سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے وفاق اور حکومت
سندھ کے مابین کشیدگی شدت اختیار کرگئی ہے اب جب کہ وفاق نے اپنے اختیارات
استعمال کرتے ہوئے رینجرز کو مکمل اختیارات کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے
اور حکوم سندھ نے وفاق کے اس حکم نامے کو مسترد کر دیا ۔ دونوں حکومتیں
آمنے سامنے آچکی ہیں۔ اختلافات کوئی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ بہت واضح ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا یہ فرمانا کہ انہوں نے یعنی وفاق کے ساڑے تین
پوائینٹ تسلیم کر لیے ہیں معاملا صرف آدھے پوائینٹ پر اختلاف کا ہے۔ اگر اس
تشریح کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو تب بھی صورت حال واضح نہیں ہوتی ، دونوں
فریقین کی جانب سے توپوں کے منہ ایک دوسرے کی جانب کھلے ہوئے ہیں۔ آگ کے
گولے ایک دوسرے کی جانب پھینکے جارہے ہیں۔ایک جانب سندھ کے وزراء ہیں تو
دوسری جانب وفاق کے وزیر داخلہ، یہ معاملا کیسے حل ہوگا اور رینجرز کے
اختیارات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کوئی ایک فریق بھی پیچھے ہٹنے کو تیار
نہیں، ایک سیر تو دوسرا سواسیر دکھائی دے رہا ہے۔
وفاق کی جانب سے وزیر داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مزید دو ماہ
کے لیے سندھ کی منتخب اسمبلی کی قرار داد کو پسِ پشت ڈالتے اور رینجرز کے
اختیارات کو محدود کرنے کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے رینجرز کو مکمل
اختیارات کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ اس کا جواب جو ہونا تھا وہی ہوا حکومت
سندھ نے وفاق کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے
وفاق کی ہدایت پر عمل نہیں کر سکتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی
زرداری نے تو یہا ں تک کہہ دیا کہ وفاق نے سندھ پر حملہ کر کے آئین کو
پامال کیا، سلسلہ جاری رہا تو قوم عدم استحکام اور بے یقینی کی دلدل میں
پھنس جائیگی، عوام ان کوششوں کو مسترد کردیں گے ۔کراچی آپریشن کے کپتان شاہ
صاحب اعلان کرچکے ’ہم ڈرنے والے نہیں ، کوئی صوبے پر آنکھ نہیں اٹھا سکتا،
وزیرا عظم اپنے چودھری کو سندھ پر حملے سے روکیں‘۔ قائد حزب اختلاف سید
خورشید شاہ نے الزام لگایا کہ وفاق سندھ کے اختیارات چھین کر انہیں صوبائی
حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ان بیانات کی معاملے کی شدت کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ وزیروں کے بیانات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ
معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ سندھ حکومت نے ا س معاملے کو آئینی
کہتے ہوئے اسمبلی میں قرار داد پیش کی جو منظور کر لی گئی۔ اب سندھ کی
حکومت قانونی راستہ اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے۔ اس لیے کہ سندھ حکومت یہ
کہہ چکی ہے وفاق کی جانب سے رینجرز کو اختیارات کا دیا جانا آئین کی دفعہ
147کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے برعکس وزیر داخلہ کا موقف یہ ہے کہ اسے
انسداددہشت گردی ایکٹ 1997کے تحت اختیارات حاصل ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے حالیہ دورہ کراچی میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کو
جو کہ کراچی میں ہونے والے آپریشن کے کپتان بنائے گئے تھے کو نو لفٹ کیا وہ
سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا، جب ویزاعلیٰ نے میاں صاحب کی توجہ وفاق کی
زیادتی پر دلائی تو انہوں نے صرف اس قدر کہا کہ اسلام آباد آجائیں بیٹھ کر
بات کر لیں گے۔میاں صاحب کا وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو نو لفٹ کرنے کا
اثر اس قدر ہوا کہ شاہ صاحب تقریب کی باقی کاروائی کو ادھورا چھوڑ کر سیدھے
امراض قلب کے اسپتال پہنچ گئے۔ اس سے قبل شاہ صاحب نے جلدی جلدی میاں صاحب
سے اس قدر ضرور کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ صوبائی حکومت کے امور میں مداخلت
کر رہے ہیں، آپ بھی ہماری نہیں سن رہے ، بتائیں ہم کیا کریں۔ ان مختصر
باتوں پر میاں صاحب نے شاہ صاحب کو اسلام آباد آنے کا کہا۔ میاں صاحب کا
کہنا تھا کہ کراچی آپریشن انہوں نے شروع کیا وہ اسے ادھورا نہیں چھوڑیں گے۔
دہشت گردی کا کاخاتمہ اور کراچی میں مکمل بحالی امن ہمارا مشن ہے۔ تنازع کے
دوران سندھ میں گورنر راج کی سن گن بھی موجود ہے۔ باوجود اس کے کہ وفاق کے
بعض وزیراس کی سختی سے تردید کرچکے ہیں۔ وفاق کی جانب سے یہ انتہائی قدم
ہوگا جس سے جمہوریت کو ہی نہیں بلکہ پورا سیاسی نظام اس کی لپیٹ میں آجائے
گا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے سیاسی فیصلوں اور اب تک مختلف سیاسی اور
انتظامی معاملات کے حوالے سے انہوں نے جو حکمت عملی اپنائی ہے اس کے پیش
نظر محسوس ہوتا ہے کہ وہ سندھ میں رینجرز کے اس گھمبیر اور بگڑے مسئلے کو
بھی افہام و تفہیم سے حل کر لیں گے اور ملک سندھ کے حوالے سے خلفشار اور
عدم استحکام ہونے سے محفوظ رہے گا۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں امن آیا
ہے، سیاسی حکمت علمی اور تمام سیاسی جماعتوں کا کراچی آپریشن پر اتفاق خوش
آئند بات ہے لیکن رینجرز کی دن رات کی محنت اور حکمت عملی سے کراچی کی
رونقیں بحال ہوئیں ہیں، یہاں علمی، ادبی ،سماجی فضاء یکسر بدل گئی
ہے۔ایکسپو سینٹر میں کتاب میلے کا انعقاد، آرٹس کونسل میں ادبی میلے کا
انعقاد ، انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام تقریباً ہر ہفتہ ادبی نشست کا
اہتمام اور دیگر علمی و ادبی محفلو ں کا تسلسل کے ساتھ انعقاد کراچی میں
امن و سکون کی علامت ہیں۔ دہشت گرد کاروائیوں میں بے انتہا کمی آئی ہے،
اسٹریٹ کرائم، موبائل اسنیچنگ، بھتہ مافیا الغرض طرح طرح کے جرائم کو
رینجرز اور پولس نے کنٹرول کیا۔ لوگ آزادانہ طور پردن ہو یارات مصروفیات
نظر آتے ہیں ۔ لوگوں کے دلوں میں جو خوف اور ڈر تھا وہ بڑی حد تک جاتا رہا
ہے۔ رینجرز کو اختیارات سندھ حکومت نے ہی دیے تھے، رینجرز کی اقدامات کو
سندھ حکومت کی سطح پر سراہا گیا ہے۔پھر سندھ کے حکمرانوں میں یہ احساس کیوں
کر پیدہوگیا کہ رینجرز کے اختیارات کو محدود اور کچھ قدغن لگا ئی جائے۔ اس
کے پیچھے کئی عوامل ہیں۔ ان میں اگر سو فیصد حقیقت نہیں تو کچھ کوتاہیاں
ضرور ہیں جن کے باعث سندھ حکومت کو یہ احساس ہوتا گیا کہ صوبے میں کچھ ان
کے خلاف یا ان کی مرضی کے بغیر ہورہا ہے۔ اس کی بنیاد ڈاکٹر عاصم کی طویل
گرفتاری ہے محسوس کی جارہی ہے جس نے اس معاملے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر
عاصم کی گرفتاری کوئی غیر معمولی واقع نہیں اس سے قبل بے شمار اہم لوگوں کو
گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ خود آصف علی زرداری پابند سلاسل رہ چکے ہیں۔
رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو تین ماہ اپنی تحویل میں رکھا ، جو الزامات سامنے
آئے وہ اس قدر گھمبیر نہیں ، یا تو ابھی کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے والا
معاملہ ہے۔ بصورت دیگر زمینوں کو ریاعتی قیمت پر خریدلینا، کیمشین لینا،
ملازمت دینا، اسپتال میں ان لوگوں کا علاج کرنا جن کو یہ حق حاصل نہیں تھا
وغیر وغیرہ اور پھر ان کے خلاف دہشتگردوں کے سہولت کار کا مقدمہ درج کیا
گیا۔ سندھ حکومت نے اس گرفتاری کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور ڈاکٹر
عاصم کو کسی طرح بچانے کی ایسی تدابیر بھی کیں جو حکومتی سطح پر مناسب نہیں
تھیں۔ اس عمل نے رینجرز اور وزارت داخلہ کو حکومت سندھ کے اقدامات کو مناسب
نہ سمجھا اور وفاق اور حکومت سندھ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے۔
وزیرا عظم میاں نواز شریف نے شروع میں اس معاملے سے اپنے آپ کو الگ تھلک
رکھا اور اپنے وزیروں کو بھی کھلی چھٹی دے دی کہ وہ سندھ حکومت کو خوب خوب
سنائیں،لتاڑیں، تنقید کا نشانہ بنائیں ادھر سندھ حکومت کب پیچھے رہنے والی
تھی اس کے وزیروں نے بھی اپنی توپوں کا منہ وفاق کے جانب کردیا۔ حتیٰ کہ
آصف علی زرداری نے دبئی میں بیٹھ کر سخت بیانات دیے، بلاول بھٹو زرداری نے
ان سے بھی زیادہ سخت زبان استعمال کی۔ اس طرح معاملہ خراب سے خراب تر ہوتا
گیا۔ وزیراعظم کے حالیہ دورہ کراچی میں میاں صاحب نے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے
ساتھ جس قسم کا سلوک کیا اس سے یہ احساس تقویت پا گیا کہ وفاق کی جانب سے
اب تک جو کچھ سامنے آیا میاں صاحب کے علم میں سب کچھ تھا اور وہ خاموش
تماشائی بنے رہے۔ اگر وہ تدبر سے کام لیتے ہوئے ابتداء ہی میں حکومت سندھ
کو اعتماد میں لے لیتے، حکومت سے رابطہ کر لیتے، وزیر اعلیٰ کو اسلام آباد
اسی طرح طلب کر لیتے جیسے اب انہوں نے دعوت دی اور اس موضوع پر گفت و شنید
کی تو بات بگاڑ کی جانب نہ جاتی۔وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ سے وزیراعظم
میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی ، میاں صاحب نے شاہ صاحب کو تھپکی دی اور
کہا کہ آپ کراچی آپریشن کے کپتان تھے ، ہیں اور رہیں گے۔ کراچی آپریشن جاری
رکھنے پر اتفاق ہوا جو ایک مثبت اقدام ہے، وفاق کا جاری کردہ اختیارات کا
نوٹیفیکشن برقرار رہے گا ، چودھرنثار کو ایک ہفتہ میں معاملا حل کرنے کی
ہدایت کی۔ یہ ہے شاہ صاحب کی میاں صاحب سے ملاقات کا حاصل۔ چودھری نثار کو
حکومت سندھ کے تحفظات کو دور کرنا ہوتا تو وہ رینجرز کی دو ماہ کے لیے
تعیناتی کا حکم نامہ جاری نہ کرتے، گفت و شنید کا باب شروع کردیتے۔ لگتا یہ
ہے کہ ٹال مٹول، لارے لپوں سے دو ماہ گزار لیے جائیں گے۔ اس کے بعد معاملہ
اسی جگہ پر کھڑا ہوگا جہاں پر اب سے چند دن قبل تھا۔ مبہم اور غیر واضح
صورت حال ہے ۔
دونوں فریقین نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی جانب کوئی ٹھوس اور قابل عمل نکات
پر گفتگو نہیں کی ،عوامی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اس اہم تنازع
کا مستقل حل ضروری ہے۔ |