوں کی دخل اندازی کی وجہ سے التو ا میں پڑے ہیں، اب ان کا
خاتمہ ضرور ہونا چاہئے، جس سے مختلف علاقوں میں رہنے والے کشمیریوں کو ایک
باوقار مقام مل سکے، وہ شاہانہ طور پرسرحدی کشمیر لائن کے اِدھر اور اُدھر
باآرام اپنی بہتر زندگی گزار سکیں، کیونکہ جب بھی دونوں ممالک امن کی جانب
بڑھتے ہیں، تو امن کے دشمن بم دھماکوپر اتر آتے ہیں، اور وہ اسلامی حلیہ
میں دھشت گردی پھیلاکر معصوم لوگوں کو قتل عام کرتے ہیں،اس سے وہ یہ ثابت
کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کہ ان موجود گی ہے، وہ امن نہیں ہونے دیں گے، یعنی
اس طرح امن کے قیام میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، جس سے ان کی کوشش یہ رہتی ہے
کہ امن کے قیام کو قبول نہیں کرتے ہیں،لیکن بھائی چارگی کے قیام کیلئے ملت
اسلامیہ اپنے اصول و ضوابط سے اب پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے،امن کو قائم کرنے
کا مرحلہ وہ ایک دن ضرور عبور کرلے گی، جھگڑالو ، ابوجہل کے خاندان کو ایک
کاری شکست ضرور ملے گی، انشاء اﷲ۔
اب اس خطہ کے حکمرانوں ، دانشوروں، علماؤں، مذہبی اکابرین،سماجی شخصیات ،
آئمہ حضرات ،اپنے بچوں کے بہتر مستقبل پر توجہ دینے والے والدین، کالین و
گرم کپڑوں کے سوداگروں، پھل اورسبزی کے بیوپاریوں اور سیاحوں کے خدمت گاروں
کی ایک ہی آوازبننا چاہئے جس سے کنٹرول لائن ختم ہو، اس کی جگہ سرحدی کشمیر
لائن کے قیام کے تعلق سے ایک نئے امن کے سلسلے کا آغاز ہو سکے،
اسلئے کشمیر عوام کی راحت کاری کیلئے کنٹرول لائن کو ’’سرحد ی کشمیر لائن
‘‘میں تبدیل کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے،مذہب اسلام ایک امن پسند مذہب ہے
اسلئے وہ بغیر خون ریزی کے انسانی تحفظ کی خاطر مسئلہ کا حل کیا جانا اﷲ
تعالیٰ کی خوشنودی کو فراہم کرتا ہے، تازہ حالات میں جو کچھ ہورہا ہے یا جو
کچھ چل رہا ہے وہ بہت خطرنا ک ہے، امریکہ کی شیطانی قوتیں اسلامی حلیہ میں
اپنا کام کرکے دنیا کے امن اور اس کی سلامتی کو تباہ و برباد کرنے میں
مصروف ِعمل ہیں، ہندوستان کے مذہبی عوام کی رائے، بشمول امن پسندوں کی رائے
یہ ہی ہے کہ کنٹرول لائن کو سرحد ی کشمیر لائن میں تبدیل کرکے اسلام دشمن و
امن دشمن طاقتوں کوکراری شکست دی جائے،اب عوام و حکمرانوں کو مل اس کام پر
عمل پیرا ہونا چاہئے یہ ہی وقت کی اشد ضرورت ہے اور یہ ہی وقت کا عظیم
تقاضہ ہے، جس سے اس خطہ میں خوشگوار تبدیلی آسکے۔ |